داخلی و خارجی حالات کے اعتبار سے درجات میں فرق و تفاوت

آگے فرمایا : لَا یَسۡتَوِیۡ مِنۡکُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ ’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا (اور جنہوں نے فتح کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا) وہ برابر نہیں ہیں‘‘. آیت کریمہ کا یہ حصہ بہت اہم ہے. ہر عمل کی ایک ظاہری شکل اور کمیت ہوتی ہے اور ایک اس کی باطنی کیفیت ہوتی ہے کہ کن حالات میں وہ عمل کیا گیا ہے. ان دونوں اعتبارات سے عمل کے اجر و (۱) سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع. ثواب میں اور اللہ کے ہاں درجے کے تعین میں زمین و آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے. دیکھئے ایک انفاق اور قتال فتح سے پہلے ہوا ہے. اور یہاں اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ سورئہ مبارکہ کم سے کم صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی ہے. میں حیران ہوا ہوں کہ دورِ حاضر کے بعض مفسرین نے اس سورئہ مبارکہ کے زمانہ نزول کے طور پر غزوئہ اُحد اور صلح حدیبیہ کے مابین کا کوئی زمانہ معین کیا ہے‘ حالانکہ اس آیہ مبارکہ کے متذکرہ بالا الفاظ معین کر رہے ہیں کہ یہ سورئہ مبارکہ فتح کے بعد نازل ہوئی ہے. فتح کا اطلاق ظاہری اعتبار سے تو فتح مکہ پر زیادہ ہوتا ہے‘ لیکن قرآن مجید نے چونکہ صلح حدیبیہ کو بھی ’’فتح مبین‘‘ کہا ہے لہٰذا صلح حدیبیہ سے قبل تو اس سورئہ مبارکہ کے نزول کا کوئی امکان نہیں ہے. بہرحال فتح سے قبل اور بعد کی صورت حال میں بنیادی طور پر بہت زیادہ فرق ہے. اس بات کی وضاحت حضور کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے: بَدَأَ الْاِسِلْاَمُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ غَرِیْبًا فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ صحیح مسلم‘ کتاب الایمان.

’’اسلام کا آغاز ہوا تو وہ غریب تھا ‘ اور عنقریب یہ دوبارہ اسی غربت کی حالت کو لوٹ جائے گا جیسے یہ شروع ہوا تھا‘ پس خوشخبری ہے ایسے اجنبیوں کے لیے ‘‘. غریب سے مراد قلاش اور مفلس نہیں ہے‘ بلکہ غریب عربی میں ایسی شے کو کہتے ہیں جو جانی پہچانی نہ ہو‘ جس کا کوئی مونس و ہمدرد اور غم خوار نہ ہو. ہم عام طور پر کسی اجنبی کے لیے غریب الوطن کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.اس لیے کہ ایک شخص اپنے وطن میں ہے تو لوگ اسے جانتے اور پہچانتے ہیں‘ اس کا وہاں اعتماد ہے‘ اس کے وہاں دوست اور رشتے دار ہیں‘ لیکن ایک شخص اگر اکیلا کہیں باہر چلا گیا ہے تو اب وہاں کوئی اس کا جاننے پہچاننے والا نہیں‘ کوئی ہمدرد نہیں‘ کوئی مونس و غمخوار نہیں . گویا یہ شخص غریب الوطن ہے. اسی طرح اسلام بھی ابتدا میں غریب اور اجنبی تھا. اس کے بعد اسلام پر ایک دور آیا کہ اللہ نے اس کو قوت اور غلبہ دیا. اب ظاہر بات ہے کہ جس شے کو غلبہ حاصل ہو اس کے جاننے پہچاننے والے‘ اس کے ہمدرد و غمخوار تو سبھی ہو جائیں گے‘ تو بہت سے لوگ اس کے دامن سے وابستہ ہو گئے. حضور نے یہ خبر دی تھی کہ عنقریب یہ دوبارہ اسی حالت غربت کو لوٹ جائے گا جیسے کہ یہ شروع ہوا تھا.

ا س بات کو نوٹ کیجیے کہ مسلمانوں کا غلبہ اور اقتدار اگرچہ بہت عرصے تک چلا ہے‘ لیکن اسلام تو بہت جلد غریب ہو گیا. یہ وہی دور ہے جب حضرت ابوہریرہ ص نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرمسے علم کے دو برتن حاصل کیے تھے‘ ان میں سے ایک سے تو میں نے خوب علم بانٹا ہے ‘اسے خوب پھیلایا 
اور عام کیا ہے‘ لیکن اگر دوسرے کا منہ بھی کھول دوں گا تو میری گردن اڑا دی جائے گی(صحیح بخاری). تو واقعہ یہ ہے کہ اسلام بہت جلد غریب ہو گیا تھا ‘البتہ مسلمانوں کا غلبہ ‘ ان کی سطوت اور شان و شوکت بہت عرصے تک چلی ہے. پھر عربوں کا یہ دورِ عروج ختم ہو ا تو دو تین صدیوں پر محیط ایک ایسا دَور آیا جو اُمت ِمسلمہ کے لیے بہت ہی زوال کا دور تھا. اس کے بعد پھر سے ترکوں کے ذریعے مسلمانوں کو ایک عظمت اور سطوت ملی‘ لیکن اسلام پھر بھی غریب کا غریب رہا. مغل اعظم کا دَور تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے لیے سب سے بڑی غربت کا دور تھا. اگرچہ برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کی سیاسی حکومت نصف النہار پر تھی‘ لیکن اسلام تو درحقیقت بالکل زیریں سطح پر پہنچ چکا تھا ‘ بلکہ اندیشہ ہو گیا تھا کہ اس برعظیم سے اس کا خاتمہ ہو جائے گا. وہاں پر ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے ایک نیا دین وجود میں آ چکا تھا. 

بہرحال یہ نوٹ کیجیے کہ جب اسلام حالت ِغربت میں ہو گا تو انفاق اور قتال کا درجہ اللہ کی نگاہ میں بہت بلند ہو گا‘جبکہ وہی کام یعنی انفاق اور قتال اگر اسلام کے غلبے کے دور میں ہو گا تو اس کے مقابلے میں درجہ بہت کم رہ جائے گا ‘اگرچہ حسن نیت اگر ہے تو بہرحال سب کے لیے اللہ کا اچھا وعدہ ہے . ازروئے الفاظِ قرآنی: 
وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی (الحدید:۱۰’’اللہ تعالیٰ نے سب سے بہت عمدہ وعدہ کیا ہے‘‘. حسنٰی‘ احسن کا مؤنث ہے‘ یعنی اللہ کا سب اہل ایمان سے بہت عمدہ وعدہ ہے ‘لیکن جو لوگ بعدمیں قتال اور انفاق کرنے والے ہیں ان کا وہ درجہ کبھی نہیں ہو سکتا جو وہ لوگ لے گئے جنہوں نے یہ کام فتح سے پہلے کیے. بقول شاعر ؎ 

یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں!

اب اجر و ثواب اور درجات کے تعین میں جو دوسرا عنصر ہے‘ یعنی عمل کی باطنی کیفیت‘ اس کو ذہن میں رکھئے! جس طرح خارجی حالات کے اعتبار سے ہر عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں‘ جیسے ایک عمل اسلام کی غربت اور مغلوبیت کے دور میں ہے اور ایک اسلام کے غلبے اور اس کی قوت و سطوت کے دور میں ہے‘ اسی طرح داخلی اعتبار سے بھی ہر عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں جن کے اعتبار سے عمل کی قدر و قیمت بڑھتی یا گھٹتی ہے. ایک ہے حسنِ نیت‘ جس کا معاملہ اکثر و بیشتر مشکوک رہتا ہے. ایک انسان تو وہ ہے جو شعوری طور پر ریاکاری کر رہا ہے. یہ شعوری ریاکاری تو شرک ہے اور ایک ایسی چیز ہے کہ جیسے کوئی بڑی سے بڑی رقم صفر سے ضرب کھا کر صفر ہو جائے. بلکہ اس سے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے. جیسے فرمانِ نبویؐ ہے : مَنْ صَلّٰی یُرَائِ یْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِ یْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِ یْ فَقَدْ اَشْرَکَ (۱’’جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی وہ شرک کر چکا‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا وہ شرک کر چکا‘ جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا وہ شرک کر چکا‘‘. لیکن یہ تو شعوری ریاکاری ہوئی‘ جبکہ ایک ہے تحت الشعور میں ریاکاری کا عنصر. جیسے سورۃ التغابن میں اللہ تعالیٰ کے علم کی تیسری جہت ( third dimension) ان‘الفاظِ مبارکہ میں لائی گئی ہے: وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۴﴾ کہ اللہ تو سینوں کی پوشیدہ باتوں سے بھی واقف ہے. بسا اوقات انسان کو خود اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کس طرح غیر شعوری اور غیرمحسوس طور پر اس کی نیت کے اندر کہیں کسی درجے میں سمعہ اورریاکا حصہ شامل ہوجاتا ہے. اس اعتبار سے یقینا عمل کے اجر و ثواب اور اس کے مرتبے کے اندر کمی آجائے گی ‘لیکن اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے‘ یہ تو اللہ تعالیٰ کے علم کامل‘میں ہے .

اس کے علاوہ ایک داخلی پہلو اور بھی ہے. اللہ نے تمام انسان ایک جیسے پیدا نہیں کیے ‘ مختلف لوگوں کی جبلتیں مختلف ہیں .اس کو سورئہ بنی اسرائیل میں یوں بیان کیا: 
قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ (آیت۸۴’’کہہ دیجیے (اے نبی !) کہ ہر شخص اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کرتا ہے‘‘. شاکلہ کہتے ہیں شکل دینے والی شے کو ‘جسے عام طور پر سانچہ (mould) کہا جاتا ہے. آپ لوہا یا کوئی اور دھات پگھلا کر کسی سانچے میں ڈال دیں تو اس کی شکل اس سانچے کے مطابق ہو جائے گی. تو یہ سانچہ جو ہے یہ شاکلہ ہے. ہر انسان کا ایک جداگانہ شاکلہ ہے . آج کے دور میں یہ بات جینز یا جی نیٹکس کے حوالے سے بہت معلوم و معروف ہے. ہمیں نامعلوم کہاں کہاں سے جینز ملے ہیں! نامعلوم کتنی پشتوں سے یہ جینز چلے آ رہے ہیں جو ہماری شخصیت کو ایک شکل دیتے ہیں. ہر شخص کا جوجینیٹک structure ہے اور جو اُس کی شخصیت کا شاکلہ ہے وہ اللہ کے علم میں ہے. فرض کیجیے کسی شخص کے اندر اپنے شاکلہ کے اعتبار سے شہوت کا زیادہ زور ہے ہی نہیں‘ اب اگر ایسا شخص پاک دامن ہے تو اُس نے کوئی بڑا تیر نہیں مارا. لیکن اگر کسی شخص کے اندر شہوت کا زور ہے اور پھر وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھے ہوئے ہے اور پاک دامن ہے تو یہاں اب دونوں کے اجر و ثواب اور درجے میں فرق واقع ہو جائے گا. پاک دامنی دونوں کی برابر ہے‘ لیکن کس شخص نے کس حالت میں اپنے آپ کو کنٹرول کیا ہے‘ اس اعتبار سے فرق (۱)رواہ احمد واقع ہو جائے گا. اسی طرح ایک شخص طبعاً بزدل ہے‘ اس کے اندر جرأت اور شجاعت نہیں ہے‘ لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کی راہ میں آگے بڑھ رہا ہے تواس کا مقام و مرتبہ اس شخص سے بہت بلند ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی طبعاً جرأت مند بنایا ہے اور اس کے اندر سے خوف نکالا ہوا ہے اور وہ بھی اسی شخص کے مانند اللہ کی راہ میں آگے بڑھ رہا ہے. تو یہ ساری چیزیں ہیں کہ جن سے کسی کے عمل کی قدر و قیمت اور اس عمل کرنے والے کا درجہ متعین ہوتا ہے.

اسی لیے فرمایا : 
وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۲۷۱﴾ ’’اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے جو تم عمل کرتے ہو‘‘.میں یہ بات پہلے نوٹ کرا چکا ہوں کہ اس سورۃ میں بھی اور سورۃ التغابن میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ’’بصیر‘‘ کا ذکر پہلے ہوا ہے اس کی صفت ’’خبیر‘‘ کے ذکر سے. اس سورئہ مبارکہ کی آیت ۴ میں ہے : اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۱۱۰﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ خوب دیکھنے والا ہے اس کو جو تم کرتے ہو‘‘. سورۃ التغابن میں بھی یہی ترتیب ہے. اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ’خبیر‘میں بہت گہرائی ہے کہ وہ ہر شے سے خوب باخبر ہے. ہماری زبان میں بصارت کا لفظ عام طور پر ظاہری بصارت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے. اس کا تعلق زیادہ تر کسی بھی عمل کے ظاہر سے ہوتا ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کی صفت خبیر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کس نے کیا عمل کس حالت میں کیا ہے‘ اس نے اس کام کی انجام دہی کے لیے اپنی کتنی اندرونی رکاوٹوں کے اوپر غلبہ حاصل کیا ہے اور اسے اس کے لیے کتنی جدوجہد کرنا پڑی ہے. اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے کہ کس شخص کے لیے یہ کام کتنا آسان ہے .لہٰذا حالاتِ خارجی اور حالاتِ داخلی (پھر داخلی حالات میں بھی نیت اور شاکلہ دونوں شامل ہیں) ان سب کے اعتبارات سے کسی بھی عمل کی قدر و قیمت کا تعین ہو گا. ہمارے بڑے سے بڑے کمپیوٹر کے لیے بھی یہ قطعاً ممکن نہیں ہے کہ وہ ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھ کر کوئی معاملہ طے کر سکے. لہٰذا واضح کر دیا گیا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو صرف اللہ اس سے باخبر ہے. تمہارے ان اعمال کا ہر پہلو اس کے سامنے واضح ہے. ہر شخص کا درجہ اللہ تعالیٰ کے علم قطعی کے اعتبار سے معین ہو گا.