میدان حشر کی تاریکیوں میں اہل ایمان اور منافقین کے مابین تفریق

میدانِ حشر کی تاریکیوں میں اہل ایمان کے نور کی کیفیت اور ایمان کے دعوے داروں کی اہل ایمان اور منافقین کے مابین تفریق ٭ ’’راہِ نفاق‘‘ کے سنگ ہائے میل


اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم 
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۚ۱۲﴾یَوۡمَ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ؕ فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ؕ بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ ﴿ؕ۱۳﴾یُنَادُوۡنَہُمۡ اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی وَ لٰکِنَّکُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تَرَبَّصۡتُمۡ وَ ارۡتَبۡتُمۡ وَ غَرَّتۡکُمُ الۡاَمَانِیُّ حَتّٰی جَآءَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ غَرَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ ﴿۱۴﴾فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۵﴾ اس سورئہ مبارکہ کا تیسرا حصہ چار آیات (آیت ۱۲ تا ۱۵) پر مشتمل ہے. جیسے پہلے حصے کی آیت : ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳﴾ فلسفے کی بلند ترین چوٹی پر ہے اور فلسفہ ٔوجود کے عقدے کو حل کر رہی ہے اسی طرح اس تیسرے حصے میں ایک آیت ہے جو نفاق کی حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ نفسیاتی سطح پر نفاق کے کیا مدارج اور مراحل ہیں؟ نفاق کہاں سے شروع ہوتا ہے‘ پھر اس کا دوسرا درجہ کیا ہے‘ تیسرا درجہ کیا ہے؟نفسیاتی طور پر منافق کے اندر کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ وغیرہ.

سورۃ المنافقون کے درس میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ نفاق کے تین درجے ہوتے ہیں ‘جیسے ٹی بی کے تین درجے (stages) ہوتے ہیں. نفاق کا پہلا درجہ یہ ہے کہ جب اللہ کی راہ میں مال او رجان کے کھپانے کا حکم آتا ہے تو ایسا شخص اس جہاد و قتال اور انفاقِ مال سے بچنے کے لیے جھوٹے بہانے شروع کر دیتا ہے. لیکن جب محض جھوٹے بہانوں کا اعتبار نہیں رہتا تو پھر جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں‘ یہ نفاق کا دوسرا درجہ ہے. جیسے فرمایا گیا: اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ (المجادلۃ:۱۶’’انہوں نے اپنی (جھوٹی) قسموں کو ڈھال بنا لیااور اللہ کے راستے سے رُکتے گئے!‘‘نفاق کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جب سچے اہل ایمان اللہ کی راہ میں جان اور مال کی بازیاں لگارہے ہوتے ہیں تو ان کے خلاف ان کے دلوں میں بغض اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے. سچے اہل ایمان کو تو جب پکارا جاتا ہے تو وہ فوراً لبیک کہتے ہیں. بقول فیض ؔ : ؎ 

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریت جاں ‘ راحت تن ‘ صحت داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی!

تو جن اہل ایمان کی یہ روش ہوتی ہے وہ اب منافقین کے دلوں میں کھٹکنے لگتے ہیں‘کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہم نمایاں ہو رہے ہیں. ان کے خیال میں ان دیوانوں اور پاگلوں نے انہیں مصیبت میں ڈال رکھا ہوتا ہے. تو اب مؤمنین صادقین‘اور محمد رسول اللہ کے ساتھ‘ جو اُن کے امیر ہیں‘ ان کی دشمنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ نفاق کا تیسرا درجہ ہے. 

یہ تین مدارج تو علامات ہیں جو عمل میں ظاہر ہوتی ہیں‘ لیکن ذہن میں اور نفسیات کے اندر جو کھچڑی پک رہی ہوتی ہے وہ کیا ہے؟اور یہ علامات درحقیقت کس اندرونی مرض کا ظہور ہیں؟ یہ اس 
سلسلۂ آیات کا مرکزی مضمون ہے.