یہ ’بدع‘ سے لیا گیا ہے جس کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کا ایسے طریقے پر ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی اساس یا بنیاد نہ ہو ابتداع اور ایجاد کی دو قسمیں ہیں: 

(۱) تمدنی ترقی کے نتیجے میں نئی نئی ایجادات: یہ جائز ہیں‘ جیسے فریج‘ کمپیوٹر‘ ہوائی جہاز‘ ان چیزوں کا استعمال جائز ہے. یہ بدعت نہیں ہیں. 

(۲) دین میں کسی نئی چیز کا ایجاد کرنا: یعنی ہر وہ عمل بدعت کہلائے گا جس کا تعلق ہماری عبادات سے ہو یا جو ثواب اور نیکی سمجھ کر کیا جائے ‘لیکن شریعت یعنی قرآن و سنت میں اس کی کوئی بنیاد یا ثبوت نہ ہو‘ جو نہ تو نبی اکرم نے خود کیا ہو اور نہ ہی کسی کو اس کا حکم دیا ہو اور نہ ہی اس کی اجازت دی ہو. ایسا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود (نا قابل قبول) ہے. (بحوالہ بخاری ومسلم) 

دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز بدعات ہیں. چونکہ یہ نیکی اور ثواب سمجھ کر کی جاتی ہیں اس لیے بدعتی انہیں ترک کرنے کا تصور تک نہیں کرتا‘ جبکہ دوسرے گناہوں کے معاملے میں گناہ کا احساس موجود رہتا ہے جس سے یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ گناہگار کبھی نہ کبھی اپنے گناہوں پر نادم ہو کر ضرور توبہ واستغفار کرے گا. اسی لیے حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ’’شیطان کو معصیت کے مقابلے میں بدعت زیادہ محبوب ہے.‘‘