اب ہم اس چوتھی آیت کا تفصیلاً اور بغور مطالعہ کرتے ہیں. دراصل دو حجابات کی وجہ سے اس کی اصل عظمت منکشف نہیں ہو پا رہی. سورۃ البلدکی آیات مَیں نے آپ کے سامنے پیش کی تھیں‘ وہاں لفظ ’’ثُمَّ‘‘ آ گیا ہے جو کلیدی حیثیت کا حامل ہے. فرمایا : فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۫ۖ۱۱﴾ ’’پس انسان گھاٹی کو عبور نہ کر پایا‘‘. وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾ ’’اور تم نہیں جانتے کہ وہ گھاٹی کون سی ہے‘‘. فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ ﴿ۙ۱۴﴾یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷﴾ ’’کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا‘ یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا. پھر آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کی تلقین کی ‘‘. اب اس لفظ ’’ثُمَّ‘‘ نے وہاں پر موجود اصل مفہوم کے خزانوں کو کھول دیا ہے . یوں سمجھئے کہ پہلے اگر آپ نے زمین تیار کی ہے‘ ہل چلایا ہے‘ پھر بیج ڈالا ہے تو وہ بیج بارآور ہو گااور فصل اُگے گی. لیکن آپ نے اگر زمین پہلے تیار نہیں کی‘ ہل چلایا ہی نہیں اور جا کر بیج ڈال دیا تو بیج بھی صاف ظاہر ہے ضائع ہو جائے گا. اسی طرح آپ نے اگر اپنے نفس کی یا باطنی شخصیت کی زمین میں ہل چلا لیا ہے‘ مال کی محبت یہاں سے نکال دی ہے تو اب جو ایمان کا بیج پڑے گا تو اس میں پوری فصل لہلہائے گی. چنانچہ سورۃ البلد میں فرمایا: ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷﴾ ’’پھر وہ شامل ہو اُن لوگوں میں جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبراور باہمی مرحمت کی تاکید کی.‘‘ 

سورۃ العصر کا مضمون بھی بالکل یہی ہے. سورۃ العصر کے الفاظ ہیں : 

وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾ 
’’قسم ہے زمانے کی‘ یقینا تمام انسان خسارے میں ہیں‘ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تاکید اور صبر کی تلقین کی.‘‘ 

فرق صرف یہ ہے کہ ترتیب بدل گئی ہے. سورۃ العصر میں پہلے ایمان ہے‘ پھر عمل صالح ہے‘ پھر تواصی 
بالحق ہے اور پھر تواصی بالصبر ہے. جبکہ یہاں دونوں جوڑوں میں ترتیب الٹ گئی ہے . عمل صالح پہلے آیا ہے اور ایمان بعد میں. پہلے فرمایا: فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ ﴿ۙ۱۴﴾یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ ’’کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا‘ یا فاقے کے دن کسی قرابت داریتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا ‘‘. یہ عمل صالح ہے. آگے فرمایا: ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ’’پھر وہ شامل ہو اُن لوگوں میں جو ایمان لائے‘‘. یہاں ایمان بعد میں آ رہا ہے. اسی طرح تواصی بالحق بعد میں اور تواصی بالصبرپہلے آ رہا ہے. فرمایا : وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷﴾ ’’اور انہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور باہمی مرحمت کی تاکید کی‘‘. یہاں ’’تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ‘‘ گویا ’’ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ‘‘ کی جگہ ہے. لیکن عمل صالح اور ایمان کو جوڑنے والی جو چیز ہے وہ لفظ ’’ثُمَّ‘‘ ہے‘ جس نے کہ حقائق کے خزانے کا دروازہ کھول دیا ہے . یہاں (سورۃ الحدید کی آیت ۱۸ ‘اور ۱۹ کے مابین) چونکہ ایسا کوئی لفظ نہیں ہے لہٰذا یہاں تدبر کی ضرورت ہو گی کہ ان دونوں آیتوں میں ربط کیا ہے.

ان دونوں آیات کا ترجمہ یوں ہے : ’’یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو لوگ اللہ کو قرض دیں قرضِ حسنہ‘ ان کے لیے ان کا دیا ہوا مال بڑھایا جاتا رہے گا اور ان کو اجر ملے گا بہت ہی باعزت. اور وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر وہ صدیق اور شہید ہیں‘‘. ان دونوں آیات کے درمیان بھی گویالفظ 
’’ثُمَّ‘‘ محذوف ہے .اور یہ آپ کی سمجھ میں اُ س وقت تک نہیں آ سکتا جب تک یہ دو اصول سامنے نہ ہوں . ایک تو یہ کہ قرآن مجید کی آیات کے مابین بڑا گہرا ربط ہے. اس کی اہمیت بھی بہت کم لوگوںکے سامنے آئی ہے اور بہت کم لوگوں نے اس پر توجہ کی ہے کہ آیاتِ قرآنی باہم مربوط ہونی چاہئیں. اگر آپ نے علیحدہ علیحدہ آیت پرغور کر کے کچھ علم ‘ معرفت‘ فہم اور ہدایت حاصل کی اور اس پر اکتفا کر لیا تو یقینا وہ بھی بہت بڑی قیمتی متاع ہے‘ لیکن آیات کے باہمی ربط سے اس کے حسن معنوی کے کچھ اور پہلو بھی نمایاں اور منکشف ہوتے ہیں ‘جو یہاں لفظ ’’ثُمَّ‘‘ کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئے ہیں.

دوسرا اصول یہ سامنے رہنا چاہئے کہ 
’’اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا‘‘ یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے. اس اصول کو سب لوگ تسلیم کرتے ہیں ‘ لیکن اس کا انطباق اور اس کا حق ادا کرنا‘ یہ اپنی جگہ پر ایک دوسرا مرحلہ ہے. لہذا یہاں پراِن دونوں اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے لفظ ’’ثُمَّ‘‘ کو محذوف سمجھئے. یعنی وہ لوگ جو صدقات کے ذریعے اور اللہ کو قرضِ حسنہ دے کر اپنے دلوں سے مال کی محبت اور اس کی نجاست کو دھو ڈالتے ہیں‘ پھر وہ جب ایمان لاتے ہیں تو اب ان کے لیے مقامِ صدیقیت اور مرتبہ‘شہادت تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہوا ہے. اب گویا وہ بریک کھل گئی‘ اب آگے بڑھنے کے لیے راستے کھلے ہیں. آگے بڑھنے کے اعتبارسے یہاں صدیقیت اور شہادت کے مراتب کا تذکرہ ہوا ہے. بدقسمتی سے ان اصطلاحات پر بھی توجہ بہت کم ہوئی ہے. میں آج آپ کے سامنے ان چیزوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کروں گا.