آگے فرمایا: فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ’’پھر ان کے مابین ایک فصیل حائل کر دی جائے گی‘ جس کا ایک دروازہ ہو گا‘‘. یہ فصیل تو درحقیقت ایک فصل قائم کرنے کے لیے ہو گی . اہل ایمان آگے نکل گئے ہوں گے اور اِدھر یہ منافق پیچھے سے پکارتے ہی رہ جائیں گے. ان کے درمیان فاصلہ تو پہلے سے ہو گیا ہو گا‘ اب ان کے درمیان فصیل بھی حائل کر دی جائے گی. اس طرح اہل ایمان اور منافقین کی تقطیب (polarization) عمل میں آجائے گی.اس در و دیوار کی کیفیت بایں الفاظ بیان کی جارہی ہے : بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ ﴿ؕ۱۳﴾ ’’اس کے اندر کی طرف رحمت ہو گی اور اس کے باہر عذاب ہو گا‘‘. یعنی اس دیوار کے اندر کی طرف رحمت خداوندی کا نزول شروع ہو جائے گا ‘ اہل ایمان کی ابتدائی مہمان نوازی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘جبکہ اس فصیل کے باہر کی طرف عذاب کا آغاز ہو جائے گا.

یہاںایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بَاطِنُہٗ اور ظَاھِرُہٗ کی ضمیر کا مرجع کیا ہے؟ بہت سے حضرات نے اس سے دروازہ مراد لیا ہے کہ اس دروازے کے اندر کی جانب اللہ کی رحمت کا نزول اور اس کے باہر کی جانب عذابِ خداوندی کا ظہور شروع ہو جائے گا‘لیکن مجھے اس نقطہ نظر میں کافی تامل تھا .اس مقام پر غور وفکر کے نتیجے میں میری جو رائے بنی ہے اس کی تائید مجھے امام رازی سے مل گئی ہے کہ اس ضمیر کی نسبت دروازے کی طرف نہیں ہے ‘بلکہ سُوْر (فصیل) کی طرف ہے .(واللہ اعلم!) یعنی اس فصیل کے اندر کی طرف اللہ کی رحمت ہو گی اور اس فصیل کے باہر کی طرف اللہ کا عذاب ہو گا.