دنیا میں جب بھی کسی مذہبی جماعت کو زوال آتا ہے تو کچھ چیزیں مشترک ہوتی ہیں‘ جن میں سرفہرست یہ ہے کہ اس جماعت کی توجہ اپنے مذہبی شعائر کی روح پر سے ہٹ جاتی ہے اور ظاہری شکل وصورت پر مرتکز ہو جاتی ہے. یہ زوال کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے. بعینہٖ یہی معاملہ دین اسلام کے ساتھ ہوا. ہمارے مذہبی شعائر نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ وغیرہ ہیں جو کہ فرض ہیں. ان سب کی ادائیگی کے مختلف طریقے ہیں جو ہمیں بتا دیے گئے ہیں اور یہی طریقے ان عبادات کی ظاہری شکل و صورت کہلاتے ہیں. دوسری چیز ان عبادات کی روح ہے. مثال کے طور پر نماز کی ایک ظاہری شکل ہے. تکبیر کہنے کا طریقہ‘ قیام‘ رکوع‘ سجدہ‘ قعدہ‘ یہ سب کس طرح ادا کیے جائیں‘ یہ رسم نماز ہے‘ جبکہ نماز کی ایک روح ہے‘ جیسے خشوع و خضوع یا اللہ کے حضور ہونے کا احساس‘ اس کی محبت سے سرشار ہو کر اُس کے ذکر میں مگن ہونا‘ اس کے احسانات کے بوجھ تلے اس کے سامنے عاجزی سے شکر بجالانا‘ یہ سب نماز کی روح ہے. اسی طرح روزے کی روح تقویٰ ہے. علامہ اقبال نے اسے اپنے ایک شعر میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے ؎

رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

زوال کے دوسرے مرحلے میں انہی مذہبی شعائر پر مزید توجہ بڑھ جاتی ہے‘ یعنی عبادات کے ظواہر میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور نئی نئی رسمیں اور بدعات رواج پا جاتی ہیں. دین ِ اسلام کے زوال کے دوسرے مرحلے میں بھی یہی ہوا کہ اصل یعنی کتاب وسنت سے توجہ ہٹی تو رسومات اور بدعات میں اضافہ ہوا. زوال میں جتنا اضافہ ہوا بدعات و رسومات اتنی زیادہ بڑھیں.آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں رسومات وبدعات کا طوق ہماری گردنوں میں پڑ چکا ہے جن کی ادائیگی کی کوششوں میں ہم اپنے فرائض سے بھی دور ہو گئے ہیں. دینی علم سے دوری ہوئی تو جہالت میں اضافہ ہوا‘ خواہشات کی پیروی کی جانے لگی‘ دیگر اقوام کی مشابہت اختیار کی گئی‘ اندھی تقلید ہوئی اور اختلافات میں اضافہ ہوا‘ دین کی اصل شکل مسخ ہو گئی اور نئی نئی پیدا شدہ صورتیں اصل دین کہلانے لگیں. سنتیں مردہ ہو گئیں اور بدعتیں زندہ ہو گئیں.