عام طور پر ایک مذہبی مزاج کے اندر جو تشدد اور تعمق پیدا ہو جاتا ہے حدیث ِنبویؐ میں اس کی بہترین مثال موجود ہے. بخاری اور مسلم میں حضرت انس بن مالک ص سے روایت ہے : جَائَ ثَلَاثَۃُ رَھْطٍ اِلٰی بُیُوْتِ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ  یَسْاَلُوْنَ عَنْ عِبَادَۃِ النَّبِیِّ  ’’تین اشخاص نبی اکرم کی ازواجِ مطہرات کے گھروں میں آئے اور آپ کی نفلی عبادت کے بارے میں سوال کیا‘‘. ظاہر بات ہے فرض عبادت تو سب کے نزدیک متفق علیہ ہے! پانچ نمازیں تو سب کو پڑھنی ہیں. انہوں نے دریافت کیا کہ حضور اور کتنی نمازیں پڑھتے ہیں‘ یعنی رات کو کتنی دیر تک آپؐ نوافل ادا کرتے ہیں. اسی طرح رمضانِ مبارک کے روزے تو سب نے رکھنے ہی ہیں‘ حضور نفلی روزے کتنے رکھتے ہیں. انہوں نے یہ تحقیق کی. ان کے اندر نیکی کا جذبہ بہت توانا اور طاقتور ہو کر اُبھر آیا تھاتو انہوں نے اندازہ کرنا چاہا کہ حضور کا معمول کیا ہے. آگے فرماتے ہیں: فَلَمَّا اُخْبِرُوْا کَــــاَ نَّھُمْ تَقَالُّوْھَا ’’جب انہیںاس کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کو کم تصور کیا‘‘. ظاہر بات ہے کہ نہ حضور کی زندگی میں کوئی تکلف و تصنع تھااور نہ ازواجِ مطہرات lکی طرف سے اس معاملے میں‘ معاذ اللہ‘ کوئی مبالغہ آرائی ہو سکتی تھی.

جو صحیح صحیح صورت حال تھی انہوں نے بیان کر دی. لیکن ان تین صحابہ ث کے اندازے سے یہ بات بہت کم نکلی. وہ سمجھتے تھے حضور تو شاید ساری رات بستر سے اپنی کمر لگاتے ہی نہیں ہوں گے. لیکن انہیں معلوم ہوا کہ حضور تہجد اور نوافل پڑھتے ہیں لیکن رات کو استراحت بھی فرماتے ہیں. اسی طرح ان کا گمان تھا کہ حضور تو روزے کا کبھی ناغہ ہی نہیں کرتے ہوں گے‘ ہمیشہ روزے رکھتے ہوں گے. انہیں بتایا گیا کہ نہیں‘ایسا نہیں ہے. حضور کے روزے رکھنے کا اتنا معمول ہے. یہ بات ان کی توقع سے کم تھی.راوی فرماتے ہیں: فَقَالُوْا وَاَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّ  قَدْ غُفِرَ لَـــــــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَاَخَّرَ ’’اب انہوں نے (اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے ) کہا کہ ہمارا حضور سے کیا مقابلہ (ہم اپنے معاملے کو حضور کے معاملے پرکہاں قیاس کر سکتے ہیں !) جب کہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ اللہ نے پہلے ہی معاف کر دیے ہیں‘‘. قَالَ اَحَدُھُمْ اَمَّا اَنَا فَاِنِّیْ اُصَلِّی اللَّیْلَ اَبَدًا ’’اب ان میں سے ایک نے کہا کہ میں تو اب ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا (قطعاً نہیں سوئوں گا)‘‘. وَقَالَ آخَرُ اَنَا اَصُوْمُ الدَّھْرَ وَلَا اُفْطِرُ’’دوسرے نے کہا میں تو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا‘کبھی افطار نہیں کروں گا (ناغہ نہیں کروں گا)‘‘. وَقَالَ آخَرُ وَاَنَا اَعْتَزِلُ النِّسَائَ فَلَا اَتَزَوَّجُ اَ بَدًا ’’تیسرے نے کہا کہ میں تو عورتوں سے بالکل علیحدہ رہوں گا اور کبھی بھی شادی نہیں کروں گا.‘‘ 

فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  اِلَیْھِمْ فَقَالَ: ’’پس رسول اللہ ان کے پاس گئے اور فرمایا‘‘. یہاں سے معلوم ہو رہا ہے کہ حضور کو جوں ہی یہ بات معلوم ہوئی آپؐ خود اُن کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا؟ ’’کیا آپ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں؟ ‘‘ اَمَا وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَـــــــــہٗ ’’اللہ کی قسم!میرے ان سب سے بڑھ کر اللہ کی خشیت ہے اور میں تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہوں‘‘.یہ حضور کا بہت ہی غیر معمولی انداز ہے. پھر آپؐ نے فرمایا: لٰـــکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ ’’لیکن(میرا معمول تو یہ ہے کہ)میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں (یعنی ناغہ بھی کرتا ہوں) ‘‘ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ ’’ا ورمیں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں‘‘ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَائَ ’’اورمیں تو عورتوں سے نکاح کرتا ہوں(متعدد ازواج میرے گھر میں ہیں)‘‘ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ’’تو (کان کھول کر سن لو!) جومیری سنت سے اِعراض کرے گا (جسے میری سنت پسند نہیں ہے) اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘. یعنی ہے تو یہ نیکی کا جذبہ جو بڑا مشتعل ہو گیا ہے‘ بہت ہی قوی ہو کر اُبھرا ہے‘ لیکن جان لو کہ اسے حداعتدال میں اگر نہ رکھا تو حضور کے اُسوہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا. آپؐ کا اُسوہ اور سنت تو درحقیقت اس اعتدال پر مبنی ہے کہ نفس کا بھی حق ہے. جیسے ایک جگہ آپؐ نے فرمایا: وَاِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ’’اور یقینا تیرے نفس کا بھی تم پر حق ہے.‘‘ 

صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاص ص کے بیٹے حضرت عبداللہصکی شخصیت پر بھی اسی طرح کا زہد کا غلبہ ہو گیا تھا. آپؓ پوری پوری رات نماز پڑھتے تھے اور ہمیشہ روزہ رکھتے تھے. وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے بلا کر جواب طلبی فرمائی : 
یَاعَبْدَ اللّٰہِ اَلَمْ اُخْبَرْ اَ نَّکَ تَصُوْمُ النَّھَارَ وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ ’’اے عبداللہ !مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اورپوری رات نماز پڑھتے ہو؟‘‘ اب وہ حضور کے سامنے کیسے چھپائیں. عرض کیا: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’حضورؐ ! ایسا تویقینا ہے‘‘. آپؐ نے فرمایا: فَلَا تَفْعَلْ‘ صُمْ وَاَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ‘ فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ’’ ایسا مت کرو! روزہ بھی رکھو اور افطار (ناغہ) بھی کرو‘ رات کو قیام بھی کرو اور آرام بھی کرو. یقیناتمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے‘ تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے ‘ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے‘‘.تمہار ے اوپر جو بھی حقوق ہیں ان سب کو ایک اعتدال اور توازن کے ساتھ ادا کرو.

مندرجہ بالا طویل متفق علیہ حدیث کی ایک اور روایت (version) بھی ہے جو سنن النسائی میں ہے.اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تین اشخاص کی بات پر حضور نے باقاعدہ اجتماع میں بھی خطاب فرمایا . یعنی ایک تو ان تینوں اشخاص کے پاس جا کر آپؐ نے ان کو تنبیہہ فرمائی کہ یہ میرا راستہ اور طریقہ نہیں ہے‘ اچھی طرح کان کھول کر سن لو کہ مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ لیکن اس پر مستزاد یہ کہ آپ نے باقاعدہ ایک خطبہ ارشاد فرمایا. روایت میں ہے : فَــبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ  فَحَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَقُوْلُوْنَ کَذَا وَکَذَا لٰــــکِنِّیْ اُصَلِّیْ وَاَنَامُ وَاَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَائَ ‘ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ اس روایت سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ رسول اللہ نے جب یہ دیکھا کہ یہ صرف ان تین افراد کا معاملہ نہیں‘بلکہ یہ ایک رجحان ہے‘ اور ممکن ہے یہ چیز مسلمانوں کی جماعت کے اندر زیادہ بڑے پیمانے پر سرایت کر جائے تو حضور نے لوگوں کو جمع کر کے خطبہ ارشاد فرمایا. پہلے اللہ کی حمد و ثنا کی‘ اس کے بعد عمومی الفاظ کی شکل میں فرمایا: ’’کیا ہو گیا ہے لوگوں کو کہ ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا ‘کبھی ناغہ نہیں کروں گا.کوئی کہتا ہے کہ میں پوری پوری رات نماز پڑھا کروں گا اور کوئی کہتا ہے کہ میں زندگی بھر شادی نہیں کروں گا. لیکن غور سے سن لو:’’(میرا طریقہ یہ ہے کہ) میں نوافل بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘اور روزہ رکھتا بھی ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں‘اورمیں نے عورتوںسے نکاح بھی کیے ہیں (میں تو ازدواجی زندگی گزار رہا ہوں)‘تو جو بھی میری سنت سے اعراض کرے گا (یا جسے بھی میری سنت پسند نہیں ہے) اس کا پھرمجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے.‘‘ 

اس سے دو باتیں اچھی طرح سمجھ لیجیے. پہلی بات یہ کہ اسلام دین فطرت ہے.جیسے فرمایا گیا ہے: فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا (الروم:۳۰’’اللہ کی فطرت وہ ہے جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے‘‘.اس میں اعتدال اور توازن ہے.ضبط ِنفس (self control) درکار ہے‘ لیکن نفس کشی (self annihilation) ہرگز پسندیدہ نہیں ہے ‘یہ رَہبانیت خلافِ فطرت ہے. اس کے خلافِ فطرت ہونے کے باعث بسا اوقات انسان اپنے آپ سے شکست کھا جاتا ہے. وہ نفس کشی کافیصلہ تو کر لیتا ہے لیکن اس کی پابندی نہیں کرپاتا(اسی آیت مبارکہ کے آخر میں یہ مضمون آئے گا).اور دوسری بات‘ جو اصل میں اس کلائمکس اور اینٹی کلائمکس کے مابین ربط قائم کرتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اسلام درحقیقت یہ چاہتا ہے کہ انسان کا رُخ اقامت ِدین کی طرف رہے.

یعنی وہ انقلابی عمل میں مصروف ہو.اس کی اصل توجہ ظلم کے خاتمہ اور باطل کے استیصال کی طرف رہے. بدی کے ساتھ پنجہ آزمائی ہو. اس کے دوران بھی ظاہر بات ہے کہ تکالیف اور مصائب آئیں گے. فاقے بھی آئیں گے‘ پیٹوں پر پتھر بھی باندھنے پڑ جائیں گے‘ راتوں کو سونا نصیب نہیں ہو گا. مختصراً یہ کہ وہ ساری مشکلات اور مصائب جو خواہ مخواہ ایک تکلف وتصنّع کی شکل میں اس نظامِ رہبانیت میں انسان اپنے اوپر طاری کرتاہے‘ سب کے سب آئیں گے‘ لیکن وہ کارآمد ( productive) ہوں گے‘ اس اعتبار سے کہ معاشرے میں عدل قائم ہو‘ انصاف کا دور دورہ ہو. اور یہ رَہبانیت کا نظام تو درحقیقت ایک اعتبار سے ظلم کو ‘ باطل کو ‘ بدی کو اور شر کو تقویت پہنچاتا ہے. اس لیے کہ جو نیک لوگ ہیں وہ میدان سے گویا ہٹ گئے‘ وہ معاشرے کو چھوڑ کر کہیں غاروں کے اندر بیٹھ گئے اور یہ دنیا اب ظالموں اور شریر لوگوں کے لیے خالی ہو گئی اور انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہو گئی کہ اور کھل کھیلیں. ان کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں رہا. اس اعتبار سے میں کہتا ہوں کہ یہ شیطان کا اغوا اور اضلال ہے. علامہ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں اس کی بہترین تعبیر کی ہے. ابلیس نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ؎ 

عصر حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں!

لہٰذا اس نے اپنے چیلے چانٹوں کو ہدایات دیں کہ ؎ 
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!

اپنی توجہ آیت زیر مطالعہ پر مرکوز کیجیے. فرمایا: وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ ’’رہبانیت کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کی‘ ہم نے اسے اُن پر لازم نہیں کیا تھا‘‘. یہاں اس لفظ ’’بدعت‘‘ کو سمجھ لیجیے. ایک ہے اجتہاد .یعنی کتاب و سنت میں جو اصول دیے گئے ہیں ان سے اجتہاد کرتے ہوئے نئی صورت حال میں شریعت کا حکم تلاش کرنے کی کوشش کرنا. جبکہ بدعت سے مراد ہے ایک ایسی چیز جس کی کوئی اصل ہے ہی نہیں‘ یعنی بے بنیاد بات .اور یہاں پر اِس رَہبانیت کو بحیثیت ایک ادارے‘ نظام اور فلسفے کے قرآن مجید بدعت قرار دے رہا ہے.آگے ارشاد ہے : اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ’’مگر اللہ کی خوشنودی کی تلاش میں‘‘. اس سے دو مفہوم مراد لیے گئے ہیں. یہ مقام مشکلاتِ قرآن میں سے ہے . یہ بھی جان لیجیے کہ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ جہاں کہیں اس طرح کا احتمال ہوتا ہے کہ دو مفہوم ہو سکتے ہیں‘دو امکانات ہیں‘ تو وہاں پر دونوں ہی اپنی جگہ پر قیمتی ہوتے ہیں . لہٰذا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ ِ کی ایک ترجمانی یوں کی جاتی ہے کہ ’’ہم نے نہیں فرض کیا تھا اُن پر کچھ بھی سوائے اس کے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں‘‘. یعنی ہم نے یہ تو تو فرض کیا تھا کہ اللہ کو راضی کرو ‘لیکن یہ رَہبانیت ہم نے فرض نہیں کی تھی .جبکہ ایک ترجمانی یوں کی گئی ہے کہ انہوں نے جورَہبانیت کی بدعت ایجاد کی وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تھی. یعنی بدنیتی نہیں تھی.

بسا اوقات نیکی کا جذبہ حد اعتدال سے تجاوز کر کے بدی کے راستے پر پڑ جاتا ہے. جیسا کہ مذکورہ بالا تین صحابہ کرام ث کا معاملہ معاذ اللہ کسی بدنیتی پر مبنی تو نہیں تھا. نیکی اور خیر کا جذبہ ہی تھا. اللہ سے لو لگانے کا جذبہ ہی تھا. لیکن بعض اوقات بدنیتی کے بغیر بھی کوئی شے کسی شر کا ذریعہ بن جاتی ہے. اس کے لیے درحقیقت ہمارے پاس تحفظ کا ذریعہ اسوئہ رسول ہے. چنانچہ ہمارے اس منتخب نصاب کے درس نمبر ۲ [ آیۂ بر (البقرۃ:۱۷۷) ] کا مضمون یہی ہے کہ نیکی کا ایک ماڈل سامنے ہونا چاہیے جس کے حوالے سے آپ مختلف چیزوں کے مابین نسبت و تناسب کو معین کر سکیں. دیکھئے رسول اللہ  نے مختلف تقاضوں کو کس خوبصورتی اور تناسب سے سمویا ہے! حضورنے ان چیزوں کے مابین جو امتزاج پیدا کیا ہے اس میں توازن کس درجے ہے! اعتدال کس درجے کا ہے!سیرت النبی  کا سب سے بڑا حسن یہی جامعیت ِکبریٰ ہے. 

اس موضوع پر میں نے ایک مرتبہ مقالہ بھی لکھا تھا .صدر ضیاء الحق نے سیرت ِنبویؐ کی کانفرنسوں کا آغاز کیا تھا تو اس میں میرے مقالے کا موضوع یہی تھا کہ حضور کی سیرت کا سب سے زیادہ نمایاں اور امتیازی وصف توازن اور اعتدال ہے. آپ نے مختلف بلکہ متضاد تقاضوں کو اپنی شخصیت میں سمویا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے. آمین!