آگے فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہٖ (آیت ۲۸’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسول (محمد ) پر ایمان لائو‘‘. یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کے مفہوم کو معین کرنے سے آیت کی دو تاویلات ہوں گی .پچھلی آیت ان الفاظ پر ختم ہوئی تھی : فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾ یعنی متبعین مسیح علیہ السلام میں سے جو لوگ صاحب ایمان ہوئے ‘ ہم نے انہیں ان کا بھرپوراجر عطا کر دیا‘ لیکن ان کی بھی کثیر تعداد فاسقین پر مشتمل ہے. متبعین مسیحؑ میں سے جو لوگ صاحب ایمان ہوئے ان سے مراد کیا ہے! ایک مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کے صحیح دین پر رہے ‘ایمان پر قائم رہے‘ اب ان لوگوں کو درحقیقت ترغیب دی جا رہی ہے کہ اب لائو ایمان محمد پر. فرمایا جا رہا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا :یعنی ’’اے وہ لوگو جو (مسیح علیہ السلام پر صحیح معنی میں) ایمان رکھتے ہو‘‘ اب اللہ کو چونکہ وہ پہلے سے مانتے ہیں‘ لہٰذا یہاں ’’اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ‘‘کالفظ نہیں آیا‘ بلکہ فرمایا : اتَّقُوا اللّٰہَ ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘.جس اللہ کو تم پہلے سے مانتے ہو تمہاری زندگی کے اندر بالفعل اس کا خوف اور اس کے محاسبے کا احساس برقرار نظر آنا چاہیے ! وَ اٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہٖٖ ’’اورایمان لائو اُس کے رسولؐ پر‘‘. یہ گویا تمہارے لیے نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍکا معاملہ ہوگا. تمہارے اس ایمان کا جو تم عیسیٰ علیہ السلام پر رکھتے ہو‘ اگر وہ سچا ایمان ہے‘ لازمی تقاضا بھی یہی ہے . اب اگر تم ایمان نہیں لا رہے محمد پر تو گویا تمہارا حضرت مسیح ؑ پرایمان کا دعویٰ بھی باطل ہو جائے گا. حضرت محمد پر ایمان لانے میں اب تمہیں کوئی عصبیت نہ روکے کہ یہ نیا نبی ہے‘ نئی قوم کے اندر آیا ہے‘ یہ اُمیین میں سے ہے. بلکہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور عصبیت‘ ضد‘ ہٹ دھرمی‘ مغائرت میں سے کسی چیز کو اپنے راستے میں رکاوٹ نہ بننے دو. تو اس تاویل کی رو سے اس آیت کا مفہوم یہ ہے.

اب اس تاویل کی رو سے آیت کا مفہوم مکمل کر لیجیے! فرمایا: 
یُؤۡتِکُمۡ کِفۡلَیۡنِ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ ٖ ’’(اگر تم ایسا کرو گے تو) اللہ تمہیں عطا کرے گا اپنی رحمت میں سے دو گنا حصہ‘‘. ’’کِفْلٌ‘‘کہتے ہیں ترازو کے ایک پلڑے کو. تو کِفْلَیْنکا مطلب ہوگا ’’دو پلڑے‘‘. اب اس اعتبار سے مفہوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دوہرا اجر عطا فرمائے گا. وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ’’اور تمہیںوہ نور عطا فرمائے گا جس کو لے کر چل سکو گے اور تمہیں بخش دے گا‘‘. جو خطائیں اور غلطیاں ہوں گی‘ سابقہ زندگی کی بھی اور آگے کی بھی‘ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے گا. وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿ۚۙ۲۸﴾ ’’اور اللہ غفورٌ رحیم ہے‘‘. یہ تاویل بڑی مسلسل (continuous) تاویل بنتی ہے. پچھلی اور اگلی دونوں آیتوں کے ساتھ اس کا ربط بہت گہرا جڑ رہا ہے. 
اس تاویل کے حق میں ایک متفق علیہ حدیث بھی ہے: 

عَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ بْنِ اَبِیْ مُوْسٰی عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  قَالَ: ثَــلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ : رَجُلٌ مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہٖ وَاَدْرَکَ 
النَّبِیَّ  فـَـــآمَنَ بِہٖ وَاتَّبَعَہُ وَصَدَّقَہُ فَلَہُ اَجْرَانِ‘ وَعَبْدٌ مَمْلُوْکٌ اَ دّٰی حَقَّ اللّٰہِ تَعَالٰی وَحَقَّ سَیِّدِہٖ فَلَہُ اَجْرَانِ‘ وَرَجُلٌ کَانَتْ لَہُ اَمَۃٌ فَغَذَّاہَا فَاَحْسَنَ غِذَائَ ہَا ثُمَّ اَدَّبَہَا فَاَحْسَنَ اَدَبَہَا‘ ثُمَّ اَعْتَقَہَا وَتَزَوَّجَہَا فَلَہُ اَجْرَانِ 

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے صاحب زادے حضرت ابو بردہؓ اپنے والد کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: ’’تین قسم کے لوگ وہ ہوں گے جنہیں (قیامت کے دن) دوہرا اجر ملے گا: ایک اہل کتاب میں سے وہ شخص جو ایمان رکھتا تھا اپنے نبی (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) پر اور اس نے نبی آخر الزمان  کا زمانہ بھی پا لیا (یعنی حضور کو پہچان لیا‘ چاہے وہ حضور کے زمانے میں نہیں بھی تھا) اور وہ ان پر بھی ایمان لے آیا اور آپ کا اتباع کیا اور آپ کی تصدیق کی تو ایسے شخص کے لیے دوہرا اجر ہے.اور دوسرا وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا کیا اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کیا (یعنی خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنے آقا کا حق بھی بحسن و خوبی ادا کیا) تو اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے . اور ایک ایسا شخص کہ جس کی کوئی کنیز (باندی) تھی‘ تو اُس نے اسے اچھی غذا دی (اس کو کھلایا‘ پلایا‘ پالا پوسا) اور اس کی عمدہ اخلاقی تربیت کی (اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا) پھر (جب وہ جوان ہو گئی تو) اسے آزاد کر دیا اور اس سے باقاعدہ نکاح کیا (یعنی پہلے تو اس کی لونڈی کی حیثیت تھی ‘اب اسے آزاد کر کے اپنے عقد ِنکاح میں لا کر برابری کا درجہ عطا کر دیا) تو اس شخص کے لیے بھی دو اجر ہیں.‘‘

بہرحال آخر الذکر باتیں ہمارے موضوع سے متعلق نہیں ہیں‘ جبکہ پہلی بات اس آیت کی مذکورہ بالا تاویل کی پوری طرح تائید کر رہی ہے.اس چوتھے رکوع کے مضمون کے ساتھ (یعنی ماقبل آیات سے) اس تاویل کی کامل مطابقت ہے. اس لیے کہ اس میں رہبانیت کا تذکرہ ہو رہا ہے‘ حضرت مسیح ں کا تذکرہ ہو رہا ہے‘ حضرت مسیح ں پر ایمان لانے والوں کا ذکر ہورہا ہے اور اب ان کو دعوت دی جا رہی ہے کہ تم جب اپنے نبی حضرت مسیح ں پر ایمان رکھتے ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت محمد پر بھی ایمان لائو اور اس کے بدلے میں تمہارے لیے دوہرا اجر ہوگا.