سورۃ الحدید اور سورۃ الصف کی دو آیات کا تقابلی مطالعہ

میں چاہتا ہوں کہ آگے بڑھنے سے پہلے زیر درس آیہ مبارکہ کے اس حصے کا سورۃ الصف کی آیت ۹ سے ایک تقابلی مطالعہ کر لیا جائے. 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ 

سورۃ الصف کی یہ آیت اس سورت کی مرکزی آیت اور اس کا عمود ہے. قرآن مجید میں یہ مضمون تین مرتبہ بالکل انہی الفاظ میں آیا ہے‘ سوائے اس کے کہ ایک مقام پر صرف آخری حصہ ذرا مختلف ہے. ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖٖ یہ الفاظ قرآن حکیم میں تین دفعہ آئے ہیں. سورۃ التوبہ کی آیت ۳۳‘ سورۃ الفتح کی آیت ۲۸ اور سورۃ الصف کی آیت ۹ انہی الفاظ پر مشتمل ہے.سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں آیت کے اختتام پر وَ لَوۡ کَرِہَ َ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ کے الفاظ ہیں‘ جبکہ سورۃ الفتح میں وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ کے الفاظ پر آیت ختم ہوتی ہے. تقابلی مطالعہ اس اعتبار سے کرنا ہے کہ سوۃ الحدید کی آیت ۲۵ میں تمام رسولوں کے ساتھ تین چیزوں کا ذکر کیا گیا: اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ َ اور اس سے پہلے بِالۡبَیِّنٰتِ جبکہ حضور کے بیان میں صرف دو چیزوں کا ذکر ہوا: اَلْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ .اس لیے کہ حضور کا اصل معجزہ قرآن حکیم ہے. 

الہدیٰ سے مراد قرآن ہے. یہ ھُدًی لِّلنَّاسِ ہے‘ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہے‘ الھُدیٰ (The Guidance) ہے‘ جس میں ہدایت خداوندی مکمل ہو چکی‘ اپنے اتمام کو پہنچ چکی‘ درجہ تکمیل کو پہنچ چکی اور حضور کا معجزہ بھی یہی ہے.حضور کا معجزہ ید ِبیضا نہیں ہے‘ عصائے موسیٰ ؑ کی شکل میں نہیں ہے‘چٹان سے کسی اونٹنی کے برآمد ہو جانے کی صورت میں نہیں ہے‘ بلکہ حضور کا معجزہ قرآن ہے.یٰسٓ ۚ﴿۱﴾وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾ ’’قرآن حکیم کی قسم ہے (یہ حکمت بھرا قرآن گواہ ہے اس پر کہ) آپؐ یقینا اللہ کے رسول ہیں‘‘. قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ ’’قرآن مجید کی قسم ہے‘‘.یہ باعظمت قرآن گواہ ہے آپؐ کی رسالت پر. صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾ ’’ قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی‘‘.یہ قرآن جو ذکر والا ہے‘ نصیحت والا ہے‘ یہی آپؐ کی رسالت کا ثبوت ہے. تو یہ جان لیجیے کہ قرآن حکیم صرف کتاب نہیں ہے‘ بلکہ یہ معجزہ+کتاب الہدیٰ ہے. اور وہ جو میزانِ شریعت چلی آرہی تھی وہ اپنی تکمیل کو پہنچ گئی ہے دین حق کی شکل میں.

میری کتاب ’’نبی اکرم کا مقصد ِبعثت‘‘ تین مقالات پر مشتمل ہے‘ درمیانی مقالہ کا موضوع یہی ہے کہ حضور کا مقصد ِبعثت کیا ہے؟ اور اس میں تفصیل بیان کی گئی ہے کہ جیسے انسانی ذہن ارتقائی منازل طے کرتا ہے اسی طرح نوع انسانی کا فکر اور ذہن بھی بحیثیت ِمجموعی ان ارتقائی مراحل سے گزرا ہے. یہی وجہ ہے کہ جب انسان اپنے ذہنی ارتقاء کے اعتبار سے بلوغ کو پہنچ گیا تو محمد رسول اللہ پر’’الہدیٰ‘‘ کا اتمام ہو گیا. اسی طریقے سے تمدنِ انسانی کا بھی ارتقاء ہوا ہے. کبھی انسان غاروں میں رہتا تھا‘ کوئی اجتماعی نظام تھا ہی نہیں. پھر کوئی قبائلی نظام قائم ہوا‘ پھر کوئی ریاستی نظام قائم ہوا‘ پھر بڑی بڑی مملکتیں قائم ہو گئیں. اور اب آ کر پورا نظامِ زندگی جس طور سے اجتماعیت کی گرفت میں آ چکا ہے ‘تو اگر وہ نظام صحیح ہو تو تمام افراد کا معاملہ بھی بہتر ہوجائے گا ‘اور نظام ہی غلط ہو تو ظاہر بات ہے کہ معاشرہ تلپٹ ہو کر رہ جائے گا. تو جب وہ تمدن اس سطح کو پہنچ گیا کہ روم اور فارس جیسی بڑی بڑی عظیم مملکتیں (Empires) قائم ہوگئیں تو اس وقت نبی آخر الزماں کو عدل و قسط پر مبنی ایک کامل نظامِ اجتماعی (Politico-Soco-Economic System) دے کر بھیجا گیا‘ جسے آپ نے جزیرہ نمائے عرب میں بالفعل قائم کر کے دکھایا اور اسے پوری دنیا میں قائم کرنے کی ذمہ داری اُمت کے سپرد فرمائی. اور ظاہر بات ہے کہ جب تک اسے قائم کر کے نہ دکھا دیا جائے ‘یہ نظام دنیا پر حجت نہیں بن سکتا. 

شہادت علی الناس پر ان دروس میں بھی گفتگو ہوئی ہے کہ شہادت زبان سے بھی دی جاتی ہے ‘ دل سے بھی اور عمل سے بھی ؎ 

وہی ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زباں اور دل کی شہادت کے لائق!

ہم گواہی دیتے ہیں: نَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ . ہمیں یہ گواہی اپنے عمل سے بھی دینی چاہیے کہ واقعۃً ہم اللہ کو اپنا الٰہ‘ معبود اور حاکم مطلق مانتے ہیں اور محمد کو واقعۃً اللہ کا رسول مانتے ہیں. پھر یہ گواہی انفرادی طور پر ہی نہیں‘ اجتماعی طور پر بھی مطلوب ہے‘ اور یہ گواہی اُس وقت قائم ہو گی جب کہ وہ نظام عملاً قائم کر کے دکھایا جائے. ورنہ کہا جائے گا کہ یہ محض خیالی جنت (Utopia) ہے‘ باتیں تو بڑی اچھی ہیں‘ لیکن قابل عمل نہیں ہیں‘ انہونی سی باتیں ہیں. ’’سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ‘‘کہنا تو بڑا آسان ہے‘ لیکن کیا واقعۃً کہیں ایسا ہو سکتا ہے؟ جی ہاں! اس کا عملی نقشہ اگر دیکھنا ہو تو ابوبکر اور عمر iکو دیکھ لیجیے. ایسا نہیں ہے کہ بس کوئی شاعری کی گئی ہو‘ معاذ اللہ بلکہ وہ نظام عملاً قائم کر کے دکھایا جس میں ہر نوع سے توازن ہے. عورتوں کو حقوق دیے گئے ہیں‘ لیکن وہ حقوق اس طرح کے نہیں ہیں کہ خاندانی نظام درہم برہم ہو جائے. عوام کو حقوق دیے گئے ہیں‘ وہ خلیفۃ المسلمین کو دورانِ خطبہ ٹوک کر پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کرتا آپ نے کہاں سے بنایا ہے؟ لیکن وہ آزادی اس طرح کی بھی نہیں ہے کہ نظام ہی بالکل درہم برہم ہو کر رہ جائے. اسی طرح جو صاحب مال ہے اس کے اپنے حقوق ہیں‘ لیکن مزدور کا اپنا حق ہے. صاحب مال کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ سود کی بنیاد پراپنے مال میں اضافہ کرنے لگے اور ارتکازِ زر کا مرتکب ہو. اسلام کے نزدیک یہ سب سے بڑی حرام شے ہے. یہ نظام ہے جو دین حق کی شکل میں محمد عربی کو دیا گیا.

ہم تقابل کر رہے تھے کہ جہاں عمومی قانون بیان ہوا‘ وہاں تین چیزیں مذکور ہوئیں: لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لیکن محمد رسول اللہ کا معاملہ خصوصی ہے. اس کے بارے میں فرمایا: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ ِّ اس لیے کہ الہدیٰ قرآن ہے‘ قرآن ہی معجزہ بھی ہے اور قرآن ہی الکتاب بھی ہے. اور وہ نظامِ عدلِ اجتماعی دین حق کی شکل میں کامل نظام کی حیثیت سے پیش کر دیا گیا.تو کس لیے بھیجا حضور کو؟ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ’’تاکہ اس کو کل جنسِ دین پر غالب کر دے‘‘.اس نظامِ عدلِ اجتماعی کو غالب کر کے دکھائے. یہ نظام کسی اور نظام کے تابع رہے گا تو پھر ظاہر کیسے ہو گا؟ اگر یہ ملوکیت کے تابع ہو گیا‘ سرمایہ داری کے تابع ہو گیا یا کسی اور نظام کے تابع ہو گیاتو پھر وہ نظام نہیں‘ مذہب بن جائے گا ‘ جو عقائد‘ مراسم عبودیت اور سماجی رسومات کا مجموعہ ہو گا. جیسا کہ خلافت راشدہ کے بعد تدریجاً جب خلافت کا نظام ختم ہوا اور ملوکیت آئی ‘ جاگیرداری آئی‘ سرمایہ داری آئی ‘تو دین سکڑ کر مذہب کی صورت اختیار کر گیا. اب یہ صرف عقائد اور نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ تک محدود ہو گیا. اس کے علاوہ کچھ ذکر اور مراقبوں کے حلقے اس میں راہ پا گئے. باقی رہا نظام‘ وہ تو بادشاہوں کا تھا. محلات ان کے بننے لگے . بادشاہ کی محبوب بیوی کا انتقال ہوا تو کروڑوں روپے سے تاج محل بن گیا. بادشاہ کو محل چاہیے ‘الحمرا بن گیا. بادشاہ کے لیے تو بڑاشاندار توپ کاپی جیسا محل ہونا چاہیے. استنبول میں جا کر دیکھئے کتنا عظیم الشان محل بنایا ہے. کہاں عمر فاروق صتھے جو حجرے میں رہتے تھے‘لیکن ان کے نام سے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں کے اندر لرزہ طاری ہوتا تھا ‘کہاں یہ عالم کہ عیاشیاں ہیں‘ ایوان سجا رکھے ہیں‘ لیکن دنیا کے اندر ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں. تو بہرحال اس چیزکو سمجھئے کہ محمد رسول اللہ کا مقصد ِبعثت یہ ہے : لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ٖ تاکہ وہ اس دین کو غالب کریں‘قائم کریں‘ نافذ کریں اور پورے نظامِ زندگی پر اسلام چھا جائے‘ اسلام غالب آ جائے‘ اسلام قائم ہو جائے. زندگی کا کوئی جزو‘ کوئی پہلو‘ اس سے خارج اور آزاد نہ رہ جائے. وہی بات یہاں کہی گئی : لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ .