آیاتِ زیر درس کا رواں ترجمہ و مفہوم

اس سورۂ مبارکہ کا دوسرا حصہ اس کے عملی پہلو پر مشتمل ہے. میں چاہتا ہوں کہ پہلے ان پانچ آیات کا ایک رواں ترجمہ سامنے آجائے. واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے پہلی ہی آیت بڑی عظمت کی حامل ہے اور ان پانچوں کو ایک کل کی حیثیت سے سامنے رکھیں گے تو نظر آئے گا کہ جہاں ایک طرف فصاحت و بلاغت کی معراج ہے وہیں جامعیت اور اس کے ساتھ ترتیب اور توازن کی بھی انتہا ہے جو آپ کو ان پانچ آیات میں ملے گی. پہلی آیت کا رواں ترجمہ یوں ہو گا:

’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر (یا ایمان رکھو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر) اور خرچ کر دو (لگا دو‘ کھپا دو) ان سب چیزوں میں سے جس میں اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے. تو جو لوگ تم میں سے (دین متین کے یہ دو تقاضے پورے کردیں. یعنی) ایمان لے آئیں اور انفاق کا حق ادا کر دیں تو ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے.‘‘

ایک آیت میں جامعیت کے ساتھ دین کے جملہ تقاضوں کو دو الفاظ میں بیان کر دیا گیا. حسن ترتیب اور حسن توازن ملاحظہ کیجیے کہ اب ان میں سے ہر ایک تقاضے پر دو دو آیات آ رہی ہیں‘ ایک ایک آیت میں ذرا سرزنش‘ ڈانٹ ڈپٹ‘ زجر اور ملامت کا انداز ہے اور ایک ایک آیت میں ترغیب اور تشویق ہے. فرمایا:

’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے درانحالیکہ رسول تمہیں دعوت دے رہا ہے کہ اپنے ربّ پر ایمان رکھو اور وہ تم سے قول و قرار لے چکا ہے اگر تم واقعی مؤمن ہو.‘‘

اس آیت میں گویا زجر وملامت اور ایک طرح کی تنبیہہ اور سرزنش ہے. اس کے بعد اگلی آیت میں تشویق و ترغیب آئی ہے کہ اگر تمہیں اپنے باطن میں جھانکنا نصیب ہو جائے ‘ اپنے دلوں کو ٹٹولنے کی سعادت حاصل ہو جائے اور محسوس ہو کہ واقعتا خانۂ دل ایمان سے خالی ہے تو بھی گھبراؤ نہیں. فرمایا:

’’وہی ہے (اللہ) جو نازل فرما رہا ہے اپنے بندے پر روشن آیات ‘تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے‘ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے.‘‘

اندھیرے شرک کے ہیں‘ کفر و الحاد کے ہیں‘ مادیت کے ہیں‘ حرص و ہوا کی غلامی کے ہیں ؎
کریما بہ بخشائے بر حالِ ما
کہ ہستم اسیر کمند ہوا!

یہ مختلف 
shades of darkness ہیں. قرآن مجید میں ’’ظُلُمات‘‘ ہمیشہ جمع کے صیغہ میں اور ’’نور‘‘ ہمیشہ واحد آیا ہے. نور کے اندر تعدد بھی لایا گیا ہے تو بھی واحد کے صیغے میں : نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ جبکہ اندھیروں کا تذکرہ بایں الفاظ فرمایا: ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ. تو اللہ نے یہ کتاب اتاری ہے‘ اس کی یہ آیاتِ بینات ہیں جو تمہیں ہر طرح کے اندھیروں سے ‘تمام ظلمات سے‘ ہر طرح کے shades of darkness سے نکال کر روشنی میں لے آئیں گی. یقینا اللہ تعالیٰ رؤف و رحیم ہے. وہ تم پر بہت مہربان ہے‘ وہ تمہارا خیر خواہ ہے‘ تم پر رحم فرمانے والا ہے.

تو یہ دو آیات ہو گئیں. اب اگلی دو آیات میں بھی یہی انداز ہے. ان میں سے پہلی آیت میں وہی سرزنش کا اسلوب ہے. فرمایا:

’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (تم پر یہ بخل کیوں طاری ہو گیا؟ تم نے یہ سینت سینت کر رکھنے کی روش کیوں اختیار کر لی؟) حالانکہ آسمان و زمین کی وراثت تو اللہ ہی کے لیے ہے. (تم سب دنیا سے چلے جاؤ گے اور یہ سب کچھ اللہ ہی کے لیے رہ جائے گا.) برابر نہیں ہیں تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے فتح سے پہلے انفاق اور قتال کیا تھا . ان کے درجات بہت بلند ہیں اُن کے مقابلے میں جنہوں نے فتح کے بعد انفاق اور قتال کیا‘ اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں .اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے.‘‘

فعل وہی ہے ’’اِنفاق‘‘ یعنی جان و مال کا کھپانا‘ لیکن جن حالات میں کوئی شخص کر رہا ہے اس اعتبار سے اس کی قدر و قیمت میں زمین و آسمان کا فرق و تفاوت واقع ہوجائے گا. جب دین غربت کی حالت میں ہے ‘ پامال ہے‘ دین کا کوئی ساتھی نہیں‘ دین کا کوئی جاننے والا نہیں ‘ ازروئے حدیث نبویؐ : بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْباً وَسَیَعُوْدُ غَرِیْباً کَمَا بَدَأَ ‘ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ (۱’’دین کی ابتدا حالت ِاجنبیت میں ہوئی اور عنقریب یہ دوبارہ ویسے ہی اجنبی ہو جائے گا جیسے ابتدا میں تھا. پس خوش خبری ہے ان اجنبیوں کے لیے‘‘. تو اس حالت ِغربت میں جنہوں نے اسلام کا ساتھ دیا ان السَّابقون الاوّلون کا اللہ کے ہاں جو مرتبہ ہے اس تک وہ لوگ ہرگز نہیں پہنچ سکتے جو اسلام کو غلبہ حاصل ہونے کے بعد آئے اور قتال و انفاق کیا. اگر وہ حسن نیت سے آئے ہیں تو اُن کے اجر و ثواب کی بھی اللہ کی طرف سے ضمانت دی گئی ہے‘ لیکن درجے میں وہ اُن کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے جنہوں (۱) صحیح مسلم،کتاب الایمان نے حالت ِغربت میں اور حالت ِضعف میں دین کا ساتھ دیا. ان سب سے اللہ کا بہت اچھا وعدہ ہے. جنت سب کو ملے گی‘ جو پہلے آئے ان کو بھی اور جو بعد میں آئے ان کو بھی‘ البتہ حسن نیت شرط ہے. پھر جنت کے درجات میں بھی بہت فرق و تفاوت ہو گا. حدیث میں آیا ہے کہ نچلے درجے والا جنتی اوپر کے درجے والے جنتی کو ایسے دیکھے گا جیسے تم زمین سے آسمان پر ستاروں کو دیکھتے ہو. 
آیت کے آخر میں فرمایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے. اس سے پہلے آیت ۴ میں الفاظ آئے تھے : 
وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۴﴾ جبکہ یہاں فرمایا : وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿٪۱۰’’بصیر‘‘ اور ’’خبیر‘‘دونوں الفاظ اردو میں مستعمل ہیں. قرآن مجید میں ترتیب کے لحاظ سے ’’بصیر‘‘ کو مقدم اور ’’خبیر‘‘ کو مؤخر کیا جاتا ہے. اس لیے کہ خبر اصل شے ہے‘ بصارت میں دھوکہ کھانے کا اندیشہ ہوتا ہے. وہ خبیر ہے ‘یعنی وہ تمہارے باطن سے بھی باخبر ہے‘ تمہاری نیتوں کو بھی جانتا ہے. حدیث نبویؐ کے الفاظ ہیں : 

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ‘ وَلٰـکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ (۱
’’اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اور نہ تمہارے مال و دولت کو‘ بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے.‘‘

آیت ۱۰ ذرا طویل آیت تھی جس میں سرزنش کا انداز تھا‘ اب اگلی آیت میں جو ترغیب کا انداز ہے واقعہ یہ ہے کہ غالب کے اس شعر کے بالکل مصداق ہے کہ ؎
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صَلا میرے بعد!

’’کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دینے کی ہمت کرے؟ پھر وہ اس کو اس کے لیے بڑھاتا رہے گا اور اس کے لیے بہترین اجر ہے.‘‘

دنیا میں تمہارا قرضِ حسنہ کا تصور یہ ہے کہ صرف اصل زر واپس آئے گا‘ مزید کچھ نہیں ملے گا‘ لیکن تم اللہ کو قرضِ حسنہ دو گے تو وہ اس کو بڑھاتا رہے گا اور انفاق کرنے والے کو اصل مال تو بڑھ کر دوگنا‘ چوگنا‘ سوگنا ‘بلکہ سات سو گنا تک ملے گا ہی‘ بہترین اجر و ثواب اضافی طور پر اس کے علاوہ ہو گا. (۱) متفق علیہ یہ پانچ آیات ہیں جن پر اس سورئہ مبارکہ کا حصہ دوم مشتمل ہے‘ جس میں دین کے عملی تقاضوں کو نہایت فصاحت‘ بلاغت‘ خطابت اور غایت درجہ جامعیت اور حسن ترتیب اور حسن توازن کے ساتھ بیان کیا گیا ہے .ان آیات میں جو ترتیب اور توازن موجود ہے واقعہ یہ ہے کہ میرے علم کی حد تک اس کی کوئی دوسری نظیر قرآن مجید میں نہیں ملتی.