اب اس آیت کو پڑھئے : لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوںکو بینات کے ساتھ‘‘. یعنی معجزات اور براہین کے ساتھ . وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ ’’اور ان کے ساتھ کتاب بھی اتاری اور میزان (شریعت) بھی‘‘ . لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘. یہ ہے اصل میں اس آیت کی جان جو اِن الفاظ میں ہے. ہم نے یہ سب کچھ کس لیے اتارا؟ رسول کس لیے بھیجے؟ کتاب کس لیے نازل کی؟ میزان کس لیے اتاری؟ تاکہ میزان نصب ہو! اس لیے نہیں کہ کتاب کی تلاوت کرتے رہو اور ثواب لیتے رہو. یہ کتاب اس لیے آئی تھی کہ اسے قائم کرو. یہ میزان اس لیے دی گئی تھی کہ میزان نصب ہو. جیسے کہ حضرت ابوبکر صدیق ص نے بیعت خلافت کے موقع پر فرمایا تھا :’’لوگو! تم میں سے جو قوی ہے میرے نزدیک وہ ضعیف ہوگا جب تک کہ اس سے حق وصول نہ کر لوں اور جو ضعیف ہے وہ قوی رہے گا جب تک کہ اسے اس کا حق دلا نہ دوں‘‘. یہ ہے اصل میں وہ نظامِ عدل و قسط جسے قائم کرنے کے لیے حضور مبعوث ہوئے. چنانچہ آپ سے فرمایا گیا:اے نبی کہہ دیجیے! وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ (الشوریٰ:۱۵’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مابین عدل قائم کروں!‘‘ دیکھو‘ مجھے تم واعظ نہ سمجھنا جو ٹھنڈا ٹھنڈا وعظ کہتا ہے‘ میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے. ایک گائوں میں وعظ سنایا تو کچھ ہار گلے میں ڈلوائے‘ کچھ حلوے مانڈے کھائے اور اگلے گائوں چلا گیا‘ پھر وہاں وعظ کیا. میں وہ نہیں ہوں (معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ!) مجھے تو بھیجا گیا ہے اس لیے کہ میں عدل قائم کروں! 

عدل کا مطلب کیا ہے؟ جو اپنے حق سے زائد لے رہا ہے اُس شیر کے منہ سے نوالہ نکالیں گے تو عدل ہو گانا! اور کیا وہ اس کو پسند کرے گا؟ وہ تو مزاحمت کرے گا. چنانچہ عدل کو قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے. اسے عدالت والا عدل نہ سمجھئے. عدالت والا عدل تو یہ ہے کہ آپ کے ہاں جو بھی قانون رائج ہے اس کے تحت عدالت نے فیصلہ دے دینا ہے‘ اگرچہ وہ قانون ہی نامنصفانہ ہو. اگر اس نظام کی بنیاد ہی استحصال پر قائم ہے تو عدالت سے عدل کی کیا توقع ہو سکتی ہے؟ آپ نے تو چور کو سزادے دی ‘ کیونکہ آپ کے سول کوڈ میں لکھا ہوا ہے کہ جو چوری کرے گا اس کو یہ سزا ملے گی. لیکن آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ جس نے چوری کی ہے اس کا تعلق اُس طبقے سے تھا جس کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے اور اس نے جا کر کسی جاگیردار کے گھر کے اندر نقب لگائی ہے تو جاگیردار کے پاس جو دولت ہے وہ جائز طریقے سے آئی تھی یا ناجائز ذرائع سے؟ عدالت ان امور سے بحث نہیں کر سکتی. عدالت تو صرف ملکی نظام کے تحت رائج قانون کے تحت فیصلہ کرے گی کہ اس نے چوری کی ہے اور اس کی چوری کی سزا اسے مل‘رہی ہے جبکہ اصل شے نظام ہے. رسولوں کی بعثت عادلانہ و منصفانہ نظام (Politico-Socio-Economic System) قائم کرنے کے لیے ہوئی ہے. اسی کے بارے میں یہاں الفاظ آئے ہیں: لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں.‘‘

اس نظامِ عدل و قسط کا قیام اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر اہمیت رکھتا ہے اور اس پر قرآن حکیم میں کس قدر زور 
(emphasis) ہے اس کو سمجھانے کے لیے میں قرآن حکیم سے چند حوالے پیش کر رہا ہوں.

ہمارے دین میں سب سے بنیادی حوالہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ہیں. اس کے ضمن میں سورئہ آل عمران میں ارشاد ہوا : 
شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ (آیت۱۸’’اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اور (یہی شہادت) فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی دی ہے. وہ انصاف کا قائم کرنے والا ہے‘‘. یہاں اللہ کی یہ شان اور یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ عدل و قسط قائم کرنے والا ہے .اُس نے روزِ جزا کا معاملہ رکھا ہی اس لیے ہے کہ عدل و قسط قائم ہو.

دوسرا اہم معاملہ رسالت کا ہے .رسالت کی شان یہ بیان ہوئی ہے کہ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَان اور یہ generalised statement ہے‘ تمام رسولوں کے بھیجنے کا مقصد یہی تھا.تمام کتابوں اور تمام شریعتوں کے نزول کامقصد یہی تھا: لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ ِ ’’تاکہ لوگ عدل و قسط پر قائم ہوں‘‘. نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ‘ سے فرمایا گیا کہ اے نبی !آپ ڈنکے کی چوٹ کہہ دیجیے کہ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ (الشوریٰ:۱۵’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تمہارے مابین عدل قائم کروں.‘‘

اس کے بعد اُمت کا معاملہ آتا ہے. اُمت کے لیے جو بات سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ میں کہی گئی ہے وہ ایک ہی ہے‘ صرف ترتیب بدل گئی ہے .سورۃ النساء میں ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ (آیت ۱۳۵’’اے ایمان کے دعوے دارو! (پوری قوت کے ساتھ) عدل و انصاف کو قائم کرنے والے اور اللہ کے حق میں گواہی دینے والے بن جائو! چاہے یہ بات تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف جا رہی ہو‘‘ تمہیں عدل و انصاف کی بات کہنی ہے ‘یہ نہیں دیکھنا ہے کہ اس سے میری اپنی ذات کو یا میرے ماں باپ کو یا میرے خاندان اور رشتہ داروں کو نقصان پہنچ جائے گا. جو بات عدل کی ہے وہ ڈنکے کی چوٹ کرو.

یہی بات ذرا ترتیب بدل کر سورۃ المائدۃ کے اندر آتی ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ (آیت ۸’’اے اہل ایمان! اللہ کی خاطر عدل و انصاف کی گواہی دینے والے بن کر کھڑے ہوجائو! اور دیکھنا کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کر دے کہ تم عدل سے انحراف کرو. عدل کرو‘ یہ پرہیزگاری سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘. مقدم الذکر آیت میں فرمایا گیا ہے کہ حق کی بات کہو چاہے وہ تمہاری اپنی ذات‘ تمہارے والدین یا تمہارے اپنے کنبے قبیلے کے خلاف جا رہی ہو. دوسری آیت میں وہی بات برعکس طور پر کہی کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کر دے کہ تم عدل سے انحراف کرو. عدل سے کام لو‘ یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے. یہ ہے عدل و قسط کی اہمیت جو قرآن حکیم میں بیان ہوئی ہے. اور مطلوب یہ ہے کہ یہ عدل و قسط اجتماعی نظام کی شکل میں ہو.