آگے فرمایا: وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘‘ وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ’’حالانکہ (تم خوب جانتے ہو کہ) آسمانوں اور زمین کی کل میراث بالآخر اللہ کے لیے رہ جائے گی‘‘. اگرچہ اس آیت پر اصل گفتگو تو اگلی نشست میں ہو گی‘ لیکن نوٹ کر لیجئے کہ ایک تو ہم پہلے سمجھ چکے ہیں کہ سورۃ الحدید کی آیت ۷ میں جو انفاق کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ ہے. اور دوسرے یہ کہ اس سے مراد ’’انفاقِ مال‘‘ بھی ہے اور ’’بذلِ نفس‘‘ بھی. اب یہاں لفظ ’’قتال‘‘ کے حوالے سے اس کی تشریح آرہی ہے. ایک حدیث نبویؐ کے حوالے سے لفظ ’’میراث‘‘ کو سمجھئے. رسول اللہ فرماتے ہیں : ’’ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال‘ میرا مال! لیکن اے ابن آدم! تمہارے مال میں سے تمہارا اس کے سوا اور کیا ہے کہ جو تم نے کھا لیا اور ختم کر دیا‘ یا پہنا اور پرانا کر دیا‘ یا پھر جو تم نے (اپنی زندگی میں) صدقہ کر دیا اور آگے بھیج دیا‘‘. (مسلم‘ ترمذی‘ نسائی) مسلم کی ایک دوسری روایت میں الفاظ آئے ہیں کہ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر جانے والا ہے. یعنی باقی جو مال ہے وہ تمہارا نہیں‘ تمہارے وارثوں کا ہے. اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے صحابہؓ سے سوال کیا : اَیُّکُمْ مَالُ وَارِثِہٖ اَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ مَالِہٖ؟ ’’آپ لوگوں میں سے کون ہو گا جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ عزیز ہو؟‘‘صحابہ کرامؓ نے بالکل سادگی کے ساتھ حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! ہم میںسے کوئی ایسا نہیں جسے خود اپنا مال (وارث کے مال سے) محبوب تر نہ ہو.

اس پر حضور نے فرمایا: فَاِنَّ مَالَہٗ مَا قَدَّمَ وَمَالُ وَارِثِہٖ مَا اَخَّرَ (۱’’اُس کا مال تو وہ ہے جو اُس نے آگے بھیج دیا اور اُس کے وارث کا مال وہ ہے جو اُس نے پیچھے چھوڑا‘‘ یعنی تمہارا مال تو وہی ہے جو تم اللہ کی راہ میں اپنی زندگی کے اندر خرچ کرتے ہو‘ باقی تمہارے وارث کا مال ہے جو تم جمع کر رہے ہو. دیکھئے خرچ کرنا ایک ضرورت ہے‘ اپنے آپ کو maintain کرنا ہے‘ اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ہے. سر چھپانے کے لیے کوئی ایک چھت بھی چاہیے‘ آپ کو کھانا بھی چاہیے. اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا اپنی جگہ صحیح ہے. اور اگر آپ نے اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ کے مصداق اپنے آپ کو اللہ کے لیے وقف کر دیا ہو تو درحقیقت یہ (۱) صحیح البخاری سب کچھ بھی فی سبیل اللہ شمار ہو گا. گویا جو کچھ آپ اپنی ضروریات پر صرف کر رہے ہیں وہ بھی اللہ کے لیے کر رہے ہیں. صرف یہ بات پیش نظر رہے کہ ضرورت سے زائد کو جمع نہ کریں. جمع صرف آسمان پر کریں‘ جیسے حضرت مسیح ں کے ایک وعظ کا مفہوم ہے کہ زمین پر جمع نہ کرو جہاں چوری کا بھی ڈرہے‘ ڈاکے کا بھی اندیشہ ہے‘ کیڑا بھی خراب کرتا ہے‘ دیمک بھی لگ جاتی ہے‘ بلکہ آسمان پر جمع کرو ‘ جہاں نہ چوری کا ڈر‘ نہ ڈاکے کا خوف‘ نہ کیڑا خراب کر سکے. اس لیے کہ میں تم سے صحیح کہتا ہوں کہ جہاں تمہارا مال ہو گا وہیں تمہارا دل بھی ہو گا مال یہاں جمع کیا ہوا ہو گا تو ظاہر ہے دل بھی یہیں پر لگا ہو گا. دنیا سے جانے کو دل نہیں چاہے گا اور فرشتے دھکے دے دے کرلے کرجائیں گے. آدمی آگے جانے کے لیے تیار نہیں ہو گا.بلکہ حدیث میں الفاظ آتے ہیں کہ جیسے کانٹے دار سیخ کے اوپر سے کباب اتارا جاتا ہے اسی طریقے سے ایسے لوگوں کی روحیں کھینچی جائیں گی. ان کے برعکس ایک وہ ہیں جو جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں. بقول اقبال ؎ 

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم 
چوں مرگ آید تبسم بر لبِ اوست!

اس لیے کہ وہ اپنا سب کچھ تو پہلے ہی آگے بھیج چکے ہیں . ان کے لیے تو موت گویا ایک خوشخبری ہے . انہوں نے تو زندگی بھر کی کمائی وہاں آسمانوں پر جمع کی ہوئی ہے. ان کے لیے تو موت ایسے ہو گی جیسے کہ ایک بند مشکیزے میں سے ایک بوند پانی کی ٹپک جائے. ان کے لیے یہاں سے نقل مکانی کرنے میں کوئی ناگواری نہیں ہو گی‘ کوئی سختی نہیں ہو گی. اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ایسی موت عطا فرمائے. آمین!