اب یہ مقصد پورا کیسے ہو گا؟ فرمایا: وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ ’’اور ہم نے لوہا بھی اتارا ہے‘‘ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌٌ ’’جس میں شدید جنگ کی صلاحیت ہے‘‘.’’بأس‘‘ کا ترجمہ بعض حضرات صرف قوت کر دیتے ہیں کہ ’’اس میں بڑی طاقت ہے‘‘ لیکن اس کا حقیقی ترجمہ ’’اسلحہ کی قوت‘‘ ہے. اسی لوہے سے تلوار‘ نیزہ‘ ڈھال اور دیگر سامانِ جنگ تیار ہوتا ہے’’بأسائ‘‘ جب جمع کی شکل میں آتا ہے تو اس سے مراد فقر و فاقہ‘ بھوک اور تنگی ہوتا ہے لیکن جب ’’البأس‘‘ آتا ہے تو یہ جنگ ہی کے معنی میں آتا ہے. ہمارے منتخب نصاب کے درس دوم (آیۃ البر) میں یہ دونوںہی الفاظ آئے ہیں فرمایا: 

وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ (البقرۃ:۱۷۷
’’اور صبر کرنے والے تنگی و مصیبت کے وقت میں اور (حق و باطل کی) جنگ‘میں.‘‘

چنانچہ ’’اَلْبَاْسَائِ‘‘ سے تنگی‘ فاقہ‘ بھوک‘ زخم وغیرہ کی تکلیف یا کوئی مصیبت وغیرہ مراد ہے‘ جبکہ ’’البأس‘‘ جنگ ہے. انسان کا اصل امتحان تو ’’حِیْنَ الْبَاْسِ‘‘ یعنی جنگ کے وقت ہی ہوتا ہے جہاں جان کے لالے پڑ جائیں‘ جہاں جان کی بازی کھیلنی پڑے. جووہاں پر صبر کا مظاہرہ کر سکیں وہ ہیں کہ جن کے بارے میں فرمایا گیا: 
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ ’’یہ ہیں وہ لوگ جو واقعۃً (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں وہ لوگ جو واقعۃًمتقی ہیں‘‘.یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے ان الفاظ کا مطالعہ کیجیے: فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ ’’اس میں شدید جنگ کی صلاحیت ہے‘‘. وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاس ’’اور لوگوں کے لیے دوسری منفعتیں بھی ہیں‘‘. آج کل تو اس اعتبار سے ہمارے نزدیک لوہے کی اہمیت کم ہو گئی ہے‘ ورنہ توا ‘ پرات‘ چمٹا‘پھونکنی سب لوہے سے ہی بنتی تھیں.اب ہمارے زیر استعمال اشیاء میں لوہا اس طرح سے نمایاں نظر نہیں آتا‘ لیکن بہرحال اس میں لوگوں کے لیے اور بھی بہت سے فائدے ہیں.

آگے فرمایا: 
ِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ ’’اور تاکہ اللہ یہ ظاہر کر دے ‘‘. ’’لِیَعْلَمَ‘‘کا لفظی ترجمہ ہے’’تاکہ اللہ یہ جان لے‘‘ لیکن ہم اس کا ترجمہ کرتے ہیں ’’تاکہ اللہ دکھا دے‘ ظاہر کر دے‘‘. اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا علم تو قدیم ہے‘ اللہ کو معلوم ہے کون کتنے پانی میں ہے ‘لیکن اللہ لوگوں کو دکھا دینا چاہتا ہے اور یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہے کہ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ ’’کون ہے وہ جو غیب کے باوجود اللہ کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے‘‘. دین اللہ کا ہے جس کے قیام کی جدوجہد کرنا ہے. حاکمیت اللہ کے لیے ہے.اس سورئہ مبارکہ کے پہلے حصے میں ہم دو مرتبہ یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں: لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ’’اُسی کی بادشاہت ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی‘‘.پھر ہم یہ بھی پڑھ چکے ہیں: وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ ’’وہی غالب حکمت والا ہے‘‘. وہ العزیز بھی ہے‘ الحکیم بھی ہے. بادشاہ حقیقی وہ ہے‘ حکم اس کا چلنا چاہیے. لہٰذا جو لوگ اس لوہے کی طاقت کو ہاتھ میں لے کر اللہ کے حکم کو نافذ کرتے ہیں وہ اللہ کے مددگار ہیں.اور اللہ کے اس دین کو عملاً قائم کرنا فرضِ منصبی ہے محمد رسول اللہ کا اور تمام رسولوں کا‘ تاکہ دنیا میں عدل قائم کریں .اس کے لیے یہاں الفاظ آئے : لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ ِ ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘. سورۃ الشوریٰ میں واحد کے صیغے میں محمد رسول اللہ کے لیے فرمایا گیا : وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ (آیت ۱۵’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مابین عدل کروں‘‘. اور سورۃ التوبۃ‘ سورۃ الفتح اور سورۃ الصف میں تین مرتبہ یہ الفاظ آ گئے : لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہ تو گویا جو بھی لوہے کی طاقت لے کر محمد رسول اللہ کی نصرت کے لیے میدان میں آ گئے وہ ہیں اللہ کے بھی مددگار اور رسولؐ کے بھی مددگار.