قرآن مجید میں ’’شہید‘‘ درحقیقت گواہ کے معنی میں آتا ہے. دنیا کی زندگی میں یہ گواہی دعوت و تبلیغ اور عملی شہادت کے ذریعے سے ہے. اور یہی لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں استغاثہ کے گواہ (prosecution witness) کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے کہ اے اللہ! ہم نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا. قرآن مجید میں اہم مضامین دو مرتبہ ضرور آتے ہیں. چنانچہ یہ مضمون بھی دو مرتبہ آیا ہے کہ محمد رسول اللہ تم پر گواہی دیں گے اور تم بقیہ لوگوں پر گواہی دو گے کہ اے اللہ! تیرے نبیؐ نے تیرا جو پیغام ہم تک پہنچایا تھا‘ وہ ہم نے انہیں پہنچا دیا تھا.سورۃ الحج کی آخری آیت میں ارشاد ہوا ہے : 

وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ (الحج :۷۸

’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ اُس کی راہ میں جہاد کا حق ہے.اس نے تمہیں چن لیا ہے(حق کی پاسبانی اور اشاعت کے لیے) اور نہیں روا رکھی اس نے تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی. پیروی کرو اپنے باپ ابراہیم کے دین کی. اللہ نے تمہارا نام مسلم (سراطاعت خم کرنے والا) رکھا ہے اس سے پہلے ‘اور اس قرآن میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) ‘تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم بقیہ نوعِ انسانی پر گواہ بنو!‘‘

سورۃ الحج اور سورۃ البقرۃ اس اعتبار سے ایک دوسری کے ساتھ منسلک ہیں کہ ہجرت سے متصلاً قبل سورۃ الحج اور ہجرت کے فوراً بعد سورۃ البقرۃ نازل ہوئی ہے .یہی مضمون سورۃ البقرۃ میں بھی بایں الفاظ آیا ہے : 

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا (آیت ۱۴۳
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا ہے‘ تاکہ تم لوگوں پر بطورِ گواہ کھڑے ہو اور رسول تم پر بطورِ گواہ کھڑا ہو.‘‘ 

اس گواہی کا تعلق دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی. یہاں پر آخرت کو خاص طور پر نمایاں نہیں کیا گیا‘لیکن وہ اس میں 
implied ہے. دنیا میں تم گواہی دو گے دعوت و تبلیغ اور اتمامِ حجت کے ذریعے اور قیامت کے دن اسی گواہی کا ظہور ہو جائے گا جبکہ تم اللہ کی عدالت میں کھڑے ہو کر گواہی دو گے. تو یہ مضمون بھی قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے .ایک سورۃ النحل میں‘ جو ہجرت سے متصلاً قبل نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے. سورۃ النحل کی آیت ۸۹میں ہے : 

وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ جِئۡنَا بِکَ شَہِیۡدًا عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ 
’’اور اس دن (کا تصور کیجیے اے نبی !) جس دن ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ بنا کر کھڑا کریں گے ان ہی میں سے ‘اور آپ‘کو گواہ بنا کر کھڑا کریں گے اِن (اہل عرب) پر.‘‘

اس ضمن میں دوسرا مقام سورۃ النساء ‘آیت ۴۱ ہے‘ جس کا ذکر گزشتہ نشست میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہکی حدیث کے حوالے سے ہو چکا ہے. وہاں فرمایا: 

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ؃۴۱﴾ 
پھر اُس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور آپ کو بھی (اے محمد !) ان لوگوں کے خلاف بطور گواہ کھڑا کریں گے.‘‘

نوٹ کیجیے ’’علٰی‘‘کا صلہ مخالفت کے لیے آتا ہے. یعنی وہاں گواہی ان کے خلاف پڑے گی. اس لیے کہ اگر کوئی قوم اس پوزیشن میں ہو کہ یہ کہہ سکے کہ اے اللہ! تیرا پیغام ہم تک توآیا ہی نہیں ‘تو اس چیز کا انہیں اللہ کے ہاں کریڈٹ ملے گا اور انہیں رعایت دی جائے گی. 
’’ignorance of law is no excuse‘‘ دنیا کا قاعدہ ہے جبکہ اللہ کے ہاں ان لوگوں کو رعایت ملے گی جن تک بات نہیں پہنچی. اُن کا جرم اِن کے کھاتے میں جمع ہو گاجن کے ذمہ تھا کہ پہنچائیں ‘لیکن انہوں نے نہیں پہنچایا.بہرحال جن لوگوں تک بات نہیں پہنچی ان کے لیے تو وہ عذر ہو گیا‘ لیکن جن تک بات پہنچا دی گئی ان کے لیے کوئی عذر باقی نہیںرہا. سورۃ النساء میں ارشاد ہوا : رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾ (آیت ۱۶۵’’ہم نے اپنے رسولوں کو مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہ جائے لوگوں کے حق میں اللہ کے (محاسبہ کے) خلاف‘‘. تاکہ وہ یہ عذر نہ پیش کر سکیں کہ اے اللہ! تو ہم سے کس بات کا حساب لے رہا ہے‘ ہم تک تو تیرا پیغام پہنچا ہی نہیں. 

اس بات کو ایک سادہ ترین مثال سے سمجھئے! آپ کسی شخص کے ذریعے سے اپنے کسی دوست اور عزیز کو اپنا پیغام بھیجتے ہیں کہ فلاں کام کل شام تک ضرور ہو جانا چاہیے ورنہ میرا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا. فرض کیجیے وہ کام نہیں ہوا. اب آپ غصے میں بھرے ہوئے اس دوست یا عزیز کے پاس 
جائیں گے جس تک آپ نے اپنا پیغام بھجوایا تھا اور اس سے کہیں گے کہ میں نے آپ تک یہ پیغام بھیجا تھا ‘ آپ نے میرا وہ کام نہیں کیا اور مجھے اتنا بڑا نقصان ہو گیا ‘اس کا کون ذمہ دار ہے؟ اب اگر وہ صرف ایک جملہ کہہ دے کہ بھائی مجھے تو آپ کا پیغام ملا ہی نہیں ‘تو اس صورت میں آپ کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا‘آپ اس سے شکوہ نہیں کر سکیں گے اور اب آپ کا سارا غصہ پیغام بر کی طرف جائے گا. آپ جا کر اُس پر برہم ہوں گے کہ اللہ کے بندے!میں نے تجھے اتنا اہم پیغام دے کر بھیجا تھا ‘تم نے میرا پیغام کیوں نہیں پہنچایا؟ تواگرپیغام بر نے پیغام پہنچا دیا تو وہ بری ہو گیا‘ اب ساری ذمہ داری اُس کی ہے جسے پیغام پہنچ گیا ‘لیکن اگر پیغام بر نے پیغام پہنچانے میں کمی کی ہے تو ساری ذمہ داری پیغام بر کی ہے اورجس کے پاس پیغام پہنچنا تھا اس کی کوئی ذمہ داری نہیں. 

یہی وجہ ہے کہ سورۃ الاعراف میں فرمایا : 
فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ ’’ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان سے بھی جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اور ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے رسولوں سے بھی‘‘. ہم رسولوں سے بھی پوچھ گچھ کریں گے کہ تم نے ہمارا پیغام پہنچا دیا تھایا نہیں؟ وہ کہیں گے اے اللہ! ہم نے پہنچا دیا تھااور ہم نے فریضہ ٔرسالت کی ادائیگی پر لوگوں سے گواہی بھی لے لی تھی. خطبہ ٔحجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ نے لوگوں سے فرمایا: اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ ’’لوگو! کیا میں نے تم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟‘‘ اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعیننے یک زبان ہو کر کہا : ’’اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ‘‘ ’’ہم گواہ ہیں (اے اللہ کے رسول !) آپ نے یقینا فریضہ رسالت ادا کر دیا ‘امانت کا حق اد ا کر دیا‘ امت کی نصیحت کی ذمہ داری ادا کر دی اور آپ نے (گمراہی کے) تمام اندھیروں کو زائل کر دیا‘‘.تو اللہ کے رسول اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بری ہو جائیں گے‘ اب ساری ذمہ داری ان کی ہو گی جن تک اللہ کا پیغام پہنچ گیا ہو گا. یہ ہے اصل میں شہادت!