آج میں یہ بھی عرض کر دوں کہ لاہور منتقل ہونے کے بعد ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۱ء تک قریباً چھ سال مجھے پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا بڑا وافر اور مسلسل موقع ملا ہے. میرا کلینک کرشن نگر میں تھا جو اَب اسلام پورہ کہلاتا ہے . چشتی صاحب روزانہ شام کو میرے پاس آ جاتے تھے اور ان سے میرا تبادلۂ خیالات ہوتا تھا. اس طرح میں نے دس بارہ سال قبل جو پختہ رائے قائم کر لی تھی ‘اس میں مجھے نہ صرف پختگی حاصل ہوئی بلکہ اس خاکے میں رنگ بھرا گیا. اس ضمن میں مَیں ان کا احسان مند ہوں. اُس وقت تک میں نے نہ تو شیخ احمد سرہندی کی مکتوبات کا مطالعہ کیا تھا نہ علامہ اقبال کے فارسی کلام کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا‘ لہذا یہ حقیقت مجھے درحقیقت ان کے ذریعے ہی معلوم ہوئی کہ شیخ احمد سرہندیؒ بھی اپنی زندگی کے آخری دَور میں وحدت الوجود کے قائل ہو گئے تھے. اس پر انہوں نے کلامِ اقبال کی شروحات میں بڑی مفصل تحریریں لکھی ہیں اور یہ بات ثابت کی ہے . اسی طرح علامہ اقبال نے بھی زندگی کے آخری دَور میں ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کا نعرہ بڑے بلند آہنگ کے ساتھ بلند کیا تھا. ان کی ایک رباعی ملاحظہ کیجیے جو علامہ نے اپنی وفات سے کل تین ماہ قبل کہی تھی ؎ 

تو اے ناداں دلِ آگاہ دریاب
بخود مثلِ نیاگاں راہ دریاب
چساں مؤمن کند پوشیدہ را فاش
ز لا مَوجُودَ اِلَّا اللّٰہ در یاب!

’’اے غافل!تو ایسا دل حاصل کر جو آ گاہ ہو. جیسے تمہارے بزرگ خود راستہ تلاش کرتے رہے ہیں (اور غور و فکر کے ذریعے سے حقیقت تک پہنچتے رہے ہیں) اسی طرح تم بھی کوشش کرو (یعنی محض تقلید کی روش اختیار نہ کرو بلکہ تحقیق کا راستہ اختیار کرو.)جس طرح مؤمن پوشیدہ کو رفتہ رفتہ فاش کرتاہے تم بھی ’’لاموجود الاّ اللہ‘‘ سے حقیقت تک رسائی حاصل کرو.‘‘

یہ گویا فکر انسانی کی آخری منزل ہے. تو حضرت مجدد الف ثانی ؒ بھی وہیں پہنچے تھے اور علامہ اقبال بھی بالآخر وہیں پہنچے . بلکہ علامہ اقبال کے بعض اشعار تو ایسے ہیں کہ تصوف اور ہمہ اوست کا عامیانہ تصور بھی ان کے یہاں موجود ہے .لیکن میں اس وقت اس طرف نہیں جانا چاہتا کہ ان کی کیا تاویل کی جائے گی.میں نے اِس وقت صرف یہ بتایا ہے کہ سن ۵۶.۱۹۵۵ء میں میری جو رائے قائم ہو چکی تھی اس کے بعد ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۱ء تک کے عرصہ میں اس میں پختگی پیدا ہوئی. اب میں چاہتا ہوں کہ ذرا اس کی وضاحت کر دوں. جہاں تک ’’ہمہ از اوست‘‘ کا تعلق ہے یہ تمام مسلمان اہل سنت‘ متکلمین ‘ائمہ اور علماء دین کے نزدیک متفق علیہ بات ہے. یہ توحید کا کم سے کم تقاضا ہے کہ جو کچھ ہے اللہ سے ہے (ہمہ از اوست)‘ یعنی وہ خود بخود وجود میں نہیں آیا‘ بلکہ اللہ کا تخلیق کردہ ہے. جیسے سورۃ الطور میں فرمایا گیا : 
اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَیۡرِ شَیۡءٍ اَمۡ ہُمُ الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾ ’’کیا یہ خود بخود بن گئے (کسی کے بنائے بغیر) یا یہ خو داپنے آپ کو بنانے والے ہیں؟‘‘ ظاہر بات ہے کہ بنانے والا اللہ ہے .نہ از خود کوئی بنا ہے اور نہ یہ اپنے آپ کو بنانے والے ہیں. قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر آیا ہے. سورۂ لقمان کی آیت ۱۱ میں یہ مضمون بایں الفاظ آیا ہے : ہٰذَا خَلۡقُ اللّٰہِ فَاَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ 

’’یہ سب اللہ کی تخلیق ہے‘ ذرا بتاؤ کہ اس کے سوا بھی کسی نے کچھ بنایا ہے؟‘‘

’’ہمہ از اوست‘‘ تو عقیدۂ توحید کی مبادیات میں سے ہے جس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہو سکتا. اب ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ہمہ با اوست‘‘ کیا ہے؟ یہ اصل میں وہ نظریہ ہے جو فلسفۂ وجود کی پہلی منزل کی نشان دہی کرتا ہے.

ہمارے اسلاف میں ایک تو علاؤ الدین صمدانی ؒ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش 
(enunciate) کیا اور پھر یہ زیادہ مشہور مجدد الف ثانی ؒ کے نظریہ وحدت الشہود کے نام سے ہوا. اس کا حاصل یہ ہے کہ کائنات اور خالق دونوں کا وجود اپنی اپنی جگہ پر ہے.اب ظاہر ہے کہ دونوں کا ساتھ ساتھ تو ثنویت ہے‘ پھر تو (خالق اور مخلوق) دو وجود ہو گئے! چنانچہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے ڈاکٹریٹ کا جو تھیسز لکھا تھا : "Mujaddid's Concept of Toaheed" وہ مجھے بہت پسند ہے.اکثر لوگوں کی نظروں سے حضرت مجددؒ ‘کا آخری موقف اوجھل ہے‘ لیکن عام طور پر جو چیز ان کی طرف منسوب ہوتی ہے وہ یہی ثنویت (Dualism) ہے‘ توحید وجودی نہیں ہے. ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے اسے واضح طور پر تسلیم کیا ہے. ایک دیانت دارانہ تحقیق کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا جو بھی نتیجہ نکل رہا ہے آدمی اسے بیان کرے. بہرحال یہ ثنویت ہے اور ایک اعتبار سے اسے شرک فی الوجود کہا گیا ہے.