نبوت اور رسالت کا فرق simultaneous contrast کے اعتبار سے حضرت یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے تذکرہ میں بہت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے. حضرات یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلامکا دَور ایک ہی ہے. حضرت یحییٰ ں صرف نبی تھے اور حضرت عیسیٰ a رسول تھے. دو سورتوں سورۂ مریم اور سورۂ آل عمران میں اِن دونوں حضرات کا تقابل وارد ہوا ہے. سورۂ آل عمران میں حضرت یحیی علیہ السلام کی مدح اور ان کی شخصیت اور سیرت و کردار کے بارے میں بہت سے تاریخی کلمات کے بعد آخر میں یہ بات کہی گئی : نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾ ’’اوروہ نبی تھے صالحین میں سے‘‘. نوٹ کیجیے مرتبہ صالحیت base line ہے اور انسان اسی سے عروج حاصل کرتے ہوئے نبوت تک پہنچتا ہے . جبکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ (آیت ۴۹)’’اور وہ رسول تھے بنی اسرائیل کی طرف‘‘. یہی وجہ ہے کہ چونکہ نبی قتل بھی ہو سکتا ہے اس لیے حضرت یحیی علیہ السلام قتل کر دیے گئے. بادشاہِ وقت نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر جلاد کے ذریعے آپؑ کا سر قلم کروایا اور طشت میں رکھ کر اُس رقاصہ کو پیش کر دیا. قرآن کریم آپؑ کے سیرت و کردار کا ذکر ان الفاظ میں کر رہا ہے : 

یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا ﴿ۙ۱۲﴾وَّ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ؕ وَ کَانَ تَقِیًّا ﴿ۙ۱۳﴾وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا ﴿۱۴﴾‘ (مریم) 
’’اے یحیی! کتابِ الٰہی کو مضبوطی سے تھام لے. ہم نے اسے بچپن ہی میں حکم سے نوازا ‘اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی‘ اور وہ بڑا پرہیزگار اور والدین کا حق شناس تھا‘ او ر وہ جبار اور نافرمان نہ تھا.‘‘
دیکھئے قرآن میں آپؑ کی یہ عظمت بیان ہو رہی ہے ‘ لیکن دُنیا میں یہ حال سامنے آرہا ہے کہ ایک آبرو باختہ عورت کی فرمائش پر قتل کر دیے گئے . دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ اللہ کے رسول تھے‘ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ تھے لہذا قتل نہیں کیے گئے‘ اس لیے کہ رسول قتل نہیں کیا جا سکتا. 

ان دونوں مراتب ’’نبوت و رسالت‘‘ کو ایک مثال سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے. ہمارے یہاں 
CSP ایک کاڈر (cadre) ہے. وہ CSP اگر کہیں جا کرڈپٹی کمشنر لگ گیا ہے تو یہ اس کی تقرری(appointment) ہے. اسی طرح جب کوئی صرف نبی ہے تو گویا نبی کی حیثیت سے اس کا ایک کاڈر معین ہو گیا. لیکن آپ کو معلوم ہے بہت سے CSP حضرات کی تقرری نہیں ہو پاتی. جو شخص سرکاری یونیفارم میں نہیں ہے اس کے خلاف اقدام عام سی بات شمار ہوتی ہے. لیکن اگر کوئی شخص سرکاری یونیفارم میں ملبوس ہے تو گویا وہ حکومت کا نمائندہ ہے اور اس کے خلاف اقدام کرنا حکومت کو چیلنج کرنا ہے. بعینہٖ جب نبی مامور من اللہ ہو کر کسی قوم کی طرف بھیج دیے جاتے تھے تو وہ اللہ کی نمائندگی کر رہے ہوتے تھے اور ان کو قتل نہیں کیا جا سکتا تھا. اللہ تعالیٰ کا رسولوں کے بارے میں یہ وعدہ ہے : کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ (المجادلہ:۲۱’’اللہ نے یہ لکھا ہوا ہے (طے کیا ہوا ہے) کہ میں اور میرے رسول غالب آ کر رہیں گے‘‘. یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ سے فریاد کی تھی : اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ ’’(پروردگار!) میں تو مغلوب ہوا جا رہا ہوں‘ پس میری مدد کیجیے!‘‘ ان سے انتقام لیجیے! تو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کو رہتی دنیا تک کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا.اس لیے کہ رسول کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور فتح یابی لازم ہے. اور اگر قوم نے بحیثیت ِمجموعی رسول کی دعوت کو ردّ کر دیا ہو تو قوم کا ہلاک کیا جانا لازم ہے . جیسے قومِ نوح‘ قومِ لوط‘ قومِ صالح‘ قومِ شعیب اور آلِ فرعون انکارِ رسالت کی پاداش میں ہلاک کر دیے گئے‘ بلکہ صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے. لیکن نبی کے انکار کے جرم میں دنیا میں ہلاکت لازم نہیں ہے‘ اس کا حساب کتاب آخرت میں جا کر ہو گا ‘اس لیے کہ اللہ کی طرف سے اُس کی تقرری نہیںہوئی. وہ تو یوں سمجھئے کہ ایک ولی اللہ ہے جس کے پاس اللہ کی طرف سے وحی آ رہی ہے. تو درحقیقت نبوت و رسالت کا یہ فرق ہے اور اس کو سمجھنے ہی سے سارے عقدے حل ہوتے ہیں.

حضرات ابراہیم اور ادریس علیہما السلام کی شخصیات کے مطالعے سے بھی اس عقدے کو حل کرنے میں راہ نمائی ملتی ہے. حضرت ادریس علیہ السلام کے تفصیلی حالات تو ہم نہیں جانتے‘ قر آن مجید میں اُن کا بس اتنا تذکرہ ہے کہ: وَّ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ﴿۵۷﴾ ’’اورہم نے انہیں بھی بہت اونچا مقام و مرتبہ عطا فرمایا‘‘. یہ غالباً حضرت نوح اور حضرت آدم علیہما السلام کے مابین کی شخصیت ہیں .جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تفصیلی حالات ہمیں معلوم ہیں. آپؑ سلیم الفطرت انسان تھے. شروع ہی سے سوچ بچار اور غور وفکر کی خو تھی. وہ سوچتے تھے کہ ان سورج‘ چاند اور ستاروں کا کیا مقام ہے جن کو پوجا جا رہا ہے!مظاہر فطرت اور ان کی تخلیق پر غور و فکر کرتے کرتے وہ توحید تک پہنچ گئے اوربارگاہِ خداوندی میں عرض کیا : اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾ ’’میں نے یک سو ہو کر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اور (اے پروردگار!) میں شرک کرنے والوں میں نہیں ہوں‘‘. یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت ہے. اسی لیے ان کو کہا گیا : صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا یعنی آپ صدیق نبی تھے. آپ نبوت عطا ہونے سے پہلے مقامِ صدیقیت پر فائز ہیں‘ جیسے کہ حضرت یوسف d کو دیکھنے والے صدیق کہہ رہے ہیں : یُوۡسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیۡقُ . 

حضرت موسٰی d کی شخصیت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صفت شہید سے متصف تھے. آپؑ بہت قوی الجثہ انسان تھے. ان کی طاقت کی کیفیت یہ تھی کہ قبطی کو بس ایک تھپڑ یا گھونسا رسید کر کے اس کی جان نکال دی. قرآن مجید میں اُن کے بارے میں سوچ بچار کی کوئی روداد نہیں آئی. وہ تورات کے وقت بیوی بچوں سمیت وطن واپس آ رہے تھے ‘جبکہ شدید سردی اور اندھیرا تھا‘ دُور سے کہیں آگ نظر آئی‘ خیال گزرا کہ شاید کوئی کٹیا ہے جہاں سے راستہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے. گھر والوں سے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو ‘میں وہاں سے آگ کی چنگاری لے کر آتا ہوں تاکہ تم لوگ آگ تاپ سکو. (قرآن مجید میں ’’بِشِہَابٍ قَبَسٍ ‘‘ یا ’’جَذۡوَۃٍ مِّنَ النَّارِ ‘‘ کے الفاظ ہیں )لیکن وہاں اللہ تعالیٰ نے نبوت سونپ دی. گویا گئے تھے آگ لینے کو‘ مل گئی نبوت. جبکہ کہاں محمد رسول اللہکا معاملہ ہے کہ آپؑ غارِ حرا کے اندر جا کر بیٹھتے اور کئی کئی دن متواتر غور و فکر کرتے. روایات میں الفاظ ملتے ہیں: ’’ کَانَ صِفَۃُ تَعَبُّدِہٖ فِیْ غَارِ حِرَائَ التَّفَکُّرُ وَالْاِعْتِبَارُ‘‘ یعنی ’’غارِ حراء میں آپ کی بندگی غور و فکر اور عبرت حاصل کرنا تھی‘‘. ان دونوں شخصیات کی سیرت کے مطالعہ سے ان کے مابین فرق نمایاں ہوتا ہے. حضرت موسیٰd کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا: رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ’’آپ رسول نبی تھے‘‘. یہاں رسول ’’شہید‘‘ کے معنی میں ہے .ان دونوں الفاظ (رسالت اور شہادت) میں بڑی گہری مناسبت ہے. آپ ں مزاجاً شہداء میں سے ہیں اور شہادت سے ہو کر نبوت تک پہنچے ہیں‘ یعنی صالحیت و شہادت سے ہو کر رسالت اور پھر نبوت. اسی لیے آپؑ کو ’’رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ‘‘ کہا گیا ہے.

یہی معاملہ حضرت اسماعیل d کا بھی ہے. حضرت اسماعیل کی شخصیت کے بارے میں بھی کتب سیرت میں وہی واقعات ملتے ہیں جو حضرت حمزہ کے ہیں .دو مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت ابراہیم dفلسطین سے چل کر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل سے ملنے آئے ‘لیکن آپؑ شکار کے لیے نکلے ہوئے تھے. اُن کے گھر میں دو دن مقیم رہنے کے باوجود حضرت ابراہیم dکی اُن سے ملاقات نہیں ہو سکی. حضرت اسماعیل ں کی بیوی نے ان کے بارے میں حضرت ابراہیم ںسے کچھ شکوہ کیا کہ ہمارے حالات اچھے نہیں ہیں‘ بڑی تنگی ہے‘ تو آپؑ جاتے ہوئے کہہ گئے کہ جب میرے بیٹے آئیں تو ان سے کہہ دینا گھر کی چوکھٹ بدل دیں. (یعنی وہ بیوی کہ جو شاکی ہے وہ اس لائق نہیں ہے کہ تیرے گھر میں رہے) وہ واپس آئے تو انہیں بیوی نے پیغام دیا اور آپؑ نے اپنے والد محترم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بیوی کو طلاق دے دی. تو حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت اور حضرت اسماعیل ؑ کی شخصیت کے مابین یہی نمایاں فرق ہے .اس لیے انہیں رَسُوۡلًا نَّبِیًّا کہا گیا ہے.

قرآن مجید میں دو رسولوں کے لیے صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا آیا ہے اور دو کے لیے رَسُوۡلًا نَّبِیًّا لیکن ہمارے مفسرین کی بے توجہی کا عالم یہ ہے کہ کسی نے بھی ان مقامات پر تدبر کی زحمت گوارا نہیں کی. میں نے عہد حاضر کے ایک بہت بڑے مفسر سے سوال کیا کہ قرآن مجید میں دو رسولوں کے بارے میں ’’صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور دو کے بارے میں ’’ رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ‘‘ کے‘ اس میں کیا حکمت ہے؟تو انہوں نے پوچھا واقعی کہیں ’’ رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ‘‘ آیا ہے؟ میں نے سورئہ مریم کی آیات پڑھ کر سنائیں کہ یہ وہ مقامات ہیں. اس کا سبب دراصل قلت ِتدبر ہے کہ آدمی بغیر توجہ کیے گزر جاتا ہے کہ’رسول‘ کے بعد ’نبی‘ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے‘ جبکہ رسالت تو نبوت کے بعد ملتی ہے.تو یہاں درحقیقت رسول شہید کے معنی میں استعمال ہوا ہے. مختلف شخصیتوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں. ہماری اُمت میں ایک طرف حضرات ابوبکر و عثمان i ہیں جو صحابہ کرام ث میں سب سے چوٹی کے صدیقین ہیں‘ دوسری طرف حضرات حمزہ اور عمر i ہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شہداء کی بہت نمایاں مثال ہیں. جبکہ انبیاء و رسل میں سے حضرات ابراہیم اور ادریس e ’’صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ‘‘ ہیں اور موسٰی اور اسماعیل ’’رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ‘‘ ہیں. یہ وہ حقائق ہیں جن کی قدرے وضاحت ضروری تھی.