ایصالِ ثواب سے متعلق جو بدعات رائج ہیں وہ یہ ہیں کہ اجتماعی طور پر ایک ہی قرآن مل جل کر بخشا جاتا ہے‘ یا اجتماعی طور پر گٹھلیاں پڑھی جاتی ہیں یا خاص دن بنام سوئم‘ دسواں‘ چالیسواں‘ برسی‘ جمعراتیں‘ منایا جاتا ہے. ان سب چیزوں کا تذکرہ آج سے ایک صدی قبل بھی نہیں تھا. 

فوت شدہ شخص کو ثواب پہنچانے کے ضمن میں جو چیز ہمیں سیرتِ طیبہ سے ملتی ہے وہ دعااور استغفار ہے. دعا کے معاملے میں اللہ نے ہم پر کوئی پابندی نہیں رکھی سوائے اس کے کہ مشرکین اور کفار کے لیے دعائے استغفار نہیں کی جاسکتی‘ صرف ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے‘ لیکن مسلمان کے لیے خواہ کتنا ہی فاسق وفاجر کیوں نہ ہو‘ ہم بخشش کی دعا کر سکتے ہیں. کسی زندہ نیک شخص سے دعا کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے. دعا کرنے کا حق ہمیں ہر وقت حاصل ہے. انسانی کیفیت مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہے. کسی نیک عمل کے بعد یا ایمانی کیفیت سے قرآن اور نماز پڑھنے کے بعد جو دعا کی جائے گی بلاشبہ وہ دل سے نکلی ہوئی ہو گی لہٰذا اس میں تاثیر بھی زیادہ ہو گی.

دعا کے ضمن میں ایک اہم بات سمجھنے کی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کا مانگنا بہت پسند ہے اور اس کے خزانے اتھاہ ہیں. وہ کہتا ہے مجھ سے مانگو جو چاہو اور جتنا چاہو‘ میں تمہیں دوں گا. جبکہ بندے کا معاملہ مختلف ہے. اگر اس سے کوئی چیز بار بار مانگ لی جائے تو وہ تنگ پڑ جاتا ہے اور کہتا ہے اب اگر مانگی تو قطعاً نہیں دوں گا. اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس کے برعکس ہے‘ لیکن دو شرائط کے ساتھ ہے. جیسے فرمایا: 

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾ 
(البقرۃ) 
’’اور جب سوال کریں(اے نبی !) آپ سے میرے بندے میرے بارے میں تو میں قریب ہی ہوں‘ ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں‘ پس چاہیے کہ وہ بھی تو 
میرا کہنا مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں‘ تاکہ وہ کامیاب ہو جائیں.‘‘

ہمارا ایمان باللہ کمزور پڑا. ہم نے اللہ کا کہنا ماننا چھوڑا تو ہماری دعائوں سے تاثیر بھی کم ہوتی چلی گئی.لہٰذا حرام خوری اور فحاشی وعریانی کے ساتھ مانگی گئی دعائیں قبولیت سے خالی ہو گئیں. پھر ہم گن گن کر نیکیاں کرنے لگ گئے‘ گن گن کر ثواب بخشوانے لگ گئے. ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمارے کرتوت کیا ہیں‘کس منہ سے اللہ سے مانگیں‘ ہمارا اللہ کے ساتھ وہ تعلق ہی نہیں ہے جو ایمانِ حقیقی اور اعمالِ صالحہ کی وجہ سے قائم ہوتا ہے. ہمارے اندر یہ یقین کہاں سے آئے کہ اللہ میری ہر دعا سنے گا اور قبول کرے گا‘ جبکہ ہم نے اس کے دین کے لیے کوئی قربانی بخوشی قبول نہ کی ہو اور نہ ہی ہم اپنے نفس پر کوئی مشقت برداشت کرنے کو تیار ہوئے ہوں. لہٰذا ہم لذت وحلاوتِ مناجات سے محروم ہو گئے. اسی لیے ہم نے اس کی تلافی کے لیے بے شمار نئے دھندے ایجاد کر لیے جن کی ہمارے دین کے اندر اصل میں کوئی حقیقت نہیں. کتاب اللہ‘ سنت رسول  ‘سنت ِ صحابہ ؓ اور سنت ِ خلفائے راشدین میں بھی اس قسم کی کسی تقریب کا تذکرہ نہیں ملتا. ان نئی رواج یافتہ تقریبات کے معاملے میں ہمارا طرزِ عمل حکیمانہ ہونا چاہیے. براہِ راست فتویٰ بازی مؤثر نہیں ہوتی‘ بلکہ ضد پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے‘ لہٰذا بات کو اچھے انداز میں سمجھا دینا چاہیے اور خود ایسی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے. اصل بات یہ ہے کہ ہمیں دین کے ہر معاملے میں اپنا مزاج یہ بنا لینا چاہیے کہ قرآن اور سنت سے کوئی ثبوت مل جائے تو اسے اپنالیں اور اگر نہ ملے تو ترک کر دیں‘ کیونکہ حصولِ ثواب یا عبادات کے معاملات نبی اکرم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں مکمل ہو گئے تھے. کسی نئے عمل کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ یا تو وہ عمل کسی کے پھیلائے ہوئے فتنے کا نتیجہ ہے یا غیر مسلم اقوام سے قرب اور تعلق کی بنا پر یہ چیزیں ہمارے اندر آگئی ہیں.

قرآن خوانی کے پس منظر 
(back ground) کی طرح عید میلاد النبی ؐ اور کونڈوں کیپس منظر بھی یہاں میں مختصراً نقل کر رہی ہوں‘ تاکہ ان چیزوں کی قباحت بھی ہم پر واضح ہو کہ نیکی کے حصول کے پس پردہ ہم کن شیطانی حربوں کا شکار ہو گئے ہیں.