اس کے ساتھ سورۃ الصف کی یہ آیت جوڑ لیجیے : اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ ’’اللہ کو تو محبوب ہیں (اپنے وہ بندے) جو اُس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں صفیں باندھ کر‘ گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘.

سورۃ الحدید اس اعتبار سے عجیب سورت ہے کہ اس میں لفظِ جہاد آیا نہ قتال‘ لیکن دونوں کے مضامین موجود ہیں. لفظ ’’الحدید‘‘ (لوہا) میں اسلحہ کا ذکر آگیا.یہ اُمّ المسبحات ہے اور کل مسبحات کے سارے مضامین اس میں جمع ہیں. 
وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ کے الفاظ میں گویا واضح کر دیا گیا کہ اللہ کو تو محبت ان اہل‘ایمان سے ہے جو اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں‘ غیب میں ہونے کے باوجود. ؎ 

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے 
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند!

اللہ کو محبوب اپنے وہ بندے ہیں جو لوہے کی طاقت کو ہاتھ میں لے کر اللہ کے دشمنوں کی سرکوبی کے لیے میدان میں آتے ہیں . وہ نہیں کہ جو ع’’تو فقط اللہ ہو‘ اللہ ہو‘اللہ ہو!‘‘ کے مصداق اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ضربیں لگاتے جائیں اور ساری عمر ضربیں لگاتے ہوئے ہی گزار دیں. نہ زندگی میں باطل کے ساتھ کبھی پنجہ آزمائی کا موقع آئے نہ کبھی باطل کو للکارنے کا. 

اس طرزِ عمل کے بارے میں میں یہ حدیث بارہا سنا چکا ہوں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرِیْلَ علیہ السلام اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں فلاں بستیوں کو ان کے رہنے والوں سمیت تلپٹ کر دو‘‘. قَالَ: یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلَانًا لَمْ یَعْصِکَ طَرَفَۃَ عَیْنٍ ’’حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: پروردگار! ان لوگوں میں تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے آج تک کبھی پلک جھپکنے جتنا وقت بھی تیری معصیت میں بسر نہیں کیا‘‘. قَالَ: فَقَالَ: اِقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ رْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ ’’حضور فرماتے ہیں :’’اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الٹو اس بستی کو پہلے اس پر‘پھر دوسروں پر. اس لیے کہ اس (بے غیرت) کے چہرے کا رنگ میری غیرت کی وجہ سے کبھی متغیر نہیں ہوا‘‘.یہ بیٹھا اپنی ذاتی نیکی‘ ذاتی تقویٰ‘ ذاتی عبادت گزاری‘ تہجد گزاری اور مراقبوں میں منہمک رہا اور اس کے ارد گرد باطل پروان چڑھتا رہا‘ پھیلتا رہا‘ اس کا بول بالا ہوتا رہا. شریعت کی دھجیاں بکھرتی رہیں اور یہ لگا رہا اپنے اسی کام میں ‘تو یہ دوسروں سے زیادہ بڑا مجرم ہے. لہٰذا الٹو اس بستی کو پہلے اس پر پھر دوسروں پر. 

دوسری طرف اگر اپنی تربیت اور اپنا تزکیہ کیے بغیر میدان میں آجائو تو وہی کچھ ہو گا جو آج جہاد کے نام پر ہو رہا ہے. اس طرح جہاد بدنام بھی ہو گا اور فساد کی شکل اختیار کرے گا. کسی اجتماعیت میں نہ دعوت کا مرحلہ آیا ‘نہ تربیت اور تزکیہ کا‘ اور نہ ہی قول و فعل میں مطابقت پیدا کی گئی اور نکل کھڑے ہوئے کلاشنکوف لے کرجہادکرنے کے لیے! چنانچہ اس جہاد کا دنیا میں مذاق اڑ رہا ہے اور جہاد بدنام ہو رہا ہے. اس طرح دین کی بنیادی اصطلاحات کو رسوا کیا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں سوائے فساد کے کچھ حاصل نہیں ہو رہا.