خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!
اس ہمدردی کے مادے کو ایک حدیث میں رِفق سے تعبیر کیا گیا ہے. ارشادِ نبویؐ ہے: مَنْ یُحْرَمِ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَ کُلَّــــہٗ (رواہ مسلم و ابوداوٗد) ’’جو شخص دل کی نرمی سے محروم کر دیا گیا وہ کل کے کل خیر سے محروم ہو گیا‘‘.یعنی کٹھور دل ‘ سخت دل انسان خیر سے بالکل محروم ہوجاتا ہے .اسی طرح رقیق القلب اور شفیق کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں.آپ کا مشفق وہ ہے جسے آپ کے بارے میں اندیشے رہیں کہ آپ کو کہیں کوئی گزند ‘کوئی تکلیف اورکوئی نقصان نہ پہنچ جائے. یہ شفقت ہے. والدین کی شفقت یہی ہے کہ انہیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اولاد کو کہیں کوئی نقصان نہ ہو‘ کوئی گزند نہ پہنچے. ان تمام کیفیات کے لیے ’’رأفت‘‘ درحقیقت ایک جامع عنوان ہے . یہ دل کی وہ کیفیت ہے کہ جس میں کسی کے دکھ درد کو انسان خود اپنے باطن میں محسوس کرسکے. اس کا نتیجہ نکلتا ہے ’’رحمت‘‘ کی صورت میں. رحمت یہ ہے کہ اب آپ اس کے درد کو بانٹنے کی کوشش کریں ‘اس کے ازالے کی کوشش کریں‘ اس کی تکلیف کو رفع کرنے کی کوشش کریں .تو رحمت گویا اس کا نتیجہ ہے . رأفت اور رحمت اب جوڑے کی شکل میں آئے ہیں اور بیک وقت دونوں الفاظ آئے ہیں تو ان میں یہ نسبت ہے. یہ الفاظ یا تو اللہ کے لیے آتے ہیں ‘جیسے رئوف اور رحیم ‘یعنی نہایت شفیق‘ نہایت مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا. یا پھر یہ حضور ﷺ کے لیے سورۃ التوبۃ کی آخری سے پہلی آیت میں آئے ہیں: بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾ ’’(آپﷺ ) مؤمنوں کے حق میں نہایت شفیق اور نہایت رحیم ہیں‘‘.حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں کے لیے بھی یہ الفاظ آئے ہیں .اس لیے کہ اُن کے دلوں میں ایک خاص رقت ِقلبی تھی. اسی طرح صحابہ کرام ث میں سے حضورﷺ اور حضرت ابوبکر ص کے مابین یہ وصف بہت ہی مشترک تھا. اس اعتبار سے حضرت ابوبکرؓ ‘حضورﷺ کی شخصیت کا ایک کامل پرتو تھے. یہ ہے رأفت اور رحمت.