آگے فرمایا: وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُُ ’’اور نہ ہو جائیں وہ ان لوگوں کے مانند جن کو کتاب دی گئی تھی پہلے‘‘. اِن سورتوں (المُسّبحات) میں اہل کتاب کا تذکرہ بطورِ نشانِ عبرت ہے کہ مسلمانو! تم سے پہلے بھی ایک اُمت ِمسلمہ (بنی اسرائیل) تھی ‘جسے اب معزول کر دیا گیا ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ قرآن میں جیسے الفاظ سابقہ اُمت مسلمہ کے لیے آئے ہیں ہمارے لیے نہیں آئے. اُن سے فرمایا گیا تھا: وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۷﴾ (البقرۃ۴۷ و۱۲۲’’اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی ‘‘. ذرا ان الفاظ کی گھمبیر تاکا تصور کیجیے! ٹھیک ہے ہمیں بھی دو مرتبہ خیر اُمت اور اُمت وسط کہا گیا ہے ‘ لیکن ان کے لیے فضیلت اور برتری کے جو الفاظ آئے ہیں وہ ہمارے لیے نہیں آئے. ان میں تو چودہ سو برس تک نبوت کا تار ٹوٹا ہی نہیں. ان میں سلسلۂ نبوت و رسالت شروع بھی ہوا تو دو نبیوں حضرات موسیٰ اور ہارون علیہما السلامسے اور پھر چودہ سو برس کے بعد اس سلسلۂ انبیاء کا خاتمہ ہواتو بھی دونبیوں حضرات عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام پر. ان کو کتابیں بھی تین دی گئیں.

صحیفے تو بے شمار دیے گئے ‘کیونکہ بے شمار نبی مبعوث ہوئے اور ہر ایک پر وحی آتی رہی ‘اور یہ انہی انبیاء کی کتابیں ہیں جو ’’Old Testament ‘‘ میں جمع ہیں. قرآن مجید میں بھی ان کے لیے تین کتابوں تورات‘ زبور اور انجیل کا تذکرہ ہے. لیکن وہی قوم اب نشانِ عبرت ہے. اسی قوم کے لیے فرمادیا گیا : وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ (البقرۃ:۶۱’’اوران پر (اللہ کی طرف سے) ذلت اور مسکنت مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب (عذاب) میں گھر گئے‘‘. انہی پر اللہ کے عذاب کے کوڑے برسے ہیں. انہیں بخت نصر کے ہاتھوں تباہ و برباد کیا گیا. پھر کبھی رومیوں کے ہاتھوں ان کی پٹائی ہوئی اور کبھی یونانیوں کے ہاتھوں‘ یہاں تک کہ پچھلی صدی میں دوسری عالمگیر جنگ کے دوران ہٹلر کے ہاتھوں ان کے ساتھ جو عبرت ناک سلوک ہوا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی. اس دوران ساٹھ لاکھ یہودی قتل ہوئے ہیں. بخت نصر کی بات تو خیر اڑھائی ہزا رسال پرانی ہو گئی ہے‘ لیکن یہ توماضی قریب کا واقعہ ہے. حالانکہ ان یہودیوں کا یہ قول رہا ہے : نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ’’ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں‘‘. ان کے اس ادّعا پر قرآن کا تبصرہ یہ ہے : فَلِمَ یُعَذِّبُکُمۡ بِذُنُوۡبِکُمۡ (المائدۃ:۱۸’’تو وہ تمہیں سزا کیوں دیتا ہے تمہارے گناہوں کی پاداش میں؟‘‘ تم اگر اپنے خیال میں اللہ کے ایسے ہی لاڈلے اور چہیتے ہو تو اللہ تمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں عذاب کیوں دیتا رہا ہے ؟ اس نے دنیا میں تمہیں بری طرح پٹوایا ہے تو آخرت میں بھی تم پر عذاب کے کوڑے برسیں گے.

ان تمام حوالوں سے مسلمانوں کو عبرت دلائی جا رہی ہے کہ دیکھ لو مسلمانو! کہیں تم بھی ان کے مانند نہ ہو جانا! چنانچہ فرمایا جا رہا ہے : 
وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ’’اور وہ نہ ہو جائیں ان لوگوں کی مانند جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی ‘تو اُن پر جب ایک مدتِ مدید گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہو گئے.‘‘