وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ ’’اور انفاق کرو اس میں سے جس پر اللہ نے تمہیں خلیفہ بنایا ہے‘‘. یہ الفاظ اس اعتبار سے بھی فکر انگیز ہیں کہ ان میں ہماری حیثیت معین کی گئی ہے. پہلے تو فرمایا کہ تمہیں خلافت دی گئی ہے‘ اپنے آپ کو مالک نہ سمجھ بیٹھنا. نہ تم ملک ہو نہ مالک ہو‘ مالک حقیقی بھی اللہ اور ملک حقیقی بھی وہی ہے. تمہیں تو خلافت دی گئی ہے ‘ تم نائب ہو‘ تم custodian ہو‘ تم امین ہو‘ تم اللہ کے حکم کی تنفیذ کرنے والے ہو. یہ مفہوم لفظ ’’استخلاف ‘‘میں پنہاں ہے. پھر یہاں اسم مفعول کا صیغہ ’’مُسْتَخْلَف‘‘ آیا‘ کہ یہ خلافت بھی تم نے خود حاصل نہیں کی ہے ‘بلکہ اللہ نے تمہیں عطا کی ہے. مزید یہ کہ مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ میں ’’مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ ‘‘ مفعول بہٖ بن کر آیا ہے‘ یعنی تم مجعول ہو. درحقیقت تمہاری تو کوئی حیثیت ہے ہی نہیں‘ اس نے تمہیں بنایا ہے خلافت دیے ہوئے(مُسْتَخْلَفِیْنَ) اُن چیزوں میں جو کہ اُس نے تمہیں دی ہیں. ان میں تمہارا جسم ہے‘ تمہاری توانائی ہے‘ تمہاری ذہانت و فطانت ہے‘ تمہاری دُوربینی اور دُوراندیشی ہے‘ تمہارا وقت ہے‘ تمہاری صحت ہے‘ تمہاری قوتِ کار ہے‘ تمہاری عمر ہے‘ خاص طور پر تمہاری جوانی کی عمر ہے. حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور ابن آدم کے قدم اُس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میںپوچھ گچھ نہ کر لی جائے : 

عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ اَفْنَاہُ؟ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ اَبْلَاہُ؟ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبُہٗ وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ؟ وَمَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ؟ (۱
’’(۱) اس کی عمر کے بارے میں کہ کہاں گنوائی؟ (۲) اس کی جوانی کے بارے میں کہ کہاں (۱) سنن الترمذی،فی صفۃ القیامۃ،باب ۱ لٹائی؟ (۳) اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا؟ (۴)اور کہاں خرچ کیا؟(۵) اور جو علم حاصل کیا اس پر کتنا کچھ عمل کیا؟‘‘

دیکھئے عمر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں دو سوال ہیں: ’’جو عمر ہم نے تمہیں دی تھی وہ کہاں گنوائی؟ اور خاص طور پر جوانی کہاں لگائی؟‘‘معلوم ہوا کہ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو اللہ نے ہمیں دی ہیں اور اُس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان سب چیزوں میں سے اس کی راہ میں انفاق کریں. 

آگے فرمایا: 
فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ اَنۡفَقُوۡا لَہُمۡ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ ﴿۷﴾ اب جب یہ دو تقاضے ’’ایمان اور انفاق‘‘ سامنے آ گئے‘ تو جو بھی تم میں سے ان دونوں تقاضوں کو پورا کر دیں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے. نوٹ کیجیے کہ یہاں اجر کے ساتھ ’’کبیر‘‘ کی صفت آئی ہے. آگے چل کر گیارہویں آیت کے آخر میں‘ جس پر دوسرے حصے کی آیات ختم ہورہی ہیں‘ ’’ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں .یہ اجر کی دو صفات ہیں‘ دو dimensions ہیں. یعنی ایک تو مقدار کے اعتبار سے یہ اجر بہت زیادہ ہو گا‘ دوسرے یہ کہ جب یہ اجر دیا جائے گا تو اس میں عزت افزائی کا پہلو بھی ہو گا. ورنہ عام طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ حدیث نبویؐ اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلٰی (متفق علیہ) کے مصداق لینے والا محسوس کرتا ہے کہ میری حیثیت کچھ کم ہوئی ہے ‘گری ہے‘ لیکن نہیں! اللہ کی طرف سے جب اجر ملے گا تو اس میں اکرام اور اعزاز ہو گا. وہ اجر کبیر بھی ہو گا اور اجر کریم بھی ہو گا.

اللہ تعالیٰ نے ہمیں جن چیزوں میں مستخلف بنایا ہے اگر یہ سب کچھ بھی ہم اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں تب بھی اس زعم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے کوئی بڑا تیر مار ا ہے اور ہم کسی بہت بڑی بلندی تک پہنچ گئے ہیں‘ بلکہ اس پر بھی اللہ کا احسان ماننا چاہیے کہ اس نے ہمیں اس کی توفیق دی. اگر اس کی راہ میں سب کچھ بھی دے دیا تو یہ تمہارا اپنا تو تھا ہی نہیں‘ دیا ہوا اسی کا تھا. بقول غالب ؎

جان دی‘ دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!

اگر تم نے اُسی کی دی ہوئی شے اُس کو لوٹا دی اور اُسی کا دیا ہوا مال اُس کے قدموں میں ڈال دیا تو کیا کمال کیا؟ اس حوالے سے شیخ سعدیؒ کے دو اشعار بہت ہی خوبصورت ہیں ؎ 

شکر خدائے کن کہ موفق شدی بخیر
ز انعام و فضل خود نہ معطل بداشتت

یعنی اللہ کا شکر ادا کرو کہ خیر کے لیے تمہیں اس کی جانب سے توفیق ملی ہے. اللہ نے تمہیں اپنے انعام اور فضل سے محروم نہیں کیا‘ معطل نہیں کیا.

اس میں لفظ ’’موفق‘‘ توفیق سے اسم المفعول ہے ‘یعنی تم موفق ہو‘ تمہیں توفیق بھی اسی کی دی ہوئی ہے. 
دوسرا شعر ہے: ؎ 

منّت منہ کہ خدمت سلطاں ہمیں کنی
منّت شناس از و کہ بخدمت بداشتت

تم بادشاہ پر اپنا احسان نہ دھرو کہ تم اُس کی خدمت کر رہے ہو ‘بلکہ بادشاہ کا احسان مانو کہ اُس نے تمہیں اپنی خدمت کا موقع عطا کیاہے. ایسے ہی تم اللہ کے اوپر اپنا احسان نہ دھرو‘ بلکہ اس کا احسان مانو!