اب آپ کے سامنے ایک نقشہ پیش کیا جا رہا ہے ‘ جو دین کی بعض اہم اصطلاحات کے مابین ربط و تعلق کے لیے بہت مفید ہے. (image is missing) 

اس نقشے میں دائیں اور بائیں دو انتہائیں وجود میں آ رہی ہیں. ایک طرف عروج ہے اور دوسری طرف نزول ہے ‘ یعنی ایک عروجی کیفیت ہے اور ایک نزولی کیفیت ہے اور ان کے مابین base line ’’عبدیت‘‘ اور ’’صالحیت‘‘ ہے. ’’عبدیت‘‘ کی اصطلاح قرآن میں سب سے زیادہ استعمال ہوئی ہے. سورۃ البقرۃ کے تیسرے رکوع کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے : یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُْ ’’اے لوگو!اپنے ربّ کی بندگی اختیار کرو‘‘. لیکن سورۃ النساء کی آیت ۶۹ میں ’’صالحین‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے. یہ دونوں اصطلاحیں چونکہ base line ہیں اس لیے ان دونوں کو یکجا کر دیا گیا ہے. جس شخص نے فیصلہ کر لیا ہو کہ میں اللہ کا بندہ بن کر ہی زندگی گزاروں گا‘ وہ صالحین میں شامل ہو گیا.
اب اس کے اوپر کے درجات کے لیے تین اصطلاحات ہیں اور یہ تینوں تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں. ایک ہے ’’ولایت‘‘ یعنی اللہ کی دوستی. اس کی تفصیل سورئہ حٰمٓ السجدۃ میں بایں الفاظ آئی ہے: 

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا... (آیت ۳۰
’’جن لوگوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے پھر اُس پر ثابت قدم رہے…‘‘

یعنی جن کو بھی اس عبدیت پر استقامت حاصل ہو گئی‘ جن کا بھی ایمان پر دل ٹھک گیا اور انہیں اللہ کے ساتھ تسلیم و رضا کی کیفیت حاصل ہو گئی‘ ان کا توکل کل کا کل اللہ کی ذات پر مرکوز ہو گیا اور وہ اطاعت ِکلی پر کاربند ہو گئے‘ تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے : 

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾ (یونس) 
’’آگاہ ہو جائو! یقینا اللہ کے دوست تو وہ ہیں کہ جن پر (قیامت کے دن) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے. یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے پرہیزگاری کی روش اختیار کی.‘‘

اس دوستی کے لیے ایک لفظ ’’خُلّت‘‘ بھی ہے اور یہ خاص طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے استعمال ہوا ہے. سورۃ النساء میں ارشاد ہوا : 
وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ‘ؑکو اپنا خلیل بنا لیا‘‘. تو یہ ’’ولایت‘‘ اور’’خلت‘‘ دو اصطلاحات ہیں. لیکن ایک اعتبار سے ’’صدیقیت‘‘ کی اصطلاح بھی ان کے ہم پلہ ہے. صدیق وہ شخص ہے جو نیک سرشت ہو‘ جو طبعاً نیک‘ راست باز‘ راست گو‘ راست رو ہو اور وہ ہر اچھی بات کی تصدیق کرنے کے لیے تیار اورآمادہ رہتا ہو. یہ ہے وہ مرتبہ جس کے اُوپر عروج کی آخری منزل ’’نبوت‘‘ ہے. میں نے اسی لیے’’رسالت‘‘ کو نیچے رکھا ہے کہ میں ان حضرات کی رائے سے متفق ہوں جو رسالت کو مقامِ ’’نزول‘‘ میں سمجھتے ہیں ‘اس لیے کہ اصل عروج نبوت ہے. اس کے بعد حکم دیا جاتا ہے کہ اب اللہ کا پیغام لے کر لوگوں کی طرف جائو!یہ مقام رسالت ہے. حضرت موسٰی علیہ السلام کو حکم ہوا تھا : اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿٪۲۴﴾ (طٰہٰ) ’’جائوفرعون کی طرف! یقینا وہ سرکشی پر اتر آیا ہے‘‘. یہ نزول اس اعتبار سے بھی بہت خوبصورت لفظ ہے کہ حضور پر وحی نازل ہوئی جبکہ آپ جبل نور پر غارِ حرا میں تشریف فرماتھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہو رہا ہے : اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿٪۲۴﴾ جبکہ آپؑ کوہ طور پر اللہ سے ہم کلامی پر مشرف ہوئے. کہا جا رہا ہے کہ اب اس بلندی سے نیچے اترو اور جائو اللہ کا پیغام ہدایت لے کرلوگوں کی طرف! 

اس کیفیت کو علامہ اقبال نے شیخ عبد القدوس گنگوہیؒ کے ایک قول کے حوالے سے اپنے چوتھے خطبے میں بہت خوبصورتی سے واضح کیا ہے . شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ ایک بہت بڑے صوفی تھے. ان کا ایک جملہ ہے:’’ محمد عربیؐ بالائے آسمان رفت و باز آمد‘ بخدا اگر من رفتمے باز نہ آمدمے‘‘یعنی محمد ِعربی ساتویں آسما ن پر چلے گئے اور پھر واپس آگئے‘ خدا کی قسم! اگر میں وہاں پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا. علامہ اقبال کہتے ہیں: 

"This is the difference between prophetic experience and mystic experience." 

دراصل صوفی اللہ کے ساتھ لو لگا کر بیٹھ رہتا ہے. اس کیفیت میں جو سرور و کیف ہے اس سے تو ظاہر ہے کہ وہی شخص آگاہ ہے جس کو یہ کیفیت نصیب ہو جائے. جیسے کہا جاتا ہے:’’لذتِ ایں بادہ نہ دانی بخدا تانہ چشی‘‘. چنانچہ جس نے کبھی اس چیز کو چکھا نہ ہو وہ اس کے اندر جو سرور و کیف ہے اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا . اگر اللہ کے ساتھ لو لگی ہوئی ہے تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ع ’’بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے‘‘. عبدالقدوس گنگوہیؒ کا ہی ایک اور واقعہ بھی روایات میں ملتا ہے کہ ایک بار مراقبے میں بیٹھے ہوئے تھے اُس وقت جو بھی کیفیت ہو گی ہم اس کو نہیں سمجھ سکتے کہ اچانک اقامت کی آواز آگئی : قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ . اُس وقت انہیں کھڑے تو ہونا پڑا‘لیکن کہا یہ کہ ’’حضوری سے نکال کر دربانی میں کھڑا کر دیا‘‘. یعنی مراقبے میں تومجھے حضوری کی کیفیت حاصل تھی. لیکن بہرحال نماز کے لیے کھڑے ہو گئے‘ اس لیے کہ حکم خداوندی وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾ (البقرۃ) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جماعت میں شریک ہونا لازم ہے. 

تو ظاہر بات ہے جو اللہ کا بندہ اس مقامِ بلند پر پہنچ گیا ہو اَب اسے کہا جائے کہ جائو تبلیغ کرو تو اس پر یہ گراں تو گزرے گا ! تبلیغ دین میں تو لوگوں کی جلی کٹی سننی پڑتی ہیں. جیسے حضور سے کوئی کہتا پاگل ہو گئے ہیں‘کوئی کہتا دماغ خراب ہو گیا ہے‘ کوئی کہتا یقینا اس سے ان کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے‘ یہ کوئی لیڈری چاہتے ہیں‘ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے نام کی مالا جپیں. قرآن نے ان کے الفاظ نقل کیے ہیں : اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ یُّرَادُ ۖ﴿ۚ۶﴾ (صٓ) کسی نے کہا جادوگر ہیں ‘کسی نے کہا شاعر ہیں. معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ. نقل کفر کفر نباشد! تو اس سے حضور کے دل پر جو بیت رہی تھی قرآن خود اُس پر اِن الفاظ میں تبصرہ فرماتا ہے : وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ (الحجر) ’’(اے نبی !) ہمیں خوب معلوم ہے کہ جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس سے آپ‘ کا سینہ بھنچتا ہے (آپ کو صدمہ پہنچتا ہے)‘‘. اسی لیے کہا گیا : وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنََ (المزمل:۱۰’’صبر کیجیے اس پر جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں‘‘. ہمیں خوب معلوم ہے کہ اس سے آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہے‘ کوفت ہو رہی ہے‘ لیکن صبر کیجیے ! اور یہ معاملہ صرف زبانی ایذا تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے بعد جسمانی ایذائیں بھی شروع ہو گئیں. تو رسالت میں تو یہ ساری مصیبتیں جھیلنی پڑیں‘ جبکہ نبوت و ولایت کے مقام پر آدمی آرام و سکون سے بیٹھا ہوتا ہے . صوفیاء تو صرف اُسے تذکیر کریں گے جو اُن کی خانقاہوں میں آئے گا ‘وہ دربدر تو نہیں جائیں گے‘ انہیں کسی کی کوئی کڑوی کسیلی بات نہیں سننی پڑے گی.خانقاہ تو گویا ایک ہسپتال ہے. جیسے کوئی مریض علاج کی غرض سے ہسپتال میں آتا ہے اسی طرح جس کے اندر احساس بیدار ہو گیا ہے اور وہ تزکیہ کا خواہاں ہے تو وہ خانقاہ میں حاضر ہو جائے گا اور اس کو جو بھی حکم دیا جائے گا وہ مانے گا. اس میں تزکیہ کرنے والے صوفی کو مشقت نہیں اٹھانا پڑتی‘ جبکہ رسول کا معاملہ اس کے برعکس ہے ‘ وہ دردر جا رہے ہیں اور کہیں کچھ سن رہے ہیں‘ کہیں کچھ سن رہے ہیں. 
اس مقامِ عروج و نزول کو مولانا رومؒ نے عالم جسمانی کی ایک مثال کے ذریعے بہت خوبصورتی سے واضح کیا ہے کہ جب سمندر میں سورج کی حرارت اور تمازت اثر انداز ہوتی ہے تو سمندر کا پانی بخارات کی شکل میں اُوپر جا رہا ہوتا ہے. یہ بالکل صاف و شفاف مقطرپانی 
(distilled water) ہوتا ہے‘ اس میں کثافتیں (impurities) نہیں ہوتیں. یہی بخارات اُوپر جا کر بادل کی شکل اختیار کرتے ہیں اور پھر بارش بن کر برستے ہیں.

بخارات کا اُوپر جانا عروج ہے اور بارش کا برسنا نزول ہے. جب وہی پانی بارش کی شکل میں برستا ہے تو سب سے پہلے فضا کو صاف کرتا ہے ‘پھر زمین کو صاف کرتا ہے. یعنی وہی پانی فضا اور زمین کی گندگیوں اور کثافتوں کو اپنے اندر لے کر نالوں اور دریائوں سے ہوتا ہوا دوبارہ سمندر میں پہنچ جاتا ہے . یہ گویا عروج اور نزول کا ایک سلسلہ ہے. اللہ کے نبیؐ جب رات کے وقت کھڑے ہوتے تھے تو وہ عروج کی کیفیت ہوتی تھی. یہ مقامِ عبدیت ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف رُخ ہے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی ہورہی ہے. اور دن کے وقت جب دعوت و تبلیغ کے لیے گلیوں میں پھر رہے ہیں‘ گھر گھر جا رہے ہیں‘ لوگوں سے بات کر رہے ہیں اوران کی جلی کٹی باتیں سننی پڑ رہی ہیں تو طبیعت میں ایک انقباض ہوتا ہے‘ کثافت پیدا ہوتی ہے. چنانچہ حضور سے فرمایا گیا: وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ (الحجر) ’’ہمیں خوب معلوم ہے کہ جو باتیں یہ کہہ رہے ہیں ان سے آپ کا سینہ بھنچتا ہے‘‘. لیکن آپ اندازہ کیجیے کہ کتنے لوگ ہیں جو اُس دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں پاک صاف ہو گئے؟ کتنوں کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ خود بھی عروج کی کیفیت حاصل کریں. تو دراصل رسالت مرتبۂ نزول میں ہے. 

قرآن مجید میں رسالت کے قریب ترین لفظ شہادت ہے. سورۃ المزمل میں ارشادہوا: 

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾ 
’’(لوگو!)ہم نے تمہاری طرف ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول (یعنی موسیٰ علیہ السلام کو) بھیجا تھا.‘‘

سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوا: 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾ 
’’اے نبی( )!یقینا ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بنا کر اور خوش خبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر.‘‘

یہاں تین صفات میں سب سے پہلے شاہد کا لفظ آیا ہے کہ ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا ہے.یہ گواہی ہمیں اپنے قول سے بھی دینی ہے ‘جیسے ہم زبانی اقرار کرتے ہیں : 
اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ . پھر ہمارا عمل بھی گواہی دے کہ واقعتا ہم اللہ کے بندے ہیں اور ہم واقعتا محمد  کو اللہ کا رسول مانتے ہیں . پھر اِس گواہی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ لوگوں کو جمع کرو اور ایک اجتماعی نظام قائم کرو‘ جو پوری دنیا کے اوپر گواہ بن جائے کہ بہترین نظام وہی ہے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعے سے عطا کیا ہے.اب ظاہر بات ہے اس کے لیے عملی جدوجہد درکار ہے. چنانچہ اس شہادت کے لیے اب ان لوگوں کی اہمیت زیادہ ہو جائے گی جن کے اندر قوتِ کار اوربھاگ دوڑکی صلاحیت زیادہ ہے. جبکہ تصدیق کرنے میں وہ لوگ پیش قدمی کر جائیں گے جو سلیم الفطرت اور رقیق القلب ہیں. یہ ہیں اصل میں ’’صدیقین‘‘ اور ’’شہدائ‘‘ کے دو مزاج. بیروں بیں (extroverts) شہداء بنیں گے اور دروں بیں (entroverts) صدیق بنیں گے‘ ان کو تصدیق کرنے میں دیر نہیں لگے گی‘ پیش قدمی کر جائیں گے. لیکن اس کے بعد عملی جدوجہد میں نبی کے دست و بازو بننے میں شہداء پیش پیش ہوں گے ‘جو بھاگ دوڑ کرنے والے ہیں. حضراتِ ابوبکر و عثمان رضی اللہ عنہما اور نہ معلوم کتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے کہ ان کے ایمان لانے کے بعد بھی مسلمانوں کو کھلم کھلا حرم میں جا کر نماز پڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی. لیکن جس سال حضرات حمزہ و عمر رضی اللہ عنہما ایمان لے آئے تو اَب مسلمانوں نے ڈنکے کی چوٹ حرم میں جا کر نماز پڑھی. حضرت مسیح علیہ السلام کا بڑا پیارا قول ہے : ’’کتنے ہی ہیں جو بعد میں آتے ہیں لیکن پہلوں سے آگے نکل جاتے ہیں‘‘. حضور نے جن کو حضرت ابوبکر صدیق ص کے بعد عظیم ترین انسان معین کیا ہے وہ حضرت عمر فاروق ص ہیں جو پیغامِ ہدایت پہنچنے کے تقریباً چھ سال بعد ایمان لائے ہیں.اندازہ کیجیے کہ آپؓ سے پہلے چھ سال میں کم از کم تیس چالیس افراد تو ایمان لا چکے ہوں گے ‘لیکن وہ حضرت عمر فاروق ص سے پیچھے رہ گئے ہیں. اس لیے کہ آپؓ فعال انسان ہیں ‘آپ کے قوائے عملیہ زیادہ چاق و چوبند ہیں. جبکہ ایک وہ ہیں جن کے قوائے فکریہ و علمیہ کی حیثیت زیادہ ہے. تو اس اعتبار سے ’’صدیقیت‘‘ بلند ترین منزل ہے اور ’’شہادت‘‘ اس سے نیچے ہے. سورۃ النساء میں ارشاد ہوا: 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ 
’’جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایاہے‘ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین. اور کیا ہی اچھی ہے ان لوگوں کی رفاقت.‘‘

یعنی جو کوئی بھی معنوی طور پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کاربند ہو جائے گا اسے ان لوگوں کی ایک معیت و رفاقت حاصل ہو گی جن پر اللہ کا انعام ہوا ہے. ان میں سب سے پہلے انبیاء ہیں‘ ان سے نیچے صدیقین ہیں ‘ان سے نیچے شہداء کا رتبہ ہے اور پھر سب سے نیچے صالحین ہیں جو 
base line ہے.یہ ہے درحقیقت وہ ربط و تعلق جو اِن الفاظ کے مابین ہے.