اُمت مسلمہ میں رہبانیت کا نفوذ اور اس کے اسباب

جیسے کہ میں نے عرض کیا تھا کہ متبعین مسیح علیہ السلام میں اگر رَہبانیت کا نظام آیا تو جہاں اس میں شیطان کے اغوا و اِضلال کا معاملہ ہوا کہ اس نے انہیں جہاد و قتال‘ انقلاب اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد سے ہٹا کر ان کی صلاحیتوں کو اس رخ پر موڑ دیا وہاں اس کے لیے کچھ اسباب بھی موجود تھے. لیکن حضور کی امت میں اگر یہ معاملہ آیا ہے تو وہ میرے نزدیک اس کی نسبت سینکڑوں درجے زیادہ قابل مذمت ہے‘ اس لیے کہ ان اسباب میں سے کوئی سبب یہاں موجود نہیں تھا. حضور کی حیاتِ طیبہ اور آپؐ کا اُسوہ نہایت جامع اور نہایت متوازن ہے اور اس میں دین و دنیا کا مکمل اور خوبصورت امتزاج ہے. یہاں تک کہ تعدد ِازدواج اس ضمن میں سیرت کی سب سے نمایاں بات ہو سکتی ہے‘ لیکن یہ کڑوی گولی عیسائیوں کے حلق سے قطعاً نہیں اترتی. اس لیے کہ ان کا آئیڈیل حضرات مسیح اور یحییٰ علیہما السلام ہیں اور انہوں نے ایک ایک شادی بھی نہیں کی‘ جبکہ حضور اکرم نے گیارہ شادیاں کیں اور کنیزیں ان کے علاوہ تھیں. تو اس حوالے سے ان کے لیے توکوئی نہ کوئی عذر موجود ہے‘ لیکن ہمارے ہاں اس کے باوجود اگر رَہبانیت کا نظام آیا ہے تو یہ بہرحال زیادہ قابل مذمت ہے. دوسرے یہ کہ وہاں پر تو جہاد و قتال کا راستہ شروع ہی نہیں ہوا‘ جبکہ یہاں نہ صرف شروع ہوا بلکہ بھرپور طریقے پر اس کے سارے مراحل و مدارج طے ہوئے ہیں. محمد رسول اللہ اور آپ کے صحابہ ث نے اس ضمن میں ہمارے لیے کس درجے واضح سنگ ہائے میل اور نشاناتِ راہ چھوڑے ہیں! اور پھر حضور کی صریح احادیث بھی ہیں کہ جب تک پورے کرئہ ارضی پر اللہ کے دین کا غلبہ نہیں ہو جاتا ‘ جہاد و قتال کا یہ عمل جاری رہے گا . اس حوالے سے ہم نے اگر اس راستے سے انحراف کیا ہے تو یقینا ہم زیادہ بڑے مجرم ہیں بہ نسبت حضرت مسیح علیہ السلام کے متبعین کے. 

البتہ ہمارے ہاں کچھ حضرات اس راستے پر چلے گئے ہیں تو میں اصولی طور پر یہ بات کہنے کے بعد ان کی طرف سے کچھ معذرت پیش کرنا چاہتا ہوں. میری خواہش ہے کہ اپنے دل میں کسی فرد کے ساتھ کوئی سوئِ ظن مت آنے دیجیے! حدیث ِنبویؐ ہے : 
اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ ’’اپنے فوت شدگان کو بھلے الفاظ میں یاد کیا کرو‘‘. ہمیں نہیں معلوم کس کے ساتھ کیا مجبوری تھی‘ کس کے کیا ذاتی حالات تھے‘ کس کا کیا معاملہ تھا.ایسے اشخاص کی طرف سے میں دو معذرتیں (apologies) پیش کر رہا ہوں اور انہیں ریکارڈ پر لے آنا چاہتا ہوں.

ایک یہ کہ مسلمانوں کے حکمران جب فاسق و فاجر ہوں تو ان کے بارے میں اس بات کی بڑی تاکید آئی ہے کہ ان کے خلاف خروج میں حد درجہ احتیاط برتی جائے. ظاہر بات ہے کہ جب حکومت قائم ہو گئی ہے تو اب اس کا ایک نظم ہے‘ ایک سربراہ ہے‘ چاہے وہ ظالم اور فاسق و فاجر ہے‘ لیکن ہے تو مسلمان! اب اس کے زیر قیادت قتال کا معاملہ بھی ہو گا . کچھ عرصہ اس طرح ہوتا رہا کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی سرحدیں تھیں وہاں پر مسلمان جہاد و قتال کا معاملہ آگے بڑھاتے رہے. لیکن پھر ہوتے ہوتے ایک نظم مملکت کے اندر ساری چیزیں حکومت کے تابع ہو جاتی ہیں. اب عام آدمی اپنے طور پر اس قسم کا بڑا کام نہیں کر سکتا جب تک ان فساق و فجار حکمرانوں کو نہ ہٹایا جائے. چنانچہ اس کے لیے علیحدہ سے کسی جماعت‘ کسی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کام کو لے کر اُٹھ کھڑی ہو .تو خروج پر حضور کی طرف سے شدید بندشیں اور شرائط عائد کی گئی ہیں. میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا 
چاہتا‘ اس بارے میں امامِ اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے اور میں اسے صحیح سمجھتا ہوں کہ ’’فاسق و فاجر مسلمان حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت جائز ہے‘ بشرطیکہ اتنی قوت فراہم ہو چکی ہو کہ بظاہر احوال کم سے کم کامیابی یقینی ہوجائے‘‘. اب ایسے ماحول میں اس قوت کا فراہم ہونا جبکہ ان کا ایک مستبد نظام قائم تھا‘ محالات کے درجے میں تھا. لہٰذا اُس دور میں جہاد و قتال ایک طرح کا Imperialist extension کا مرحلہ تو بن گیا لیکن اس کی نوعیت اُس جہاد و قتال کی نہیں رہی جو غلبہ ٔ دین کے لیے تھا.

اسی طرح سے ایک دوسرا عامل یہ تھا کہ ابھی تک انسان کا تمدنی اور عمرانی شعور اس درجے تک نہیں پہنچا تھا کہ ’’ریاست‘‘ اور ’’حکومت‘‘ کے درمیان فرق ہو.حکومت کو بدلنے کے لیے بھی سوائے مسلح بغاوت کے کوئی چینلز ابھی موجود نہیں تھے ‘جیسے کہ آج ہمارے سامنے حکومت کو بدلنے کے لیے چینلز ہیں. آج کم از کم عالم اسلام کے وہ ممالک جہاں کسی درجے میں جمہوریت ہے اور وہاں حقوق انسانی اور شہری حقوق کا تصور موجود ہے وہاں کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ حکومت کوبدلیں‘ چاہے ووٹ کے ذریعے بدلیں ‘ چاہے ایجی ٹیشن کے ذریعے بدلیں. ایجی ٹیشن بھی وہ جو پرامن ہو‘ منظم ہو‘جس سے کسی کی جان اور املاک کو نقصان نہ پہنچے‘ صرف یہ کہ گھیرائو کر کے حکومت کی مشینری کو بلاک کیا جا رہا ہو تو یہ بھی ان کا جائز اور دستوری حق ہے. چونکہ دورِ ملوکیت میں اس طرح کے حقوق کا تصور موجود نہیں تھا لہٰذا بہت سے حضرات نے تصوف اور رہبانیت کا راستہ اختیار کر لیا.

اس حوالے سے آج کے دور میں ہمیں یہ سہولتیں حاصل ہو گئیں جو سابقہ ادوار میں نہیں تھیں. جہاں تک تمدنی حقوق کا تعلق ہے‘ بعض ممالک جیسے سعودی عرب اور عرب امارات میں تو ان کا تصور ہی سرے سے نہیں ہے اور کہیں صرف دکھاوا ہے‘ جیسے کہ مصر اور لیبیا وغیرہ. ان ممالک میں بڑی شدید آمریت ہے‘ یک جماعتی حکومت کا نظام چل رہا ہے .لہٰذا یہاں انتخاب اور ایجی ٹیشن کا کوئی امکان پیدا نہیں ہوتا. لیکن جہاں کہیں بھی حقوق کا یہ تصور موجود ہے اُن ممالک میں سے ایک خوش قسمت ملک ’’پاکستان‘‘ بھی ہے جس میں ہمیں یہ حقوق آزادانہ طور پر حاصل ہیں. پھر اگر ہم ان حقوق کو استعمال نہ کریں اور رہبانیت کاراستہ اختیار کر جائیںاور اس پگڈنڈی کی طرف مڑ جائیں تو پھر ہمارے لیے کوئی دلیل‘ کوئی عذر نہیں ہے. جیسے قرآن مجید میں اہل کتاب سے کہا گیا: یٰٓـاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْ ئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّـــکُمْط (المائدۃ:۶۸’’اے اہل کتاب!تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل کو اور جو کچھ تم پر تمہارے ربّ کی طرف سے نازل کیا گیا اس کو قائم اور نافذ کرو‘‘. اس آیت کو اگر ہم اپنے اوپر منطبق کریں تو یوں کہا جائے گا : ’’یا اھل القرآن لستم علی شی ء حتی تقیموا القرآن وما انزل الیکم من ربکم‘‘ ’’اے اہل قرآن (اے مسلمانو!) تمہارا تو کوئی بھی مقام نہیں ہے( ہم سے بات کرنے کا منہ نہیں ہے )اگر تم قائم نہیں کرتے ہو قرآن کو اور جو کچھ بھی اللہ کی طرف سے تمہاری جانب نازل کیا گیا ہے‘‘. ہمارے ہاں جو دانش ور کہلانے والے حضرات ہیں وہ یہاں بھی گریز کا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ یا توصرف دعوت و تبلیغ ہوتی رہے یا کوئی علمی و تحقیقی کام ہوتا رہے ‘ بس صرف قیل و قال ہوتارہے‘ کسی جہاد‘ قتال‘ انقلاب کی طرف پیش رفت نہ ہو. تو میرے نزدیک ان کا کوئی عذر‘ سند‘ مقام‘ بنیاد نہیں ہے اور ’’لَسْتُمْ عَلٰی شَیْ ئٍ‘‘ والی بات ان پر بتمام و کمال منطبق ہوتی ہے.