اعمالِ صالحہ کے نقطہ عروج پر شیطان کا اِغوا و اِضلال

اب دیکھئے‘ یہاں ایک بات سامنے آ رہی ہے کہ دین کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ایک بندئہ مؤمن تدریجاً نقطہ عروج پر پہنچ گیا. ظاہر بات ہے کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے لہٰذا اس نقطہ عروج پر پہنچ کر بھی وہ شیطان کے اغوا و اضلال سے محفوظ و مامون نہیں ہو سکتا. اور شیطان کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ہی ہتھیار سے سب کو شکار کرنا چاہے .وہ مختلف ذہنی سطح اور مختلف افتادِ طبع کے لوگوں کو مختلف حربوں سے زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے. کوئی شخص ایمان اور عمل صالح کی منزلیں طے کرتا ہوا دین کی شاہراہ پر گامزن ہے تو اسے آخری منزل سے ہٹانے کے لیے شیطان کا اغوا اور اضلال یہ ہے کہ اس کی جدوجہد کو اقامت دین کے رخ سے موڑ کر تزکیہ کے خانقاہی تصور کی طرف منعطف (refract) کر دیا جائے کہ بس اپنی ہی ذات کو رگڑے جائو‘ اسی کو مانجھے جائو‘ اسی کو سنوارے جائو ؎ 

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!

تاکہ یہ نظامِ باطل کو چیلنج نہ کرے اور میرے استبداد‘ میرے استیلائ‘ میری حکومت اور میرے غلبے کے لیے چیلنج نہ بن جائے. لگا رہے نمازوں میں‘ روزانہ روزے رکھے‘ پوری پوری رات کھڑا رہا کرے. اپنی دانست میں منکرات اور حرام سے بچنے کے لیے نہایت خوردہ گیری اور خوردہ بینی سے کام لے لیکن میرے مقابلے میں نہ آئے‘ میرے نظام کو چیلنج نہ کرے‘ استحصالی و استبدادی نظام کے لیے خطرہ نہ بنے. ایک شخص یہاں تک آ گیا کہ اس نے اللہ کو پہچان لیا‘ آخرت کو جان لیا‘ اس نے طے بھی کر لیا کہ مجھے اللہ ہی کی رضا حاصل کرنی ہے . یعنی اس کا نصب العین بھی درست ہو گیا. پھر یہ کہ اپنے نفس کے حربوں اور ہتھکنڈوں سے بھی اس نے آزادی حاصل کر لی ہے‘ گناہوں سے بچ رہا ہے‘ حرام خوری سے اجتناب کر رہا ہے‘ فواحش و منکرات سے بچ گیا ہے. یہ سارے ہفت خوان طے کر چکا ہے. لیکن آخری مرحلے پر شیطان جو دائو اور اڑنگا لگاتا ہے وہ یہ ہے کہ اب اس کا رخ موڑ دو اور اسے اپنی ذاتی اصلاح ہی کے اندر لگائے رکھو‘ تاکہ یہ کہیں نظام کی اصلاح کے لیے میدان میں نہ آ جائے .یہ ہے درحقیقت شیطان کا آخری حربہ جو وہ نیک لوگوں پر آزماتا ہے اور ان کی نیکی کو بدی کے لیے چیلنج نہیں بننے دیتا‘ بلکہ انہیں ان کی انفرادی نیکی کے اندر محو کر کے رکھ دیتا ہے. 

اس آخری حصے میں شیطان کے اس حربے کے خلاف ایک تنبیہہ آ رہی ہے ‘اور چونکہ انبیاء و رُسل کی اُمتوں میں سے ایک اُمت کی ایسی مثال موجود ہے‘ لہٰذا اسے یہاں اُجاگر کیا جا رہا ہے‘ تاکہ ایک نشانِ عبرت سامنے موجود رہے کہ بالفعل ایسا ہوا ہے اورشیطان نے یہ دائو آزما کر ایک بڑی عظیم اُمت کو ایک غلط رخ پر ڈال دیا ہے. یہ درحقیقت حضرت عیسٰی ں کے پیروکاروں کی مثال ہے جنہوں نے اپنی اسی ذاتی انفرادی نیکی کے غلبے کے زیر اثر اور غیر معتدل تصور کے تحت رہبانیت کا نظام ایجاد کر لیا. جبکہ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس کے وفادار بندے لوہے کی طاقت ہاتھ میں لے کر میدان میں آئیں اور اللہ کی مدد بھی کریں اور اللہ کے رسولوں کی مدد بھی کریں. دین اللہ کا ہے. اسے قائم کرنے کی جدوجہد گویا اللہ کی مدد ہے اور چونکہ رسولؐ ‘کو بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس دین کو غالب کرے‘ لہٰذا یہ گویا رسولؐ ‘کی بھی مدد ہے. یہی بات سورۃ الصف کی آخری آیت میں فرمائی گئی ہے : 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ....
’’اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جائو‘ جس طرح عیسٰی ؑ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف؟ حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار!…‘‘

اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم ان آیات کا مطالعہ شروع کرتے ہیں. ارشاد ہوا : 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ فَمِنۡہُمۡ مُّہۡتَدٍ ۚ وَ کَثِیۡر مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۶﴾ 
’’ہم نے نوحؑ اور ابراہیم ؑ کوبھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی‘ پھران کی اولاد میں سے کسی نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہوگئے.‘‘

یہ ایک بڑی پرشکوہ تمہید ہے آگے زیر بحث آنے والے اس مضمون کے لیے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیروکار جس غلط رخ پر پڑ گئے تھے تم بھی کہیں اس رخ پر نہ پڑ جانا. اس سے تمہیں پیشگی طور پر متنبہ کیا جا رہا ہے. تو گویا اصلاً مقصود حضرت عیسٰی علیہ السلام کا تذکرہ ہے‘ لیکن قرآن کا یہ اسلوب ہے کہ بات کا آغازپرشکوہ تمہید سے کیا جاتا ہے.اس اسلوب کی ایک مثال سورئہ آل عمران میں ہے کہ اصلاً تذکرہ تو حضرت عیسٰی اور حضرت مریم کا‘ اور حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ (علیہم الصلوٰۃ والسلام)کا کرنا ہے‘ لیکن اس کا آغاز آیت ۳۳ سے بایں الفاظ کیا گیا : اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾ اس اسلوب کا مفاد یہ ہے کہ جس موضوع پر گفتگو ہونی ہے اس کا اصل پس منظر اور سیاق و سباق (context) معین ہو جائے. تو یہاں پر بھی ایک پرشکوہ تمہید کے طور پر یہ مضمون آیا ہے.