آگے ترجمہ کر لیجیے : یَوۡمَ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا انۡظُرُوۡنَا ’’اُس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ اہل ایمان سے کہیں گے کہ ذرا ہمارا انتظار کرو!‘‘ اب ذرا اس کو چشم تصور سے دیکھئے کہ جنہیں وہ نورِ ایمان اور نورِ اعمالِ صالحہ مل گیا وہ خوشی خوشی راستہ طے کر رہے ہیں اور جن کے پاس یہ نور نہیں ہے وہ انہیں باحسرت و یاس پکار رہے ہیں کہ ذرا ہماری حالت پر نظر کرو!ذرا ہمارا انتظار کرو! نَظَرَ یَنْظُرُ دیکھنے کے معنی میں آتا ہے اور اسی سے باب افتعال کا مصدر ’’انتظار‘‘ آتا ہے. انتظار کے معنی تو بالکل معین ہیں کہ کسی کا انتظار کرنا‘ کسی کی راہ دیکھنا ‘ کسی کو ذرا مہلت دینا. تو ’’اُنْظُرُوْنَا‘‘ یہاں اسی معنی میں ہے کہ ذرا ہمیں مہلت دیجیے‘ ہمارا انتظار کیجیے! نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ’’تاکہ ہم آپ کے نور سے اقتباس کر لیں‘‘.آپ کے نور سے ہم بھی کچھ فائدہ اٹھا لیں‘ کچھ روشنی حاصل کر لیں. یعنی ہم خود تو تہی دست ہیں‘ ہمیں نور نہیں ملا‘ آپ ذرا ہم پر عنایت کریں! یہ اقتباس کا لفظ بھی قَبَسَ سے باب افتعال کا مصدر ہے.
قَــبَسٌ کہتے ہیں چنگاری کو .آپ کسی کے چولہے سے چنگاری لے آئے اور اپنے چولہے میں آگ جلالی تو یہ اقتباس ہے. اردو میں ہم یہ لفظ quotation کے معنی میں استعمال کرتے ہیں. آپ اپنا کوئی مضمون لکھ رہے ہیں اور اس میں آپ نے کسی اور کے مضمون سے کوئی شے لاکر شامل کی تو یہ اقتباس ہے.گویا آپ نے کسی کے چولہے سے ایک چنگاری لا کر اپنے چولہے میں شامل کی ہے. اس کی آپ نشان دہی بھی کر دیتے ہیں کہ یہ اقتباس(quotation) ہے جو فلاں کے مضمون سے لیا گیا ہے. حضرت موسٰی ں کو دورانِ سفر راستے میں جب آگ نظر آئی تھی تو انہوں نے اپنی رفیقۂ حیات سے کہا تھا : امۡکُثُوۡۤا اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِقَبَسٍ اَوۡ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی ﴿۱۰﴾ (طٰـہٰ) ’’ٹھہرو‘ مجھے آگ نظر آئی ہے ‘ شاید میں وہاں سے آپ کے لیے کوئی انگارا لا سکوں یا مجھے اس آگ پر سے راستے کا ہی کچھ پتا چل جائے‘‘. تو یہاں منافقین کے قول میں بھی وہی لفظ آیا ہے : انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ کہ ذرا ہمیں مہلت دو ‘ ہمارا انتظار کرو ‘ ہمارے لیے ٹھہرو‘ کہاں قدم بڑھائے چلے جا رہے ہو ‘ ذرا ٹھہرو کہ ہم تمہارے اس نور سے استفادہ کر لیں‘ تاکہ ہم بھی کسی طور سے اس بڑی کٹھن منزل کو طے کر لیں.
قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ؕ ’’(تو ان سے) کہا جائے گا کہ (اگر ممکن ہے تو)اپنے پیچھے (واپس) چلے جائو ‘پھر (وہاں) نور تلاش کرو‘‘. یہاں ذرا نوٹ کیجیے کہ لفظ ’’قَالُوْا‘‘ کے بجائے ’’قِیْلَ‘‘ آیا ہے یعنی ان سے کہا جائے گا . اب جبکہ اس برے حال میں وہ اِن مؤمنین سے درخواست کریں گے تو اِن اہل ایمان کی مروّت‘ شرافت اور نجابت سے یہ بات بہت بعید ہے کہ وہ انہیں جھٹک دیں اور تڑخ کر کہیں کہ جائو واپس دنیا میں جا کر نور تلاش کرو. لہٰذا مجہول کا صیغہ آیا ہے کہ ان سے کہا جائے گا. (قِیْلَ) کوئی کہے گا .یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو گا.جیسے بشارتیں دینے والے ہاتف غیبی ہوں گے‘ کوئی ملائکہ ہوں گے‘ اسی طرح ان کو غیب سے کہا جائے گا کہ لوٹ جائو پیچھے کی طرف اور تلاش کرو نور. لمس کہتے ہیں چھونے کو‘ تو التماس کا مطلب ہے کسی شے کو تلاش کرنا‘ٹٹولنا‘ حاصل کرنا .ان الفاظ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ یہ نور یہاں سے نہیں ملتا‘ یہ دنیا میں حاصل کیا گیا تھا‘یہاں تو بس ظاہر ہوا ہے .اہل ایمان نے دنیا میں ہی یہ نور کمایا تھا اور انہوں نے قرآن سے اقتباسِ نور کیا تھا.قرآن تمہارے پاس بھی تھا لیکن تم جان بوجھ کر اس سے محروم رہے‘ اور یہ اعمالِ صالحہ کا نور بھی دنیا سے کما کر لائے ہیں جو یہاں ظاہر ہو رہا ہے. اب ظاہر ہے کہ دنیا میں واپس لوٹنے کا کوئی سوال نہیں‘ اب دُنیا کی طرف رُجوع کا کوئی امکان نہیں. لہٰذا ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا کا ترجمہ ہم کریں گے کہ اگر ممکن ہے تو لوٹ جائو پیچھے کی طرف( دنیا میں )اور حاصل کرنے کی کوشش کرو نور کو!