ایک بات اور نوٹ کر لیجیے کہ دورِ نبوی میں شعوری نفاق بہت شاذ اور کم تھا. عام مغالطہ یہ ہے کہ منافق وہی ہوتا ہے جو جان بوجھ کر منافق بنا ہوا ہو‘ جبکہ درحقیقت یہ بات نہیں تھی. منافقین کی اکثریت وہ تھی جو ایمان تو خلوص کے ساتھ لائے تھے‘ لیکن ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جو ہمت درکار ہوتی ہے ان میں اس کا فقدان تھا. گویا ع ’’ہرچہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم‘‘والی کیفیت نہیں تھی. جس شخص میں ایمان کی پختگی اور گہرائی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگانے کے لیے تیار ہو جائے تو وہ ایک طرح کی پسپائی اختیار کرتا ہے اور ارتدادِ معنوی کا شکار ہو جاتا ہے اور اندر ہی اندر پیچھے ہٹنا شروع کرتا ہے. درحقیقت اسے یہ خیال نہیں ہوتا کہ میں منافق ہو گیا ہوں‘ بلکہ وہ سوچتا ہے کہ ان (سچے اہل ایمان) کو کیا ہو گیا ہے‘ خواہ مخواہ یہ لوگ جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ آخر صلح سے بھی توکام چل سکتا ہے اور دشمن کو گڑ دے کر بھی تو مارا جا سکتا ہے‘ جبکہ یہ لوگ ہر وقت جنگ ہی کی فکر رکھتے ہیں. غزوئہ بدر کے موقع پر ان کا موقف تھا کہ جب اللہ نے فرما دیا ہے کہ دو میں سے ایک پر تمہیں ضرور فتح مل جائے گی تو قریش کے قافلے کی طرف کیوں نہیں چلتے جہاں بہت سا مال و دولت ہے اور ان پچاس آدمیوں کے ہتھیار بھی ہمیں مل جائیں گے.

مصلحت کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلے اُدھر جائیں! تو اصل میں وہ لوگ یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ ہم جھوٹے ہیں‘ یاہم دھوکہ دے رہے ہیں‘ بلکہ یہ اصل میں مسلمانوں کے اندر ہی گڈمڈ ہوتے ہیں. چنانچہ سورۃ المنافقون ہی میں فرمایا گیا ہے : ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ’’یہ اس لیے ہوا کہ یہ ایمان لائے‘ پھر کفر میں چلے گئے‘‘. یعنی یہ ایمان تو لائے تھے خلوص کے ساتھ‘ نہ کہ دھوکہ دینے کے لیے ‘لیکن پھر رفتہ رفتہ ارتدادِ معنوی کا شکا رہو گئے اور پسپا ہوتے ہوتے کفر تک چلے گئے .یعنی ان کا یہ ارتداد اندر ہی اندر ہوتا ہے. لیکن ظاہر بات ہے کہ انہیں ایک قانونی تحفظ تو حاصل رہتا ہے. جیسے دیمک کسی چوکھٹ یا شہتیر کو اندر سے تو چٹ کر چکی ہوتی ہے لیکن اوپر ایک پرت (veneer) چھوڑدیتی ہے تاکہ دیکھنے والوں کو پتا نہ چل جائے کہ اندر اس چوکھٹ یا شہتیر کے ساتھ کیا قیامت گزر رہی ہے. تو نفاق بھی دراصل یہی ہے جو باطن میں شروع ہوتا ہے. 

اس اعتبار سے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام معنی میں گناہگار اور اس قسم کے غیر شعوری منافق میں بس تعبیر کا فرق ہے. گناہگار بھی تو یہی ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ یہ شے اللہ نے حرام کی ہے‘ پھر بھی اس کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے. تو اس وقت وہ بھی ایمان سے تہی ہوتا ہے!اس اعتبار سے جان لینا چاہیے کہ گناہگار اور ایسے منافق میں حقیقت کے اعتبار سے باریک سا پردہ ہے. یہ بات میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ اس آیت میں ایک خاص اور اہم نکتہ ہے جو اِس کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتا.

اب آگے چلیے! جب اہل ایمان آگے نکل جائیں گے تو یہ منافق مرد اور عورتیں ان سے کہیں گے: انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ کہ ذرا ہمیں مہلت دو‘ ہمارا انتظار کرو‘ تاکہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کر لیں‘ کچھ اقتباس کر لیں. ہم بھی اس سے فائدہ اٹھا کر پل صراط پر سے گزر جائیں. قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ’’کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے کی طرف لوٹ جائو اور نور تلاش کرو‘‘.یعنی اگر تمہارے لیے ممکن ہے تو پیچھے دنیا کی طرف لوٹ جائو اور نور تلاش کر کے لے آئو! اس لیے کہ یہ نور یہاں نہیں دیا گیا ‘بلکہ یہ دنیا کی زندگی میں کما کر ساتھ لایا گیا ہے. دنیا میں ایمان کا بھی کسب کرنا ہوتا ہے اور اعمالِ صالحہ تو ہیں ہی سراسر کسب. تو اگر تمہارے لیے بھی ممکن ہو تو لوٹ جائو پیچھے کی طرف اور یہ نور تلاش کرنے کی کوشش کرو.