سورۃ الحدید کی آخری چار آیات کا مطالعہ کرنے سے قبل مناسب ہو گا کہ ہم تیزی کے ساتھ ایک طائرانہ نگاہ ان مضامین پر ڈال لیں جن کا ہم مطالعہ کر چکے ہیں. ہم نے تفہیم کی غرض سے اس سورئہ مبارکہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا تھا. اب میں ان حصوں کو کچھ ترمیم کے ساتھ بیان کر رہا ہوں. عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک حصے میں کوئی نہ کوئی آیت ایسی آئی ہے جس کی نظیر پورے قرآن حکیم میں نہیں ملتی . اس سورئہ مبارکہ کا پہلا حصہ جو چھ آیات پر مشتمل ہے‘ قرآن حکیم میں ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کے بیان پر جامع ترین مقام ہے ‘ نیز یہ ذات و صفاتِ باری تعالیٰ سے متعلق مشکل ترین مسائل سے بلند ترین علمی سطح پر بحث کرتا ہے. اس حصے کی عظیم ترین آیت ہے : ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ اللہ تعالیٰ کے ان چار اَسماء کے حوالے سے ہم نے فلسفۂ وجود ‘ ماہیت ِوجود اور ربط الحادث بالقدیم جیسے مسائل پر گفتگو کی‘ جو فلسفے اور علمِ کلام کے اہم ترین اور مشکل ترین مسئلے ہیں. 

اس سورئہ مبارکہ کا دوسرا حصہ بھی چھ آیات (۷.۱۲) پر مشتمل ہے.ان آیات میں باہمی ربط اور نظم اتنا نمایاں اور ظاہر و باہر ہے کہ کم از کم میرے نزدیک قرآن حکیم میں اس کی کوئی دوسری نظیر موجود نہیں. ان میں سے پہلی آیت (آیت ۷) میں دین کے تمام تقاضوں کو دو اصطلاحات (ایمان اور انفاق) میں بیان کر دیا گیا : اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا ’’ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسولؐ پر (جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے) اور خرچ کرو (اللہ کی راہ میں).‘‘ پھر آیت ۸ اور ۱۰ میں ذرا زجر کا انداز اختیار کیا گیا: وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ۚ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟ (جیسا کہ ایمان کا حق ہے).‘‘اور وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کیوں خرچ نہیں کرتے اور کھپاتے اللہ کی راہ میں؟ (جیسا کہ خرچ کرنے اور کھپانے کا حق ہے).‘‘جبکہ آیت ۹ اور ۱۱ میں ترغیب و تشویق اور حوصلہ افزائی کا انداز ہے .آیت ۹ کا مضمون یہ ہے کہ اگر اپنے باطن میں جھانکو اور محسوس کرو کہ واقعی اور حقیقی ایمان موجود نہیں ہے تو قرآن حکیم کی طرف رجوع کرو جو منبع ایمان ہے ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ یہ قرآن موجود ہے ‘اس کی آیاتِ بینات سے اپنے سینے کو منور کرو ‘ ایمانِ حقیقی کی نعمت تمہیں یہاں سے مل جائے گی. پھر یہ کہ انفاق کے لیے ترغیب کا جو بہت ہی مؤثر انداز ہو سکتا ہے وہ آیت ۱۱ میں اختیار کیا گیا‘جس کے لیے میں نے غالب کا یہ مصرعہ آپ کو سنایا تھا ع ’’کون ہوتا ہے حریف ِمئے مرد افگن عشق؟ ‘‘مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا ’’کون ہے وہ جو قرض دے اللہ کو قرضِ حسنہ؟‘‘ اب یہ پانچ آیتیں ہو گئیں. چھٹی آیت کو میں اس مرتبہ اسی دوسرے حصے میں شامل کر رہا ہوں.ان آیات میں دین کے جو تقاضے (ایمان اور انفاق) بیان ہوئے‘ جو شخص ان دونوں تقاضوں کو پورا کر دے گا تو اس کے لیے قیامت کے دن میدانِ حشر میں نور کا ظہور ہو گا. فرمایا: یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ ’’اُن کا نور اُن کے سامنے اور اُن کے دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا. نورِ ایمان ان کے سامنے ہو گا اور نورِانفاق ان کے دائیں طرف. اس لیے کہ انفاق دائیں ہاتھ سے کیا جاتا ہے. نبی اکرم کی بڑی پیاری حدیث ہے کہ اللہ کی راہ میں اس طور سے مال خرچ کرو کہ تمہارا داہنا ہاتھ جو دے وہ تمہارے بائیں ہاتھ کے علم میں نہ آئے. 

تیسرا حصہ آیت ۱۳ سے آیت ۱۵ تک تین آیات پر مشتمل ہے. اس کے لیے عنوان ہے ’’تفریق المُسلمین بین المؤمنین والمُنافقین‘‘ . دنیا میں جو لوگ مسلمان سمجھے جاتے تھے‘قیامت کے روز ان کے مابین تمیز اور تفریق کی جائے گی. یہ وہی مرحلہ ہے جسے ہم عام طور پر ’’پل صراط‘‘ کے نام سے جانتے ہیں. یہ میدانِ حشر کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے جب ایک چھلنی لگے گی کہ وہ مسلمان جو حقیقی ایمان سے بہرہ ور ہوں گے وہ اس راستے سے گزر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے‘جبکہ وہ لوگ جو حقیقی ایمان سے محروم تھے‘ بلکہ ان کے دلوں میں نفاق کا روگ تھا‘ وہاں پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے جہنم میں جا گریں گے. آیت ۱۴ نفاق کی حقیقت اور اس کے مراحل و مدارج کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین آیت ہے. نفاق کا اصل سبب کیا ہے؟ یہ کہ انسان مال اور اولاد سے اس حد سے زیادہ محبت کرے جس حد تک محبت کرنا درست ہے. اگر مال اور اولاد کی یہ محبت انسان کے دل پر ضرورت سے زیادہ قابو پا لے تو گویا اُس نے اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں فتنے میں ڈال دیا. اب اس کے بعد مزید مراحل ہیں. فرمایا: وَ لٰکِنَّکُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تَرَبَّصۡتُمۡ وَ ارۡتَبۡتُمۡ وَ غَرَّتۡکُمُ الۡاَمَانِیُّ حَتّٰی جَآءَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ غَرَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ ﴿۱۴﴾ ’’لیکن تم نے اپنے آپ کو (اپنے ہاتھوں) فتنے میں ڈالا اور پھر تم گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے اور تم شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے اور تمہیں آرزوئوں نے دھوکے میں ڈالے رکھا‘ یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آ گیا اور وہ بڑا دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکہ دیتا رہا‘‘. اور پھر اس کا جو انجام ہے وہ بیان فرما دیا: فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ ’’پس آج نہ تو تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے‘‘. دنیا میں منافق اہل ایمان کے ساتھ گڈ مڈ تھے‘ آخرت میں اُن کا حشر کافروں کے ساتھ ہو گا. 

چوتھا حصہ ۱۶ سے ۱۹ تک‘ چار آیات پر مشتمل ہے‘ جس کے لیے میں نے جامع عنوان ’’سلوکِ قرآنی‘‘تجویز کیا تھا. آیت ۱۶ کا مضمون یہ ہے کہ دیکھو! اگر تنبہ ہو گیا ہے‘ اگر حقیقت کا انکشاف ہو گیا ہے‘ اگر اللہ نے اپنے اندر جھانکنے کی توفیق عطا کر دی ہے‘ اگر یہ احساس ہو گیا ہے کہ ایمانِ حقیقی سے محرومی ہے‘ تو اب کمر ہمت کسو اور اس وقت کو ہاتھ سے جانے نہ دو! کہیں تاخیر و تعویق کے فتنے میں مبتلا نہ ہو جانا! فرمایا: اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ ’’کیا ابھی وقت نہیں آیا اہل ایمان کے لیے (ایمان کے دعوے داروں کے لیے) کہ ان کے دل واقعتا جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے اور (وہ تسلیم کر لیں اس سب کو) جو حق میں سے نازل ہوا ہے‘‘.گویا جھنجھوڑنے کا انداز ہے کہ اب مزید تاخیر کا موقع نہیں ہے . 

دوسری طرف اگر تم اپنے اندر جھانک کر محسوس کر رہے ہو کہ دل میں سختی موجود ہے ‘ تو گھبرائو نہیں‘ مایوس نہ ہو‘ بددل نہ ہو. اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ ’’جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اُس کے مردہ ہونے کے بعد از سرِ نو زندگی عطا فرما دیتا ہے‘‘. اللہ تعالیٰ مردہ زمین پر بارش برساکر اسے از سر نو حیاتِ تازہ عطا کر دیتا ہے .کیا عجب کہ وہ تمہارے دلوں کی زمین کو بھی ایمان کی لہلہاتی فصل سے دوبارہ زندہ کر دے. اس کے لیے جو شرطِ لازم ہے وہ اگلی آیت میں بیان کر دی گئی . نفاق کا اصل سبب حب دنیا ہے‘ جس کی سب سے بڑی علامت حب مال ہے. چنانچہ علاج بالضد کے اصول پر نفاق کا علاج یہ ہو گا کہ خرچ کرو‘ لگائو‘ کھپائو اللہ کی راہ میں. فرمایا: اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ ’’یقینا کثرت کے ساتھ صدقہ کرنے والے مرد اور عورتیں اور جنہوں نے اللہ کوقرضِ حسن دیا ہے‘ ان کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور اُن کے لیے بہترین اجر ہے‘‘. گویا مال کی محبت کو ہر دو طریقے پر دل سے نکالنا ہو گا‘ محتاجوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر کے بھی اور اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہد کے لیے بھی. جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ حب مال ایک طرح کا بریک ہے. اگر بریک لگا ہوا ہو تو آپ ایکسیلیٹر کو خواہ کتنا ہی دبائیں گاڑی نہیں چلے گی. پہلے بریک کھولیے‘ پھر ایکسیلیٹر کو دبایئے تو گاڑی چلے گی. لہٰذا مال کی محبت کا یہ بریک کھول دو. اب اپنے ایمان کی تجدید کرو اور اپنی کشت قلب میں از سر نو بیج ڈالو اور اس کی آبیاری کرو. پھر تمہیں لہلہاتی ہوئی بہار نصیب ہو گی اور اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے بلند ترین مقامات میں سے صدیقیت یا شہادت کے رتبے تک فائز ہو جائو گے. فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر وہی ہیں صدیق اور شہید اپنے رب کے پاس .ان کے لیے محفوظ ہے ان کا اجر بھی اور ان کا نور بھی.‘‘

سورۃ الحدید کا پانچواں حصہ آیات ۲۰ تا ۲۴‘ پانچ آیات پر مشتمل ہے. حیاتِ دُنیوی کی اصل حقیقت اور خاص طور پر اس کے مراحل و ادوار کے بیان کے ضمن میں آیت ۲۰ قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے اور اس کی کوئی نظیر قرآن میں موجود نہیں. فرمایا: اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ اس ایک آیت میں انسانی زندگی کے پانچ ادوار گنوا دیے گئے ہیں: (i)بچپن کا کھیل کود. (ii)نوجوانی کا لہو اور تلذذ (sensual gratification) 
(iii) زینت و زیبائش اور آرائش.(iv)باہمی تفاخر.یعنی اپنی دولت‘ نسل‘ علم‘ عقل‘ ذہانت و فطانت یا کسی اور استعداد اور صلاحیت پر فخر . (v)اموال و اولاد میں کثرت کی خواہش. اسی کا تکملہ آخری پارے کی سورتوں میں سورۃ التکاثر ہے.پھراس کے لیے کَمَثَلِ غَیۡث.....الخ کے الفاظ میں بہترین تشبیہہ دی گئی کہ جیسے بارش کے بعد زمین سے سبزہ اگتا ہے اور جب فصل اُپچتی ہے تو کاشتکار کو کس قدرخوشی حاصل ہوتی ہے. لیکن اس کے بعد اسی فصل پر زردی آتی ہے اور پھر وہ چورا چورا ہو کر بھس بن جاتی ہے. پھر وہی کھیت ویرانی کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے. گویا حیات کا ایک دور جو آیا تھا وہ ختم ہو گیا.

اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ اصل میں حیاتِ دُنیوی کا نصب العین تو یہ ہونا چاہیے: سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ’’ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے‘ جو تیار کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر‘‘. یہ ہے مومن کا نصب العین. باقی تمام چیزیں فرائض کے درجے میں رہیں گی‘ نصب العین اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے. 

اس حصے میں بیان ہونے والا تیسرا اہم مضمون یہ ہے کہ انسان پر آنے والی ہر مصیبت اللہ کی طرف سے پہلے سے طے ہوتی ہے. اس دنیا کی زندگی میں انسان مختلف حوادث اور آفاتِ ارضی و سماوی سے بہت متاثر ہوتا ہے. کبھی تکالیف آ گئیں‘ کوئی بیماری آ گئی‘ کوئی نقصان ہو گیا ‘ کوئی عزیز فوت ہو گیا ‘یا یہ کہ اقامت ِدین کی جدوجہد میں انسان مختلف خطرات سے دوچار ہوتا ہے اور اسے جان و مال کے ضیاع کا خوف لاحق ہو جاتا ہے. یہاں ان سب سے نجات دلانے والی بات فرما دی گئی : مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ ’’نہیں نازل ہوتی کوئی نازل ہونے والی زمین میں اور نہ تمہارے اپنے نفسوں میں مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں درج ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں‘‘.انسان اپنے فرائض سے گریز کے لیے اس کو بہانہ بنائے تو یہ گویا اس کی نادانی اور ناسمجھی ہے. وہ تو آ کر رہنے والی چیزیں ہیں اور ان کا اصل مقصد ابتلائ‘ آزمائش اور امتحان ہے جو حیاتِ دُنیوی کی اصل غرض و غایت ہے.ازروئے الفاظِ قرآنی: خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ ’’اس نے موت اور زندگی کی تخلیق فرمائی تاکہ تمہیں 
آزمائے کہ تم میں کون اچھے اعمال کرتا ہے.‘‘

سورۃ الحدید کا چھٹا حصہ ایک آیت پر مشتمل ہے‘ جس کے بارے میں مَیں نے عرض کیا تھا کہ یہ اس سورئہ مبارکہ کاکلائمکس ہے: لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ ’’ہم نے بھیجااپنے رسولوں کو واضح تعلیمات اور واضح نشانیوں کے ساتھ اور ان کے ساتھ ہم نے کتاب اور میزان اتاری‘ تاکہ لوگ عدل پرقائم ہوں‘‘.یعنی نبوت و رسالت اور کتاب و میزان کا اصل مقصد اور اصل ہدف قیامِ نظامِ عدلِ اجتماعی ہے. جہاں تک انفرادی سطح پر ایک بندئہ مؤمن کے نصب العین کا تعلق ہے وہ آخرت کی فلاح و نجات‘ حصولِ مغفرت اور حصولِ جنت ہے.لیکن دنیا میں اس کی مساعی‘ اس کی جدوجہد‘ بھاگ دوڑ کا ہدف‘ بلکہ اس کے دوسرے فرائض دینی کا نقطہ عروج نظامِ عدلِ اجتماعی کا قیام ہے.اس مقصد کے لیے جہاں دعوت و تبلیغ‘ تعلیم ونصیحت‘ تلقین و تشویق اور ترغیب وترہیب کی ضرورت ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ قوت فراہم کرو اور وقت آنے پر قوت کا استعمال کرو. جو لوگ بھی اس نظامِ عدلِ اجتماعی کے قیام کی راہ میں مزاحم ہوں اُن کے ساتھ مقابلہ کرو. یہاں تک کہ ضرورت ہو تو ان کی سرکوبی کرو. ہم نے لوہا اسی لیے اتارا ہے : وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ’’اور ہم نے لوہا بھی اتارا ہے جس میں شدید جنگ کی صلاحیت ہے اور لوگوں کے لیے دوسری منفعتیں بھی ہیں‘ اور تاکہ اللہ یہ ظاہر کر دے کہ کون ہے وہ جو غیب کے باوجود اللہ اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے‘‘.یہ اس سورئہ مبارکہ کا کلائمکس ہے.