ابن حجر عسقلانی ؒ نے ’’فتح الباری‘‘ میں رسول اللہ کی یہ حدیث نقل کی ہے : لاَ رَہْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ ’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ‘‘. اسی طرح مسند احمد میں روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا: لِکُلِّ اُمَّـۃٍ رَھْبَانِیَّـۃٌ وَرَھْبَانِیَّۃُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ’’ہر اُمت کی کوئی رہبانیت ہوتی ہے اور اِس اُمت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے‘‘.یہ حضور کا نہایت حکیمانہ قول ہے. اس سے زیادہ حکیمانہ بات نہیں ہو سکتی‘ کہ تم اپنے نفس کو تکلیفیں پہنچانا چاہ رہے ہو‘ یہی تکلیفیں جہاد فی سبیل اللہ میں بھی تو ہیں. جب تم غاروں میں بیٹھ کر اپنے نفس کو تکلیفیں پہنچائو گے تو اس سے اگر کوئی فائدہ پہنچے گا بھی تو صرف تمہاری اپنی ذات کو پہنچے گا. اگرچہ اس میں بہت سے خطرات بھی ہیں جو بہت زیادہ خوفناک نتائج پیدا کر سکتے ہیں‘لیکن بالفرض اگر مثبت پہلو ہی سامنے رکھا جائے تواس سے صرف تمہاری ذات کو ہی فائدہ پہنچ رہا ہے. یہی تکلیفیں تم اپنے نفس کوجہاد فی سبیل اللہ میں پہنچائو. وہاں جا کر بھوک بھی ستاتی ہے. ایسا وقت بھی آتا ہے‘ جیسا کہ غزوئہ تبوک میں ہوا ہے‘ کہ تین تین مجاہدین کے لیے چوبیس گھنٹے کا راشن صرف ایک کھجور ہے. اب اس سے زیادہ نفس کشی اور کیا ہو گی! لیکن یہ نفس کشی اس راستے میں ہے کہ جس سے دین کا غلبہ ہو گا‘ نظامِ عدل و قسط قائم ہو گا. اس سے بحیثیت مجموعی کروڑوں انسان ظلم‘ جبرو استبداد اور استحصال کے پھندوں سے نجات پائیں گے. ان کے لیے پھر ممکن ہوگا کہ وہ بھی اپنے پروردگار کی طرف توجہ کریں‘ اس سے لو لگائیں‘ اس کے ساتھ راتوں کو کھڑے ہو کر مکالمہ اور مخاطبہ کریں‘ اس کے ساتھ مناجات کریں. لیکن یہ تب ہو گاکہ انہیں ظلم کی چکیوں سے نکالا جائے .وہ جو کولہو کے بیل بنے ہوئے ہیں‘ جو باربرداری کے جانور بن کر رہ گئے ہیں‘ ان کے لیے کیا ممکن ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے لو لگائیں اور کہیں کوئی اعلیٰ خیال بھی ان کے ذہن میں آ سکے؟ تو نوعِ انسانی کو اِن بندھنوں سے آزادکرانے کے لیے جدوجہد کرو.یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے. اس جہاد فی سبیل اللہ میں بھوک بھی آ جائے گی‘ بے آرامی بھی آ جائے گی‘ تکلیفیں بھی آ جائیں گی. بجائے اس کے کہ غاروں میں جا کر اپنے نفس کو یہ تکلیفیں پہنچائو‘ وہ سارے مقاصد جہاد فی سبیل اللہ میں بھی حاصل ہو جاتے ہیں. تو حضور نے فرمایا: رَھْبَانِیَّۃُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ’’اِس اُمت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے‘‘. اور یہی جہاد فی سبیل اللہ ہے جس کا نقطۂ عروج (climax) یہ آیت ہے : 

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ..... (الحدید:۲۵
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجااوران کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی‘ تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں.اور ہم نے لوہا اتارا جس میں جنگ کی قوت ہے اور لوگوں کے لیے منافع بھی ہیں…‘‘

اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ یہ بھی ہے کہ حرام سے اس کو بچا لو. فرض کیجیے اندر سے کسی حرام کی خواہش جنم لے رہی ہے تو اپنے نفس کو اُس سے روکو.جیسے ایک جگہ فرمایا گیا ہے: 
وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ (النّٰزعٰت) ’’اور اُس نے اپنے نفس کو روکے رکھا (اوراس کی لگامیں کھینچ کر رکھیں) خواہش سے‘‘.بشرطیکہ وہ خواہش حرام کے راستے کی ہو. لیکن اگر جائز کی خواہش ہے تو اس کے لیے تو فرمایا گیا ہے : وَاِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ’’یقینا تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے‘‘. یعنی ادائے حقوق کے اندر یہ بھی شامل ہے کہ اپنے نفس کو اس کا حق ادا کرو.رَہبانیت میں نہایت تشدد ہوتا ہے. بلکہ میں اس کے لیے تعمق کا لفظ استعمال کرتا ہوں کہ بہت گہرائی میں جانا‘چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں بھی‘ جن کو ہم صغائر کہتے ہیں ‘ نہایت حساس ہو جانا اور اپنے اوپر بہت سختی کرنا. 

اس سلسلے میں سنن ابی دائود میں حضرت انس بن مالک ص سے مروی حدیث نبویؐ ہے کہ حضور نے فرمایا: لاَ تُشَدِّدُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ فََیُشَدَّدَ عَلَیْکُمْ ’’اپنے اوپر زیادہ تشدد نہ کرو( زیادہ سختی نہ کرو‘ اس نفس کو جائز چیزوں سے تو محروم نہ کرو)ورنہ نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تم پر سختی کرے گا (اور یہ سختی تمہارے لیے ناقابل برداشت ہو جائے گی) فَاِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ فَشَدَّدَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ’’اس لیے کہ تم سے پہلے بھی ایک قوم ایسی گزری ہے جس نے اپنے اوپر بہت تشدد کیا (نفس کشی کی انتہا کو پہنچ گئے)تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی‘‘. فَتِلْکَ بَقَایَاھُمْ فِی الصَّوَامِعِ وَالدِّیَارِ ’’پس ان کلیسائوں ‘ گرجوں اورراہب خانوں میں ان کے بقایا بیٹھے ہوئے ہیں‘‘. ان کا جو حشر ہے اس سے اللہ کی پناہ!خود مغربی مؤرخین نے Christian Monasticism کی جو تاریخ مرتب کی ہے اس میں جس طرح کی تفاصیل سامنے آتی ہیں اس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں. ابتدائی دور میں جن لوگوں نے اس کو ایجاد کیا یقینا انہوں نے اپنے اوپر بہت تشدد اورسختی کی. دراصل کچھ لوگ تو باہمت ہوتے ہیں جو اُس سختی کو برداشت کر جاتے ہیں‘ اس کی پابندی کر جاتے ہیں‘لیکن پھر اُن کے اکثر پیرو اُن چیزوں کی پابندی نہیں کر پاتے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بظاہر راہب اور راہبائیں ہیں‘ غیر شادی شدہ ہیں‘ لیکن اندر خانے راہب خانوں کے اندر زنا کاری ہو رہی ہے‘ حرامی اولاد پیدا ہو رہی ہے‘ ان کے گلے گھونٹے جا رہے ہیںاورراہب خانوں کے تہہ خانوں میں ناجائز اولادکے قبرستان بن گئے ہیں.

دراصل انسان جب اپنی فطرت سے کشتی کرتا ہے تو کچھ لوگ توباہمت ہوتے ہیں جو واقعتا اپنے نفس پر قابو پا لیتے ہیں ‘اسے کچل دیتے ہیں‘ لیکن اکثریت کا معاملہ یہ نہیں ہوتا‘ بلکہ انسان کی فطرت‘ اس کی سرشت اسے پچھاڑ دیتی ہے‘ اور پھرانسان جس طرح گندگی کے اندر گرتا ہے اور جس انتہائی پستی تک پہنچتا ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ اس کا تذکرہ کرنا بھی بڑا مشکل ہے. چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ مت کرو اپنے اوپر تشدد. یہی وجہ ہے کہ میں نے بار بار آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ قرآن مجید میں تین مقامات بہت اہم ہیں ‘جن میں کبائر سے بچنے کو کہا گیا ہے. ایک جگہ فرمایا گیا ہے : 

اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾ (النسائ) 
’’اگر تم اُن بڑی چیزوں سے جن سے تمہیں روکا جا رہا ہے‘ اجتناب کرلو گے توچھوٹی چیزیں ہم خود ہی تم سے دور کر دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے.‘‘ 

عام طور پر جب مذہبی مزاج اور مذہبی ذہنیت بنتی ہے اور ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں تعمق شروع ہوتا ہے تو پھر بسا اوقات صورت وہ پیدا ہو جاتی ہے کہ مچھر چھانے جاتے ہیں اور سموچے اونٹ نگلے جاتے ہیں. حضرت مسیح ں نے یہود کے علماء پر تنقید کی تھی کہ تمہارا حال یہ ہے کہ مچھر چھانتے رہتے ہو اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہو. چھوٹی چھوٹی چیزوں میں تعمق بھی ہے‘تشدد بھی ہے‘ تکلف بھی ہے اور over emphasis بھی ہے‘ لیکن بڑی بڑی چیزیں نگلی جا رہی ہیں.

اسی طرح سورۃ النجم میں فرمایا : 

اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ (آیت۳۲
’’جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں‘ الاّ یہ کہ کچھ قصور اُن سے سرزد ہو جاتے ہیں.‘‘

معمولی چیزیں انسان سے سرزد ہو جاتی ہیں. ان کے بارے میں زیادہ حساس نہیں ہونا چاہیے. اس لیے کہ اصول یہ دیا گیا ہے کہ: اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ (ہود:۱۱۴’’یقینا نیکیاں چھوٹی چھوٹی برائیوں کا ازالہ کرتی رہتی ہیں‘‘. جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ انسان وضو کرتے ہوئے اپنا چہرہ دھوتا ہے تو آنکھوں کے گناہ دھل جاتے ہیں. یہ صغائر ہوتے ہیں. فرض کیجیے غیر ارادی طور پر کسی نامحرم پر نگاہ پڑ گئی ہے‘ اور اُس وقت انسان نے بلاارادہ کوئی تلذذ (gratification) بھی محسوس کیا ہے ‘تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمائے گا. وضو کرتے ہوئے جب آپ آنکھ دھوئیں گے تو اس کی جوکدورت اور کثافت ہے وہ دھل جائے گی. ہاں ارادے کے ساتھ یہ معاملہ نہ ہو‘ ورنہ کبائر تک معاملہ چلا جائے گا. 

تیسرامقام سورۃ الشوریٰ کا ہے جس میں فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾ 
’’اور جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں‘ اور جب بھی وہ غضب ناک ہوتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں.‘‘

تو حقیقی طرزِ عمل یہ ہے کہ ایک تو اپنی پوری توجہ کو اس جدوجہد پر مرکوز کیا جائے کہ دین غالب ہو‘ نظامِ عدل و قسط قائم ہو‘ ظلم‘ باطل‘ استحصال اور جبر کا استیصال کر دیا جائے‘ اوردوسرے خود انسان کبائر سے بچا ہوا ہو‘ تمام بڑے بڑے گناہوں سے اس نے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہو تو اللہ تعالیٰ صغائر کو دھوتے رہتے ہیں. جیسے فرمایا گیا ہے : 
نُــکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ ’’ہم تمہاری برائیوں کو تم سے دور کر دیں گے‘‘. اور: اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ِ کہ انسان کی اچھائیاں اس کی چھوٹی چھوٹی برائیوں کا خود بخود ازالہ کرتی رہتی ہیں.وہ خود بخود دھلتی چلی جاتی ہیں.