وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ ﴿ۙ۲۳﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ اکڑنے والوں کو اور شیخی خوروں کو پسند نہیں کرتا‘‘. ’’ لَا یُحِبُّ‘‘ اگرچہ نرم الفاظ ہیں لیکن اصل میں مراد یہ ہے کہ ایسے لوگ اللہ کو بہت ناپسند ہیں. یہ قرآن کا اپنا ایک اسلوب ہے کہ کسی شے کی نفی بسا اوقات سادہ انداز میں ہوتی ہے اور بسا اوقات اس کے اندر ایک زور (emphasis) ہوتا ہے. مُختال کا لفظ خَیْل سے بنا ہے‘ جس کا مطلب ہے اعلیٰ نسل کا گھوڑا. گھوڑے کی چال کے اندر ایک تمکنت ہوتی ہے. جتنی اعلیٰ نسل کا گھوڑا ہو گا اس کی چال میں تمکنت اتنی زیادہ ہو گی. تو ’’اِخْتَالَ‘‘ کا لفظ وہاں سے لیا گیا ہے. آدمی کی چال ڈھال سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے ‘ یہ کسی زعم میں ہے‘ اونچی ہوائوں میں ہے‘ اس کو کوئی غرور ہے. تو یہ اختیال ہے. اور فخر وہی لفظ ہے جو ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ’’تَفَاخُرٌبَیْنَـکُمْ‘‘ .یہ فخر کرنا رنگ و نسل پر ہے‘ حسب و نسب پر ہے‘ مال پر ہے‘ علم پر ہے‘ زہد و تقویٰ پر ہے. پھر اس کو بیان کرتے رہنا‘ اس کا اظہار کرنا‘ اللہ کو یہ چیزیں بالکل پسند نہیں ہیں. 

الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ وَ یَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡل ’’جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کا مشورہ دیتے ہیں‘‘. یہ آیت دراصل اس طرزِ عمل اور اس ذہنیت کا منطقی نتیجہ بیان کر رہی ہے. اگر دنیا میں انسان کو نعمتیں ملی ہیں تو ان پر فرح‘ پھر اختیال اور اس کے بعد فخر‘ یہ تینوں چیزیں درحقیقت اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انسان کی نظروں میں اصل قدر و قیمت اس دنیا کے مال و اسباب کی ہے. تب ہی تو وہ اس پر فخر کر رہا ہے. سورۃ الہمزہ میں ایک برے کردار کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾ ’’جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا. وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اسے دوام عطا کر دے گا‘‘. مال و دولت پر جو یہ دار و مدار اور انحصار ہے تو ظاہر بات ہے کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرا سرمایۂ افتخار میری دولت ہے تو وہ اس دولت کو سنبھال کر رکھے گا‘ خرچ نہیں کرے گا. اس لیے کہ اسی سے تو وہ لوگوںکے اوپر رعب جھاڑ رہا ہے‘ اسی سے تو اس کی عزت ہے. ہمارے اس معاشرے میں خاص طور پر یہ لعنت انتہا کو پہنچ گئی ہے. امیر غریب کا فرق تو پہلے بھی ہوتا تھا‘ دولت مندبھی تھے اور غریب بھی ہوتے تھے‘ لیکن عزت کی بنیاد دولت نہیں بلکہ کردار تھا . مسلمان معاشرے کے اندر وہ کیفیت ہوتی تھی کہ ایک فقیر اور درویش جو کہیں بیٹھا ہوتا تھا لوگوں کا رجوع اس کی طرف ہوتا تھا. اسی طرح علماء کی طرف رجوع ہوتا تھا. ہارون الرشید کی محبوب ملکہ زبیدہ نے حج کے موقع پر ایک بہت بڑی دینی شخصیت (جو غالباً اہل بیت میں سے تھے) کی طرف لوگوں کا التفات دیکھ کر ہارون الرشید سے کہا تھا کہ اصل حکومت تو ان کی ہے جو دلوں پر حکومت کر رہے ہیں‘ تمہاری حکومت تو محض لوگوں کے جسموں پر ہے. 

یہ اَقدار (values) جس معاشرے کے اندر موجود ہوں تو چاہے وہاں کچھ اونچ نیچ بھی ہو‘ اخلاق کادیوالہ اس طرح سے نہیں نکلتا جیسے کہ ہمارے معاشرے میں نکل گیا ہے. ہمارے ہاں یہ جانتے ہوئے بھی کہ فلاں کے پاس حرام کی دولت ہے‘ ہیروئن کی کمائی ہے‘ رشوت کا پیسہ ہے یا سود خوری کا معاملہ ہے‘ جس کے پاس دولت ہے اس کے لیے عزت ہے. اس کے سامنے لوگ جھکے جا رہے ہیں‘ بچھے جا رہے ہیں اور اچھے اچھے لوگوں کا طرزِ عمل یہی ہے تو اس سے درحقیقت معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں اخلاق کا دیوالہ نکل گیا‘ اقدار (values) کا بیڑا غرق ہو گیا. تو یہاں الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ َ کے الفاظ میں دراصل یہ بات بیان ہو رہی ہے کہ چونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عزت کی بنیاد پیسہ ہے لہٰذا وہ بخل کرتے ہیں اور پیسے کو سینت سینت کر رکھتے ہیں. وہ اگر پیسہ خرچ کریں گے تو گویا اپنی عزت اور فخر کی بنیاد کو ڈھائیں گے.
اس کے ساتھ ہی دوسری بات یہ کہ 
وَ یَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ ’’اور وہ دوسروں کو بھی بخل کرنے پر اکساتے ہیں‘‘. جو شخص خود بخل کرے گا وہ دوسروں کو بھی بخل کا مشورہ دے گا. اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک تو بہرحال لوگوں کی نگاہ میں وہ اپنا بھی تو کوئی بھرم قائم رکھنا چاہتا ہے اور اپنے طرزِ عمل کے لیے justification چاہتا ہے.’’امر‘‘ کا لفظ یہاں حکم کے معنی میں نہیں‘ بلکہ مشورہ کے معنی میں آیا ہے. دوسروں کو بخل کا مشورہ دینے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ بھائی کچھ عقل کے ناخن لو‘ کچھ سوچو‘ تم نے تواپنے دونوں ہاتھ کھلے رکھے ہوئے ہیں‘ تمہارے ہاتھ میں تو معلوم ہوتا ہے سوراخ ہے کہ کوئی شے تمہارے پاس رکتی ہی نہیں ہے. تمہیں چاہیے کہ کچھ آگے کی فکرکرو‘ بچوںکی فکر کرو‘ بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں‘ بچوں کے لیے جائیداد بنانی ہے. تو بڑے ہی ناصحانہ اور خیر خواہانہ انداز میں بخل کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ ہمارا بخل بھی ڈھکا چھپا رہے.