اس آیت کی ایک تاویل عام بھی ہے اور وہ ہمارے اعتبار سے بہت اہم ہے. اس لیے کہ اِس سورئہ مبارکہ کا یہ حصہ سورۃ الحدید کا نقطۂ عروج بھی ہے.اس اعتبار سے یہاں پر گویا مخاطب عام اہل ایمان ہیں‘ صرف متبعین مسیح ؑ ہی نہیں ہیں‘ لہٰذا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کا مطلب ہے: ’’اے اہل ایمان!‘‘ یعنی وہ تمام مسلمان جو حضور پر ایمان لائے‘ چاہے وہ پہلے تھے‘ چاہے آج ہیں‘ چاہے ہمیشہ ہوں گے‘ سب اس خطاب میں شامل ہیں. فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہ ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ایمان رکھو اُس کے رسول( ) پر‘‘. یہاں ایمان بالرسولؐ پرجو emphasize کرنا پیش نظر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت ایمان بالرسول اور اطاعت رسول ہی میں اصل ہدایت مضمر ہے. ہدایت ِعملی کا سارے کا سارا دار و مدار اطاعت رسول اور ایمان بالرسول پر ہے. ایمان بالرسول یہ ہے کہ انسان کو یہ یقین ہو کہ جو خیر ملے گا یہاں سے ملے گا‘ جو بھلائی ملے گی یہاں سے ملے گی. اب اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلے گاکہ حضور کو اسوئہ کاملہ ماننے والا شخص کبھی بھی گھر گرہستی کی زندگی کو گھٹیا نہیں سمجھ سکتا ‘ یہ ممکن ہی نہیں ہے. اگر دل میں حضور کی عظمت ہے‘ حضور سے عقیدت اورمحبت ہے‘ اور معلوم ہے کہ ’’جا ایں جاست‘‘ ہدایت کا منبع اور سرچشمہ حضور کی سیرت ہے‘ توکیسے ممکن ہے کہ مزاج کے اندر کہیں رہبانیت کا رُخ پیدا ہو سکے! وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ ’’اور اللہ کے رسول ( ) پر پورا ایمان رکھو‘‘کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ یہ جو تمہارے اوپر انقلاب کا ایک فریضہ عائد کیاگیا ہے کہ ہم نے تمہیں جو نظامِ عدل و قسط عطا کیا ہے اس کو قائم کرو‘تو اس کے قیام کا طریق کار اور منہج جاننے کے لیے اپنی مائیکروسکوپ کو سیرتِ محمد پر مرتکز کر دو.

میں اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر عرض کر چکا ہوں کہ قرآن مجید میں اقامت ِ دین کی فرضیت ‘ اعلائِ کلمۃ اللہ کی اہمیت‘ تکبیر ربّ اور 
’’اظہارُ دینِ الحقّ علی الدّین کُلّہ‘‘ کے لیے جہاد و قتال کی فرضیت’’یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّــــــہٗ لِلّٰہِ‘‘ کے مقصد کے لیے جدوجہد کی اہمیت اور اس کی فرضیت‘ یہ چیز بہت ہی واضح اور اظہر من الشمس ہے‘ بشرطیکہ کسی کے دل میں کھوٹ نہ ہو اور گریز اور فرار کی نیت نہ ہو. اب سوچنا یہ ہے کہ ان بدلے ہوئے حالات میں یہ کام کیسے کیا جائے؟ اس کے لیے درحقیقت قرآن مجید سے براہِ راست ہدایت نہیں ملتی. اس لیے کہ ترتیب ِمصحف ترتیب ِزمانی کے اعتبار سے نہیں ہے. قرآن مجید میں وہ سورتیں بھی کہ جن کا تعلق سیرتِ محمدی سے ہے اور جن کا اکثر و بیشتر حصہ سیرت کے واقعات سے بحث کرتا ہے‘ زمانی ترتیب سے نہیں ہیں‘ مثلاً سورۃ التوبۃ دسویں گیارہویں پارے میں آ گئی ہے جس میں غزوئہ تبوک کا ذکر ہے جبکہ سورۃ محمد ؐ چھبیسویں پارے میں ہے جو کہ غزوئہ بدر سے پہلے نازل ہوئی ہے. اسی طرح سورۃ الاحزاب اکیسویں پارے میں ہے جس کے اندر غزوئہ احزاب کا ذکر ہے جو ۵ھ میں ہوا ہے. جو سورتیں مکی دور کے بالکل ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہیں وہ مصحف میںاخیر میں ہیں .تو اس حوالے سے قرآن مجید میں وہ ترتیب نہیں ہے جو نزولی اعتبار سے ہے. یہ ترتیب ملے گی سیرت النبی سے.