سور ۃ الحدید کا یہ حصہ بھی میرے نزدیک اپنے مضمون کے اعتبار سے قرآن مجید کا نقطۂ عروج ہے. اللہ کے فضل و کرم سے یہ جوحقائق درجہ بدرجہ منکشف ہو ئے ہیں‘اس کے بعد اگر کسی کو اپنے گریبان میں جھانکنا نصیب ہو اور اپنی ایمانی کیفیت اور حقیقت کو دیکھنے اور ٹٹولنے کی توفیق میسر آ جائے (اللہ کرے کہ ایسا ہو!) اور وہ اپنی اصلاح کا ارادہ کر لے تو اس پر بھی شیطان حملہ آور ہوتا ہے. اُس وقت شیطان کا حملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو تاخیر اور تعویق میں مبتلا کر دیتا ہے. انسان خیال کرتا ہے کہ ٹھیک ہے مَیں اپنا رویہ صحیح کر لوں گا ‘ لیکن پہلے ذرا یہ کام کر لوں‘ ذرا یہ ذمہ داریاں ادا ہو جائیں‘ ابھی ذرا ملازمت سے ریٹائر ہو لوں پھر اپنی اصلاح اور دین کا کام کروں گا. یا پھر یہ کہ ذرا بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں‘ ذرا بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے. اسی طرح بچوں کے بعد پھر بچوں کے بچے سامنے آئیں گے اور ان کے مسائل شروع ہو جائیں گے . ع ’’کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد!‘‘ تو جان لیجیے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد تو انسان کے ہاتھ میں کچھ رہ ہی نہیں جاتاکہ وہ کچھ کر سکے. سرکار کھوکھلا کر کے ہی تو چھوڑتی ہے. اس وقت تک تمام توانائیاں ختم ہو چکی ہوتی ہیں.
اس تاخیر و تعویق کی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بہترین تاویل کی ہے . یہ ان تین صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں جو غزوئہ تبوک میں شریک نہیں ہو سکے تھے. غزوئہ تبوک میں نفیر عام تھی کہ ہر صاحب ایمان اللہ کی راہ میں نکلے ‘تو منافقین نے تو آکر جھوٹے بہانے بنا کر معذرت کر لی اور اجازت لے لی‘ کچھ بغیر اجازت لیے بھی بیٹھے رہے‘ لیکن جب حضورﷺ واپس آئے تب وہ قسمیں کھا کھا کر کہنے لگے کہ حضور! میں تو لشکر کے ساتھ جانے کے لیے بالکل تیار تھا ‘ مَیں نے تو سواری بھی تیار کی ہوئی تھی‘ لیکن عین وقت پر یہ مصیبت آ گئی کہ میں رک گیا.
اور حضورﷺ کی یہ عادتِ ثانیہ تھی کہ ایسے جھوٹوں سے زیادہ اعتناء نہیں فرماتے تھے‘ بس کہہ دیتے کہ جایئے! لیکن یہ تین صحابہ جن میں سے ایک حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں‘ اگرچہ مؤمنین صادقین میں سے تھے مگر اس لشکر کے ساتھ نہیں جا سکے تھے. واپسی پر جب حضورﷺ کی طرف سے بازپُرس ہوئی تو انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا. حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر عرض کیا: حضور! زبان میرے پاس بھی ہے‘ طلاقت لسانی مجھے بھی حاصل ہے‘ میں بھی جھوٹے بہانے بنا کر اس وقت آپؐ کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا سکتا تھا‘ لیکن مَیں صاف اعتراف کرتا ہوں کہ جتنا صحت مند مَیں اِس زمانے میں تھا پہلے اتنا کبھی نہیں رہا‘ اور جتنا غنی مَیں اس زمانے میں تھا اتنا پہلے کبھی نہیں رہا .یعنی نہ تو میرے پاس وسائل کی کمی تھی اور نہ میں بیمار تھا. بس ہوا صرف یہ کہ میں تاخیر و تعویق میں پڑ گیا. میرے نفس نے مجھے یہ دھوکہ دیا کہ رسول اللہﷺ تو تیس ہزار کا لشکر لے کر چلیں گے‘ جبکہ تمہاری اونٹنی بڑی صحت مند اور تیز رفتار ہے‘چنانچہ حضورﷺ کو لشکر لے کر روانہ ہو جانے دو‘ اس کی حرکت قدرے آہستہ ہو گی ‘تم ذرا دو چار دن کے بعد تیزی کے ساتھ منزل پر منزل طے کرتے ہوئے حضورﷺ کے ساتھ مل جانا. تو میں اس دھوکے میں آ گیااور سوچتا رہا کہ شدید گرمیوں کا موسم ہے اور صحرا کا سفر ہے‘ ذرا گھر میں تھوڑا عرصہ مزید آرام کر لوں اور ٹھنڈی چھائوں سے لطف اندوز ہو لوں. (گویا ع ’’تپتی راہیں مجھ کو پکاریں ‘دامن پکڑے چھائوں گھنیری!‘‘) تو میں اسی طرح ایک ایک دن کر کے ٹالتا رہا. ایک دن اچانک مجھے احساس ہوا کہ اب تو چاہے میں کتنی ہی تیز رفتاری سے جائوں آپؐ کے ساتھ نہیں مل سکتا‘ بس میرے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے.
حضورﷺ نے سزا کے طور پر ان کا سماجی مقاطعہ کر دیا کہ کوئی مسلمان ان سے بات تک نہ کرے. یہ ان کے لیے بڑی سخت سزا تھی. یہ بخاری شریف کی بڑی پیاری حدیث ہے اور طویل ترین احادیث میں سے ایک ہے. ہر شخص کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے.
تو یہ تاخیر و تعویق اصل میں شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے. جیسے اقبال نے کہا : ؎ آ بتائوں تجھ کو رمز آیۂ ’’اِنَّ الْمُلُوْکَ‘‘
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری!
تو یہاں پر اب اس تعویق و تاخیر سے ٹوکا گیا ہے. ارشاد ہوا : اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ّ ’’کیا اہل ایمان کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کے ذکرمیں اور اُس (قرآن) کے آگے جو نازل شدہ حق ہے‘‘. یہ ایک طرح سے جھنجھوڑنے کا انداز ہے کہ کس امید پر تم یہ تاخیر و تعویق کر رہے ہو؟ تمہیں کل کی زندگی کا بھی یقین ہے کہ تمہیں کل کا سورج دیکھنا نصیب ہو گا؟ جبکہ تمہارے منصوبے تو طول طویل ہیں اور تم سالوں کا حساب بنا رہے ہو کہ اس کام سے فارغ ہو جائوں‘ یہ ذمہ داریاں اد اکر لوں‘ یہ معاملہ طے ہو جائے تو پھر میں دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دوں گا.لیکن قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ : اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ’’کیا وقت آ نہیں گیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ جھک جائیں ان کے دل اللہ کے ذکر سے اور اُس کے سامنے جو نازل ہوا حق میں سے‘‘. خَشَعَ ‘ یَخْشَعُ کا مطلب ہے جھک جانا.
ایک آیۂ کریمہ میں میدانِ حشر کا ایک نقشہ یوں کھینچا گیاہے : خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ (المعارج:۴۴) ’’(قیامت کے دن میدانِ حشر میں) ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ذلت اُن پر چڑھی آ رہی ہو گی ‘‘. یعنی تباہی و بربادی کو اپنے سامنے دیکھ کر شرمندگی سے کافروں کی نگاہیں نیچے زمین میں گڑی ہوں گی اور انہیں نہایت شرمناک سلوک کا سامنا ہو گا. تو اہل ایمان کو جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اب بھی تم تأخیر و تعویق میں پڑے ہوئے ہو؟ کیا وہ وقت آ نہیں گیا ہے کہ تم جھک جائو اللہ کی یاد کے آگے اور اس حق کے سامنے جو اللہ کی طرف سے نازل ہو چکا ہے. اس حق نے جہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی جدا کر دیا ہے‘ حق و باطل کو ممیز کر دیا ہے‘ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں آنا نصیب فرما دیا ہے‘ اسی حق نے تمہیں کچھ ذمہ داریاں بھی سونپی ہیں‘ اسی کلامِ الٰہی نے تمہارے فرائض بھی معین کیے ہیں‘ اس نے تمہیں یہ بتا دیا ہے کہ دین تم سے کیا چاہتا ہے‘ دین کا تقاضا کیا ہے. تمہارے فرائض کیا ہیں .تو کب تک تم اس تاخیر اور تعویق میں پڑے رہو گے؟