غالبؔ کا ایک شعر ہے ؎
جاروبِ لا بیار کہ ایں شرک فی الوجود
با گردِ فرش و سینہ بایواں برابر است

یعنی ہمارا سینہ ایک ایوان کی مانند ہے اور یہ شرک فی الوجود (کہ وجود ہمارا بھی ہے اور اللہ کا بھی)اُس گرد کی مانند ہے جو اس ایوان پر آ گیا ہے .چنانچہ ’’لا‘‘ کی جھاڑ لاؤ اور اس سے اسے صاف کر دو.شرک فی الوجود کا خاتمہ توحید وجودی سے ہوتا ہے‘ جس کی ایک تعبیر ’’ہمہ اوست‘‘ ہے. دنیا بھر میں جو چوٹی کے نظریاتی (idealist) فلسفی ہیں وہ اسی کے قائل ہیں. ان کا نقطۂ آغاز افلاطون ہے. حکیم فلاطینوس کا تعلق سکندریہ (مصر) سے تھا جس کے نظریات ہمارے مسلمانوں کے تصوف میں سرایت کر گئے. اسی طرح ابن عربی اندلس سے متعلق تھے. اس ضمن میں دو بڑی شخصیتیں برعظیم میں مشہور ہوئیں. ایک ہندوئوں میں شنکر اچاریہ اور دوسرے اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں مرزا عبدالقادر بیدل‘ جو فارسی کے عظیم شعراء میں سے ہیں. یہ چار چوٹی کے لوگ ہیں جنہوں نے اس نظریے کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے .البتہ اس کے جو تین shades ہیں اور اس اعتبار سے اس کی جو تین تعبیرات ہیں انہیں علیحدہ علیحدہ identify کر لیجیے. اسی حوالے سے میں نے کہا تھا کہ ع ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را! اس فرق کو اگر ملحوظ نہیں رکھیں گے تو شرک و کفر ہو جائے گا. 

ہمہ اوست کی ایک تعبیر 
Pantheism ہے .یعنی جب وجود ایک ہی ہے تو یہ کائنات گویا خدا کا حصہ ہے یا ہمہ تن خدا ہے‘ خود خالق ہی نے مخلوق کی شکل اختیار کر لی‘ جیسے برف پگھل کر پانی بن گئی اور پانی کو آپ نے ابالا تو وہ بھاپ بن گیا. اب پانی ہی برف بھی ہے اور بھاپ بھی ہے. اس نظریے میں کائنات کو حقیقی مانا گیا ہے کہ یہ درحقیقت واقعی ہے اور یہ خالق کا حصہ ہے یا خالق ہی ہے .اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ عظیم ترین کفر و شرک ہے اور اس کا اسلام کے ساتھ یا حقیقت کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے.

دوسری تعبیر وہ ہے جو حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے اپنی زندگی کے آخری دَور میں اختیار کی کہ حقیقت میں وجود ایک ہی ہے جو اللہ کا ہے‘ جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ درحقیقت ہے ہی نہیں. اس کی مثال میں دے چکا ہوں کہ آپ ایک مشعل کو دائرے کی صورت میں حرکت دیں تو ایک آتشیں دائرہ نظر آئے گا جو حقیقت میں موجود نہیں ہے. یہ دراصل اس کائنات کی نفی ہے کہ ا س کا کوئی وجود ہے ہی نہیں. چنانچہ وجود صرف ایک ذاتِ باری تعالیٰ کا رہ گیا‘ جس سے شرک اور ثنویت کا خاتمہ ہو گیا. اسی کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے!

اور عربی شعر مَیں آپ کو پہلے بھی سنا چکا ہوں ؎ 
کل ما فی الکون وہمٌ او خیالٌ
اَو عکوسٌ فی المرایا او ظلالٌ

یعنی کائنات میں جو کچھ موجود ہے وہ محض وہم یا خیال ہے ‘یہ یا تو محض آئینوں میں نظر آنے والے عکس ہیں یا سائے ہیں. حقیقت میں تو صرف ذاتِ باری تعالیٰ کا وجود ہے اور کوئی شے حقیقتاً موجود نہیں ہے ؏ ہر چند کہیں کہ ہے ‘ نہیں ہے ! لیکن یہ بات کہ کائنات کا وجود ہے ہی نہیں‘ قابل قبول نظر نہیں آتی. یہ ایک شاعرانہ خیال یا فلسفیانہ توجیہہ تو ہو سکتی ہے‘ لیکن کائنات تو بڑی ٹھوس حقیقت ہے. آپ نے شرک فی الوجود کی نفی کرنے کے لیے کائنات ہی کی نفی کر دی؟ 

میرے نزدیک اس کا اصل حل وہ ہے جو شیخ ابن عربی ؒ نے دیا ہے‘ جومَیں بیان کر چکا ہوں ‘کہ حقیقت وماہیت وجود کے اعتبار سے خالق و مخلوق کا وجود ایک ہے‘ کائنات میں وہی وجودِ بسیط سرایت کیے ہوئے ہے ‘ لیکن جہاں تعین ہو گیا تو وہ پھر غیر ہے‘ اُس کا عین نہیں. چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات کا وجود ایک اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا عین اور دوسرے اعتبار سے اس کا غیر ہے. یہ ابن عربی کا فلسفہ ہے. اور ابن عربی ہمارے دینی حلقوں کی سب سے زیادہ متنازعہ فیہ (controvercial) شخصیت ہیں. ان کی حمایت اور مخالفت دونوں انتہا کو پہنچی ہیں. ہمارے صوفیاء کی عظیم اکثریت انہیں شیخ اکبر کے نام سے جانتی ہے. ان کی کتابیں ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ تصوف کی بہت اہم کتابیں ہیں. دوسری طرف اختلاف بھی اتنا شدید ہے کہ امام ابن تیمیہؒ نے ان کو ملحد و زندیق قرار دیا ہے اور جو بھی شرعی گالی ہو سکتی تھی ان کو دی ہے.میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اگر شیخ اکبر کی کسی بات کی تائید کر رہا ہوں تو وہ ان کا صرف یہ نظریہ ہے‘ باقی میں نے نہ فصوص الحکم کا مطالعہ کیا ہے‘ نہ فتوحاتِ مکیہ کا. یہ بڑی دقیق کتابیں ہیں اور آدمی جب تک قدیم فلسفہ و منطق میں مہارتِ تامہ بہم نہ پہنچا لے اس کے لیے ان کتابوں کا پڑھنا آسان کام نہیں ہے.ویسے بہت سی باتیں ان کی طرف غلط بھی منسوب کر دی گئی ہیں‘ جیسا کہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم نے اپنی کتاب ’’اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش‘‘ (۱میں بہت سی مثالیں دی ہیں کہ خاص طور پر ہمارے ہاں جو باطنی لوگ تھے (جو شیعیت کا ایک شیڈ تھا) انہوں نے اہل سنت کو گمراہ کرنے کے لیے صوفیاء کی طرف بہت غلط باتیں منسوب کی ہیں. انہوں نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک بہت بڑے عالم اور صوفی کسی جگہ گئے تو وہاں ایک مسجد میں ان کی اپنی کتاب کا درس ہو رہا تھا‘ جسے سن کر انہوں نے کہا کہ توبہ توبہ میں نے یہ بات آج (۱) یہ کتاب اب انجمن خدام القرآن سے شائع ہو رہی ہے. تک کبھی نہیں کی‘ بلکہ یہ بات تو میرے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آئی.

اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ بہت بڑی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم اس کتاب (القرآن) کے خود محافظ ہیں اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ کتابِ الٰہی کا محفوظ رہنا بھی آسان کام نہیں ہے جب تک کہ اللہ کا خصوصی فیصلہ نہ ہو. اسی لیے تو ایک دَور میں احادیث نبویؐ میں موضوع روایات کا ایک ایسا طومار شامل کر دیا گیا تھا کہ پھر محدثین کو پوری پوری زندگیاں کھپانی پڑیں اور انہوں نے موضوع روایات کو الگ کیا اور صحیح و ضعیف احادیث کو بھی علیحدہ علیحدہ کیا.اسی طرح اہل تصوف کی طرف بہت سی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں. میں نہ تو ابن عربی کا وکیل ہوں اور نہ ان کی ہر بات کی ذمہ داری لیتا ہوں. ان کے ہاں جو تضاد موجود ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان ہی کی طرف یہ شعر بھی منسوب ہے کہ ؎

الرّب عبدٌ والعبد ربٌّ
یا لیت شعری مَن المکلّف!

’’ربّ ہی عبد ہے اور عبد ہی ربّ ہے (یعنی خالق و مخلوق ایک ہی ہیں) تو 
میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس کو حکم دیا جا رہا ہے (کہ عبادت کرے اور کس کی عبادت کرے!)‘‘
لیکن دوسری طرف ان ہی کا ایک شعر ہے ؎ 

الرّبّ رَبٌّ وان تنزّل
والعبد عبدٌ وان ترقّٰی

’’اللہ‘ اللہ ہی ہے‘ چاہے وہ کتنا ہی نزول فرما لے اور بندہ ‘بندہ ہی رہے گا چاہے جتنا بھی بلند ہو جائے .‘‘

محمد عربی  ساتویں آسمان تک گئے ہیں لیکن وہ معبود نہیں بن گئے ‘بلکہ عبد ہی رہے ہیں.
میں نے اس مسئلہ کو ایک اور طریقے سے بہت ہی سادگی کے ساتھ حل کیا ہے. مجھ پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ میری گفتگو‘ میرا غور و فکر اور میرے اخذ کردہ نتائج بالکل 
mathematical اور الجبرا کے فارمولوں کی طرح ہوتے ہیں. آج سے ۳۵سال پہلے میری جو رائے تھی وہ میں بیان کر چکا . آج اس ضمن میں میری کیا رائے ہے اور اس کا صغریٰ کبریٰ کیا ہے‘ یہ میں اب بیان کر رہا ہوں. 

ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ کے حوالے سے میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہ رہا ہوں . ظاہر اور باطن کے اعتبار سے اس آیت کی کچھ مزید وضاحت ہونی چاہیے تھی جو نہیں ہو سکی. اسحوالے سے امام رازی کا ایک قول آپ کو سنانا چاہوں گا.اللہ تعالیٰ ظاہر بھی اتنا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی ظاہر نہیں ‘ وہ self evident ہے‘ آفتاب آمد دلیل آفتاب! اس لیے کہ پوری کائنات درحقیقت اسی کا ظہور ہے ؎

معمور ہو رہا ہے عالم میں نور تیرا
از ماہتاب و ماہی سب ہے ظہور تیرا!

تو ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظاہر کون ہو گا؟ 

ردائے لالہ و گل ‘ پردۂ ماہ و انجم
جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے!

پوری کائنات کے اندر اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت‘ اس کے علم اور اس کی حکمت کا ظہور ہے ؎ 
وفی کلّ شیئٍ لہ آیۃٌ
تدلّ علٰی انّہ واحدٌ

ہر شے میں اُس کی نشانی موجود ہے جو یہ دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا ہے‘ تنہا ہے. لیکن اپنی کُنہ کے اعتبار سے اور اپنی ذات کے اعتبار سے وہ اس قدر باطن اور خفی ہے کہ اسے کوئی نہیں جانتا. اللہ تعالیٰ کے اس ظاہر اور باطن ہونے میں امام رازی نے بڑی خوبصورت نسبت قائم کی ہے. ان کا قول ہے کہ :

ان کمال کونہ ظاھرا سبب لکونہ باطنا‘ فسبحان من اختفٰی عن العقول لشدۃ ظھورہ واحتجب عنھا بکمال نورہ 
’’درحقیقت اس کے ظہور کی شدت اور کمال ہی اس کا سبب ہے کہ وہ نگاہوں سے چھپ گیا ہے (سورج جب نصف النہار پر چمک رہا ہو تو آپ آنکھ بھر کر اسے دیکھ نہیں سکتے‘ اس کی وجہ اس کی شدتِ ظہور ہے جس کے باعث آپ کی نگاہ چکا چوند ہوجاتی ہے.) بس بڑی پاک ہے وہ ذات جو اپنے شدتِ ظہور کے باعث عقولِ انسانی سے چھپ گئی ہے اور اپنے نور کے کمال کے باعث عقولِ انسانی سے حجاب میں آ گئی ہے.‘‘

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ظاہر اور باطن ہونا تو بیک وقت (simultaneous) ہے اور ان دونوں میں جو گہرا رشتہ ہے اس کی اس طرح تاویل کی جا سکتی ہے جیسے امام رازی نے فرمائی ہے. 

شیخ ابن عربی کے بارے میں مَیں عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک حقیقت و ماہیتِ وجود کے بارے میں ان کی رائے کا تعلق ہے ‘میں اس سے متفق ہوں اور میرا مسلک بھی وہی ہے. البتہ اور بہت سی باتیں‘ خواہ انہوں نے لکھیں یا ان کی طرف غلط منسوب کر دی گئیں‘ ان سے میرا کوئی تعلق نہیں. لہذا میں نہ تو ان کے بارے میں جواب دہ ہوں‘ نہ ان کی وضاحت میرے ذمہ ہے اور نہ ہی مجھے ان کے وکیل کی حیثیت حاصل ہے. خود اس فلسفہ وجود کے بارے میں بھی مَیں عرض کر چکا ہوں کہ اس کا تعلق نہ شریعت سے ہے نہ طریقت سے. اس فلسفہ کو جس کا جی چاہے قبول کرے اور جو اسے ردّ کرنا چاہے ردّ کر دے . اس کے نہ ماننے سے کسی اعتبار سے بھی دین میں کوئی کمی یا نقص واقع نہیں ہوتا. البتہ تنقید اور اختلاف کے معاملے میں دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ جس شخص کے نظریات پر آپ تنقید کر رہے ہیں پہلے اس کے اصل مسلک کو ضرور سمجھ لیں.شیخ ابن عربی کے فلسفہ وجود پر اکثر وبیشتر ناقدین‘ بالخصوص آج کل کے سلفی المزاج لوگ ‘ جس انداز کی تنقیدیں کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ ایک تو ان لوگوں نے اس مسئلہ کو سمجھا ہی نہیں‘ اور دوسرے یہ کہ جو باتیں شیخ ابن عربی نے کہی ہی نہیں وہ بھی ان سے منسوب کر دیتے ہیں. بہرحال اس مسئلے کو میں نے اپنے طور پر جس طرح حل کیا ہے وہ میں بیان کر رہا ہوں.

اللہ تعالیٰ کی معرفت تو ہمارے لیے مطلوب و مقصود ہے اور اسی پر ہمارے طرزِ عمل اور دینی رویے کی ساری بنیاد ہے. معرفت ِربّ جس قدر گہری ہو گی اسی قدر ہمارے عمل میں گہرائی ہو گی‘ معرفت میں جتنی زیادہ وسعت ہو گی ہمارے دینی رویے اور دینی روش میں بھی اتنی ہی زیادہ وسعت ہو گی. گویا معرفت ِربّ اور ہمارا دینی رویہ ایک دوسرے کے ساتھ راست متناسب(proportionate) ہوں گے میں عرض کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دو حصے ہیں:(۱) ذاتِ باری تعالیٰ‘ اور (۲)صفاتِ باری تعالیٰ ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں مَیں نے آپ کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دو مقولوں پر مشتمل ایک شعر سنایا تھا: 

العِجزُ عن دَرکِ الذّاتِ اِدراکٗ
والبَحثُ عن کُنہِ الذّاتِ اِشراکٗ

یعنی جب انسان کو اللہ کی ذات کے ادراک سے عاجز ہونے کا احساس ہو جائے تو بس یہی ادراک ہے. اور اگر اللہ تعالیٰ کی ذات کی کنہ میں کھود کرید کروگے تو شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے.گویا معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد!
شیخ سعدیؒ نے اس بات کو خوب بیان کیا ہے ؎

تواں در بلاغت بہ سُحباں رسید
نہ در کنہِ بے چونِ سبحاں رسید!

سحباں ایک بہت ہی حکیم شخصیت کا نام ہے جو فصاحت و بلاغت کی معراج پر فائز تھے. شیخ سعدیؒ کہتے ہیں کہ بلاغت و فصاحت اور خطابت میں تو انسان سحباں تک بھی پہنچ سکتا ہے‘ لیکن ذاتِ باری تعالیٰ سبحانہٗ کی کُنہ تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے.

اللہ تعالیٰ کی معرفت کا دوسرا حصہ صفات پر مشتمل ہے. معرفت ِربّ کے بارے میں مَیں اپنی حدود و قیود 
(limitations) عرض کر چکا ہوں کہ ہماری ساری معرفت صفات کے حوالے سے ہے. ’’ایمانِ مجمل‘‘ کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے: 

آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ 
’’میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفات سے ظاہر ہے.‘‘

لیکن صفات میں بھی ہم نہ اُن کی کمیت کا ادراک کر سکتے ہیں اور نہ کیفیت کا.
صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ہمارے ہاں علم کلام کا یہ مسئلہ متکلمین کے مابین ہمیشہ زیر بحث رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کا عین ہیں یا غیر؟ علامہ اقبال نے بھی اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘میں اس مسئلے کی نشاندہی کی ہے ؎

ہیں صفاتِ ذاتِ حق حق سے جدا یا عینِ ذات؟
اُمت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذات و صفات میں کیا نسبت ہے؟ ہمارے لیے تو صفت اضافی شے ہے. ایک وقت تھا کہ مجھے کچھ بھی علم حاصل نہیں تھا. آج مجھے تھوڑا یا زیادہ کچھ نہ کچھ علم حاصل ہے‘ اور ہو سکتا ہے کہ میں ارذل العمر تک پہنچ جاؤں اور وہ علم بالکل زائل ہو جائے (اعاذنا اللّٰہ مِن ذٰلک) گویا صفت ِعلم ہمارے وجود پر ایک اضافی شے ہے‘ وہ ہمارے وجود کا حصہ نہیں ہے. لیکن کیا ہم اللہ کے بارے میں یہ تصور کر سکتے ہیں؟ اس مسئلہ پر بڑی طویل بحثیں ہوئی ہیں. میری یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے مولانا منتخب الحق صاحب سے استفادہ کا موقع ملا جو اِس دَور میں فلسفہ و منطق کے قدیم مکتب فکر ’’خیرآباداسکول آف تھاٹ‘‘ کی آخری شخصیت تھے. جب میں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کیا تھا تو وہاں میں نے مولانا منتخب الحق صاحب سے استفادہ کیا اور یہ مسئلہ میری سمجھ میں آیا. میں یہاں وہ مسئلہ تو بیان نہیں کر رہا‘ لیکن اس کا سب کے نزدیک جو متفق علیہ حل ہے وہ ہے ’’لا عینٌ ولا غیرٌ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات نہ اس کی ذات کا عین ہیں اورنہ غیر. سمجھ میں آئے تب بھی یہ ماننا پڑتا ہے نہ آئے تب بھی ماننا پڑتا ہے‘ اس لیے کہ اگر عین مانیں گے تب بھی بہت سی ایسی چیزیں لازم آ جائیں گی جنہیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اگر غیر مانیں گے تب بھی ایسی بہت سی چیزیں لازم آ جائیں گی جن کا اللہ کے بارے میں گمان بھی نہیں کیا جا سکتا. ’’لا عینٌ ولا غیرٌ‘‘ کی ایک تعبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ’’من وجہٍ عینٌ ومن وجہٍ آخر غیرٌ‘‘ یعنی ایک اعتبار سے وہ غیر ہیں اور ایک اعتبار سے عین . یہ گویا دوسرا مقدمہ ہوا.

اب آیئے تیسری بات کی طرف! ہر شخص جانتا ہے کہ یہ سلسلۂ کون و مکان اللہ تعالیٰ کے ایک امر ’’کن‘‘ کا ظہور ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں دو مقامات (الکہف:۱۰۹ و لقمان:۲۷)پر آیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے کلمات کو گن نہیں سکتے. اگر کل روئے ارضی کے درخت قلم اور سارے سمندر سیاہی بن جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے‘ لیکن سیاہی ختم ہو جائے گی .اگر سیاہی کی اتنی ہی مقدار مزید لائی جائے تو وہ بھی اس مقصد کے لیے ناکافی ہو گی. لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا ﴿۱۰۹﴾ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات اللہ کے کسی نہ کسی کلمہ کن کا ظہور ہیں. اب سمجھئے کہ ’’کن‘‘ کیا ہے؟کلام ہے‘ کلمہ ہے. اور کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے. گویا حرفِ ’’کن‘‘ اللہ کی صفت ہے اور صفت کے بارے میں متکلمین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ’’لا عینٌ ولا غیرٌ‘‘ . اس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ کائنات نہ اللہ کا عین ہے اور نہ غیر ہے‘ اور یہی بات ہے جو شیخ ابن عربی کہہ رہے ہیں: 

من وجہٍ عینٌ ومن وجہٍ آخر غیرٌ 

ایک اعتبار سے یہ عین ہیں اور ایک اعتبار سے غیر ہیں.ماہیت ِوجود (essential being) میں اتحاد ہے‘ لیکن جہاں بھی تعین ہو گا اور مختلف چیزوں کا definite وجود مان لیا جائے گا تو وہ اللہ کا غیر ہے. یہی مسلک ابنِ عربی کا ہے اور یہی اس مسئلے میں میری توجیہہ ہے.

اس سلسلہ میں آخری بات یہ عرض کر رہا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے حضرات کا شاید یہ ذوق نہ ہو‘ اس کے باوجود میں یہ مسئلہ اس لیے بیان کر دیا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں اور اسلاف کے بارے میں سوئے ظن نہ رہے جو وحدت الوجود کے قائل ہیں.اس سے ہمیں اپنے آپ کو بچا لینا چاہیے ‘ کیونکہ یہ بہت بڑی محرومی ہے. کسی بھی شخص سے اختلاف کا حق ہر شخص کو حاصل ہے‘ یہاں تک کہ آراء کی حد تک ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی اختلاف کر سکتے ہیں. کوئی شخص یہ رائے رکھ سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فلاں معاملہ میں یوں نہ کرتے تو بہتر ہوتا. اس لیے کہ ہمارے نزدیک عصمت خاصۂ نبوت ہے اور نبوت کے خاتمہ کے ساتھ عصمت ختم ہو چکی. محمد رسول اللہ کے بعد اب کوئی بھی معصوم نہیں ہے.