منافقین کی پکار کے جواب میں اہل ایمان کا جواب نقل ہوا: قَالُوۡا بَلٰی ’’(اہل ایمان) کہیں گے: کیوں نہیں!‘‘ اب آگے جو الفاظ آرہے ہیں وہ علم و معرفت اور تفقہ کا بہت بڑا خزانہ ہیں. فرمایا : وَ لٰکِنَّکُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَکُم ’’لیکن تم نے اپنے آپ کو (اپنے ہاتھوں) فتنے میں ڈالا‘‘. اب اہل ایمان جواب دے رہے ہیں کہ دنیا میں تو تم ہمارے ساتھ ہی تھے‘ اس میں کوئی شک نہیں‘ لیکن تم نے اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں فتنے میں ڈالا. 

فتنے کی تین نسبتیں ہیں جنہیں اچھی طرح نوٹ کر لینا چاہیے.کہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہیں فتنے میں ڈالا .مثلاً: وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (العنکبوت:۳’’اور ہم نے فتنے میں ڈالا ہے ان کو جو اِن سے پہلے تھے‘‘. اللہ تعالیٰ اپنی طرف نسبت فرما رہا ہے کہ جو اِن سے پہلے تھے انہیں بھی ہم نے فتنے میں ڈالا تھا. یہ ہمارا قاعدہ رہا ہے کہ ہم آزما کر ظاہر کر دیں کہ کون کھرا ہے‘ کون کھوٹا ہے‘ کون حقیقتاً مؤمن ہے اور کون جھوٹ موٹ کا مدعی ٔ ایمان ہے .تو اصل امتحان اللہ کی طرف سے ہے. لیکن مکہ میں اہل ایمان کا یہ امتحان کن کے ہاتھوں آ رہا تھا؟ ابوجہل اور دیگر کفار کے ہاتھوں!تو گویا دوسری نسبت ان کفار کی طرف ہو گئی جو مسلمانوں کو ستا رہے تھے اور انہیں فتنے میں ڈال رہے تھے. جیسا کہ سورۃ البروج میں فرمایا: اِنَّ الَّذِیۡنَ فَتَنُوا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَتُوۡبُوۡا فَلَہُمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَ لَہُمۡ عَذَابُ الۡحَرِیۡقِ ﴿ؕ۱۰﴾ ’’وہ لوگ جنہوں نے اہل ایمان مردوں اور عورتوں کو فتنوں میں مبتلا کیا اور پھر اس سے توبہ نہیں کی یقینا ان کے لیے جہنم کا عذاب اور جلائے جانے کی سزا ہے‘‘. جو لوگ اہل ایمان کو آزمائشوں میں ڈالتے ہیں ‘انہیں ستاتے اور تکالیف میں مبتلا کرتے ہیں‘ اگر مرنے سے پہلے پہلے انہوں نے توبہ کر لی اور ایمان لے آئے تب تو پچھلا کیا دھرا سارا معاف ہو جائے گا‘ ورنہ ان کے لیے عذابِ جہنم ہے.

تیسری نسبت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالتا ہے. اس سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ اہل و عیال اور مال و متاعِ دُنیوی کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور ان کی محبت کو اللہ کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں وہ اپنے آپ کو فتنے میں مبتلا کر لیتے ہیں. سورۃ التغابن میں ارشادِ الٰہی ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ (آیت۱۴’’اے ایمان والو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں‘ ان سے ہوشیار رہو‘‘. مزید فرمایا: اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ (آیت۱۵’’یقینا تمہارے مال اور تمہاری اولاد (تمہارے لیے) فتنہ ہے‘‘. یعنی اگر تم اپنے اہل و عیال سے اللہ کی محبت کے ماتحت رہتے ہوئے محبت کرو تو ٹھیک ہے‘ یہ بھی فطری محبتیں ہیں اور دُنیوی ضرورت ہے‘ لیکن جہاں ان میں سے کسی ایک کی محبت بھی اللہ کی محبت سے بالاہو گئی تو گویا تم نے اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں فتنے میں مبتلا کر دیا. یہ انسان کے اپنے عمل پر منحصر ہے. تو حقیقی اہل ایمان منافقین کو جواب دیں گے: وَ لٰکِنَّکُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمْۡ ’’لیکن تم نے اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں فتنے میں ڈالا‘‘. وَ تَرَبَّصۡتُمۡ ’’اور پھر تم گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے.‘‘ 

تَرَبُّص کے معنی ’’انتظار‘‘ کے بھی ہیں کہ آدمی کسی جگہ پر ٹھٹک کر کھڑا ہو جائے. کوئی تو ایسا ہوتا ہے کہ جس کی ہرچہ بادا باد والی کیفیت ہوتی ہے‘ جبکہ کوئی ایسا ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے ٹھٹک کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ چلوں نہ چلوں؟ آگے بڑھوں نہ بڑھوں؟ یہ اصل میں تَرَبُّص ہے.یہ لوگ ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو! ‘‘کے مصداق حالات کا انتظار کرتے ہیں کہ حالات میں کیا تبدیلی آتی ہے .تمام صورتوں کو دیکھ بھال کر‘ دائیں بائیں اور آگے پیچھے دیکھتے ہوئے‘ اچھی طرح سوچ سمجھ کر‘ سنبھل کر اور بچ بچ کر چلتے ہیں. جیسے کہا گیا ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ (الحج:۱۱’’لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی بندگی کرتا ہے کنارے کنارے‘‘. یہ لوگ منجدھار میں نہیں کودنا چاہتے. فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ’’پھر اگر اسے کوئی خیر پہنچے تو اس سے مطمئن ہو جاتا ہے‘ اور اگر اسے کوئی آزمائش (تکلیف) پہنچے تو اپنے چہرے کے بل واپس پلٹتا ہے. اس نے دنیا اور آخرت (دونوں) کا خسارہ اٹھایا‘‘. یعنی یہ لوگ بچ بچ کر اور کنارے کنارے چلنا چاہتے ہیں‘ منجدھار میں نہیں جانا چاہتے. اگر بس خیر رہے تو مطمئن ہیں اور اگر کہیں کوئی امتحان آگیا‘ آزمائش آ گئی تو اوندھے منہ گر پڑتے ہیں. ان کے اس طرزِ عمل کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ دنیا اور آخرت دونوں کے خسارے کا سودا ہے. تو یہاں فرمایا گیا کہ جب تم نے اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں فتنے میں ڈالا اور مال واولاد‘ اہل و عیال‘ علائق دُنیوی‘ جائیداد‘ پروفیشنز‘ ان تمام چیزوں کی محبت تم پر غالب آ گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم تَرَبُّص اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے کہ آگے بڑھیں یا نہ بڑھیں! کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے! یہ حقیقت ہے کہ انسان کے اندر نیکی کا جذبہ بھی موجود ہے‘ لیکن وہ تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے. بقول غالب : ؎ 
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے!

منافقین کی اس کیفیت کے لیے سورۃ النساء میں الفاظ آئے ہیں : مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ (آیت ۱۴۳کہ یہ مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں. اور سورۃ التوبۃ میں فرمایا : فَہُمۡ فِیۡ رَیۡبِہِمۡ یَتَرَدَّدُوۡنَ ﴿۴۵﴾ ’’وہ اپنے شکوک و شبہات میں متردّد ہو کر رہ گئے.‘‘
یہاں آگے فرمایا: 
وَارْتَبْتُمْ ’’اور تم شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے‘‘. یعنی اپنے آپ کو فتنے میں ڈالنے کا تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ ایمان کی جو پونجی تمہیں نصیب ہوئی تھی اس میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھنے شروع ہو گئے کہ ہم اپنا سب کچھ یہاں کھپا دیں اور معلوم نہیں کہ اس کا کچھ بدلہ بھی ملے گا یا نہیں! پتا نہیں آخرت ہو گی بھی یا نہیں؟ یقین تو نہیں ہے‘ کسی نے دیکھا تو نہیں. اس لیے کہ یہ سارا ادھار کا سودا ہے. جیسے سورۃ التوبۃ میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ (آیت ۱۱۱’’اہل ایمان سے اللہ نے ان کے مال اور جانیں خرید لیے ہیں جنت کے عوض‘‘. جنت تو ملے گی آخرت میں‘ یہاں تو نہیں ملے گی. یہ تو ادھار کا سودا ہے اور ادھار کے سودے پر آدمی کچھ نہ کچھ تو متردّد ہوتا ہے. اگر نقد سودا ہوتو ٹھیک ہے کہ ہاتھ سے ایک چیز دی اور دوسری لے لی‘مبادلہ فوراً ہو گیا‘ لیکن یہ تو اُدھار کا سودا ہے. تو اس تَرَبُّصکے نتیجے میں ایمان کی پونجی برف کی طرح پگھلنا شروع ہو گئی. 

اپنے آپ کو فتنے میں ڈالنے کے سبب جو تَرَبُّصپیدا ہوتا ہے اس حوالے سے سورۃ التوبۃ کی آیت ۲۴ بڑی اہم ہے. فرمایا: 
قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ 
’’(اے نبی !)ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں اپنے باپ‘ اپنے بیٹے‘ اپنے بھائی‘ اپنی بیویاں‘ اپنے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بڑی محنت سے کمائے (اور جمع کیے) ہیں ‘اوروہ کاروبار جن کے کساد(اور مندے) کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے (جو بڑی مشقت سے تم نے جمائے ہیں) ‘اور وہ رہائش گاہیں (جائیدادیں‘ بلڈنگیں ‘ حویلیاں اور کوٹھیاں) جو تمہیں بڑی پسند ہیں ‘(یہ آٹھ چیزیں) اگر محبوب تر ہیں (تین چیزوں سے) اللہ سے‘ اللہ کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے ‘تو جائو انتظار کرو‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ (عذاب) لے آئے‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘
یہ گویا ایک ترازو ہے جسے ہر شخص اپنے باطن میں نصب کر لے. ایک پلڑے میں آٹھ چیزیں ڈالیں جن میں سے پانچ علائق دُنیوی ہیں ‘یعنی باپ‘ بیٹا‘ بھائی‘ بیوی اور رشتہ دار باقی ہر انسان تو اس کے بعد ہی آتا ہے اور تین چیزیں دُنیوی مال و اسباب میں سے ہیں‘ نقد مال و دولت‘ کاروبار اور اثاثہ جات یعنی بلڈنگ یا جائیداد وغیرہ. اور ترازو کے دوسرے پلڑے میں تین کی محبت ڈالیں‘ یعنی اللہ کی محبت‘ رسول اللہ کی محبت اور اللہ کی راہ میں جہاد کی محبت. پھر دیکھیں کہ کون سا پلڑا بھاری ہے! اگر یہ آٹھ والا پلڑا بھاری ہے تواس صورت میں ’’فَتَرَبَّصُوْا‘‘ جائو ‘ انتظار کرو! یہ وہی لفظ تَرَبُّص ہے جو زیر درس آیت میں ہے. اب تَرَبُّص اور گومگو کی کیفیت تو لازماً ہو گی کہ چلوں نہ چلوں! اس آیت میں مذکور علائق دُنیوی کو اقبال نے ایک شعر میں جمع کیا ہے ؎ 

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں ‘ لا الٰہ الا اللہ!

جان لیجیے کہ یہ تَرَبُّص اور اِرتیاب ایک دن میں نہیں ہو جاتا ‘بلکہ یہ رفتہ رفتہ اور تدریجاً پسپائی کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ آدمی ایمان سے بالکل خالی ہو جاتا ہے. جیسے سورۃ المنافقون میں فرمایا گیا : ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا (آیت ۳’’یہ اس لیے ہوا کہ وہ پہلے ایمان لے آئے‘ پھر کفر میں چلے گئے‘‘. یا یہ کہ ایمان اتنا کمزور رہ جاتا ہے کہ وہ عمل پر اثر انداز نہیں ہوتا. اس صورت میں پھر عمل میں تناقض اور تضاد ہوتا ہے. آدمی کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے. جیسے سورۃ الصف کی آیت ۲ میں فرمایا گیا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾ ’’اے اہل ایمان! وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘ .یعنی قول و فعل میں تضاد. یہاں مختلف کیفیات کے مابین حرفِ عطف آیا ہے. عطف میں مغائرت تو ہوتی ہے لیکن لازمی نہیں ہوتا کہ اس میں زمانی ترتیب بھی ہو. البتہ اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ترتیب زمانی بھی ہے‘ اور وہ اس طرح کہ ایک چیز کے نتیجے میں دوسری چیز واقع ہو رہی ہے‘ دوسری چیز کے نتیجے میں تیسری چیز اور پھر تیسری چیز کے نتیجے میں چوتھی چیز واقع ہو رہی ہے. ان آیاتِ مبارکہ کی درحقیقت یہی عظمت ہے. اسی سورئہ مبارکہ کی آیت ۲۰ میں بھی یہی انداز ہے اور وہ بھی اس سورئہ مبارکہ کی عظیم ترین آیات میں سے ہے . یہاں فرمایا گیا : وَ لٰکِنَّکُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَکُم ’’لیکن تم نے اپنے آپ کو (اپنے ہاتھوں) فتنے میں مبتلا کیا‘‘. یعنی تم نے علائق دُنیوی اور مال و اسبابِ دُنیوی سے تعلق جائز حد تک نہیں رکھا‘ بلکہ اس کو حد سے بڑھنے دیا. وَ تَرَبَّصۡتُمْ ’’اور (اس کے نتیجے میں) تم گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے‘‘. تم تردّد اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے. وَ ارۡتَبۡتُمْ ’’اور (اس تذبذب کے نتیجے میں) تمہارے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے.‘‘ 

جیسے یہ ایک حقیقت ہے کہ عمل صالح سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور ایمان سے عمل صالح میں اضافہ ہوتا ہے بالکل ایسے ہی برائی کا معاملہ ہے کہ ایک برائی کے نتیجے میں ایک اور برائی جنم لیتی ہے اور پھر اس کے نتیجے کے طور پر برائی اور خرابی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے. تو یہاں بھی درجہ بدرجہ پسپائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایمان کی جتنی تھوڑی بہت پونجی حاصل تھی اس میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھنے شروع ہو گئے. درحقیقت ایمان لانے کے بعد پھر ثابت قدمی کی ضرورت ہوتی ہے. سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ میں ایک مؤمن صادق کی تعریف یوں کی گئی ہے : 
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا ’’حقیقی (اور سچے) مؤمن تو صرف وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے‘ پھر شک میں نہیں پڑے‘‘. وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ’’اور انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے‘‘. اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ ’’یہی لوگ ہیں سچے (اپنے دعوائے ایمان میں).‘‘