ایامِ بیض‘ یعنی ہر قمری مہینے کی تیرہویں‘ چودہویں اور پندرہویں کا روزہ: متفق علیہ احادیث سے ثابت ہے کہ ان تین دنوں کے روزے رکھنا سال بھر کے روزے رکھنے کے برابر ہے. 

یومِ عرفہ کا روزہ: 
۹ ذوالحجہ کو یومِ عرفہ کہا جاتا ہے. صحیح مسلم کی روایت ہے‘ نبی اکرم نے فرمایا:’’یومِ عرفہ کا روزہ آئندہ اور گزشتہ دونوں سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے‘‘. یعنی وہ صغیرہ گناہ جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے. ذو الحجہ کے پہلے عشرے کی عبادات کی احادیث مبارکہ میں بہت اہمیت بیان کی گئی ہے. 

عاشورہ اور نویں محرم کا روزہ: 
نبی اکرم  نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس دن کاروزہ رکھنے کا حکم بھی دیا. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک متفق علیہ حدیث میں اس کی سند موجود ہے.

اس دن کے روزے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ نبی اکرم جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں. آپؐ نے پوچھا:’’کیوں رکھتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا اس دن آلِ موسیٰ کو فرعون سے نجات ملی تھی. اس پر آپ  نے فرمایا کہ موسیٰ سے ہمارا تعلق زیادہ ہے‘ ہم اس روز تم سے زیادہ روزہ رکھنے کے حق دار ہیں. چنانچہ آپ نے دس محرم کا روزہ رکھا اور فرمایا اگر اگلے سال زندہ رہا تو نویں کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہود سے مخالفت ہو. سوچنے کا مقام ہے کہ آج۹ اور۱۰ محرم کو کس واقعے سے منسوب کر کے کیا کیا ہو رہا ہے!

صحیح مسلم کی روایت ہے‘ نبی اکرم  نے فرمایا:’’نماز کے بعد افضل روزہ اللہ کے مہینے محرم کا روزہ رکھنا ہے اور فرض نمازوں کے بعد افضل نماز تہجد کی نماز ہے.‘‘ 

شعبان کے روزے: 
ایک متفق علیہ روایت سے ثابت ہے کہ نبی اکرم سب سے زیادہ روزے شعبان میں رکھتے تھے. ایک اور روایت کی رو سے سوائے چند دن کے آپؐ نے پورا شعبان روزے رکھے‘ مگر اُمت کو حکم دیا کہ نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو‘ ہاں اگر روزہ رکھنے کی عادت ہے تو ٹھیک ہے‘ تاکہ رمضان المبارک کی تیاری کی جائے. ایک دن چھوڑ کر ایک دن کا روزہ رکھنا: یہ حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور اس کی فضیلت بھی ہے.

نفل نمازوں اور روزوں کے علاوہ تمام دن پڑھنے کے لیے ہمیں مسنون دعائیں اور مسنون اذکار بے شمار کتابوں میں کثیر تعداد میں مل جاتے ہیں. ان کی تعداد اتنی ہے کہ سارا دن زبان ذکر الٰہی سے تر رہ سکتی ہے. ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے ہمیں لوگوں کے بتائے ہوئے اذکار اور دعاؤں کی ضرورت نہیں رہتی. مسنون عبادات‘ روزے‘ دعائیں اور اذکار سب حصولِ ثواب کا ذریعہ ہیں.

ایصالِ ثواب کے ضمن میں بھی یہ سوال ابھرتا ہے کہ مروّجہ بدعات کو چھوڑدیں تو اپنے مردے کے لیے مسنون طریقے سے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ سیرت کی کتابوں سے ہمیں جو چیزیں ملتی ہیں یہاں اختصار کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے. حقیقت واقعہ یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ کے سوگ کا تذکرہ نہیں ملتا. صرف بیوہ کے لیے سوگ کی مدت چار ماہ دس دن ہے. تین دن تعزیت کے لیے آنے جانے والوں سے ملاقات ہے‘ اس کے بعد معمول کے شب وروز ہوں. پہلی عید پر اچھے کپڑے نہ پہننایا یومِ عید کو یومِ سوگ کے طور پر منانا جائز نہیں ہے. بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ حضرت اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا کا بیٹا فوت ہو گیا‘ تیسرے دن انہوں نے زرد خوشبو منگوا کر استعمال کی اور فرمایا:’’شوہر کے علاوہ کسی اور پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا گیا ہے.‘‘

آج کل میت کے حوالے سے لاتعداد بدعات رائج ہیں جن کا تعلق میت کے کفن دفن‘ جنازہ اور قبروغیرہ سے ہے. ان سب مراحل کے لیے ہمیں مکمل ہدایات سنت سے ملتی ہیں. تفاصیل کے لیے کتب احادیث سے ضرور استفادہ کریں. مختصراً مندرجہ ذیل ہیں:

قریب الموت کے پاس بیٹھ کر 
لا الٰہ الا اللہ پڑھنا مسنون ہے. صحیح مسلم کی روایت ہے‘ نبی اکرم  نے فرمایا:’’اپنے مرنے والے کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کیا کرو.‘‘ 

غم کی حالت میں میت پر رونا چلانا‘ ماتم کرنا منع ہے. نبی اکرم  نے فرمایا : ’’جس پر نوحہ کیا جائے اس کو نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے‘‘. (بخاری ومسلم) میت پر آنسو بہانا یا خاموشی سے رونا جائز ہے. مرنے کے بعد میت کی آنکھیں بند کر دینی چاہئیں . اس کے بازو اور ٹانگیں سیدھی کر دینی چاہئیں اور اس کے بارے میں خیر کی باتیں کرنی چاہئیں. نبی اکرم 
 نے فرمایا کہ مرنے والے کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہ کرو.(نسائی)
کسی کے مرنے پر 
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ کہنا سنت ہے.

مرنے والے کے ذمے قرض ہو تو ورثاء کو چاہیے کہ مل جل کر اسے ادا کریں. والدین کی طرف سے فرض حج یا نذر مانا ہوا حج بھی ادا کیا جا سکتا ہے‘ اگر وہ کسی عذر کی وجہ سے ادا نہ کر پائے ہوں. اسی طرح فرض روزے بھی رکھے جا سکتے ہیں. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر فرض روزے رکھنے باقی ہوں تو اس کا وارث روزے رکھے.(صحیح بخاری)

میت کی طرف سے قربانی کرنے کی دلیل بھی ہمیں ایک حدیث سے ملتی ہے. 
مُردوں کے حق میں دعائے مغفرت کرنا سنت سے ثابت ہے. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:’’قبر میں میت کی مثال ڈوبنے اور فریاد کرنے والے کی طرح ہے جو اپنے ماں باپ‘ بھائی یا کسی دوست کی دعا کا منتظر رہتا ہے‘ جب اسے دعا پہنچتی ہے تو اسے دنیا جہان کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی ہے. بے شک اہل دنیا کی دعا سے اللہ تعالیٰ اہل قبور کو پہاڑوں کے برابر اجر عطا فرماتا ہے. مُردوں کے لیے زندوں کا بہترین تحفہ ان کے لیے استغفار کرنا ہے‘‘. (بیہقی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ‘رسول اللہ  نے فرمایا:’’مرنے کے بعد انسان کے اعمال(کے ثواب) کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے‘ سوائے تین چیزوں کے جن کا ثواب میت کو پہنچتا رہتا ہے.(۱) صدقہ ٔ جاریہ‘(۲)لوگوں کو فائدہ دینے والا علم‘(۳)نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرتی ہے‘‘. (صحیح مسلم)

(۱) صدقہ ٔ جاریہ سے مراد دینی بھلائی کا کوئی کام ہے. مثلاً مسافر خانہ بنوا دیا‘ کوئی کنواں کھدوادیا یا کوئی مسجد تعمیر کروائی‘ پھل دار یا سایہ دار درخت لگا دیے. نیکی کے یہ کام ایسے ہیں جن کا اجر وثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے.

(۲) لوگوں کو فائدہ دینے والا علم: اس ضمن میں قرآن کریم کی تعلیم سرفہرست ہے. صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی‘ دین وشریعت کی تعلیم وتربیت اور اس کے علاوہ کوئی فائدہ مند سائنسی ایجاد وغیرہ جس سے لوگ نسل درنسل فائدہ اٹھاتے ہوں. علم کے حوالے سے دین کی نشر واشاعت کے کام بھی بہترین صدقہ ٔ جاریہ ہیں. مسلم کی روایت ہے‘ 
نبی اکرم  نے فرمایا:’’سب سے پاکیزہ کھانا جو تم کھاتے ہو اپنی کمائی سے ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں شامل ہے‘‘. (سنن ابی داؤد)

اولاد کو قرآن وسنت کا تابع بنا کر مرنے والا قیامت تک ثواب حاصل کر سکتا ہے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ‘رسول اللہ  نے فرمایا:’’اللہ عزوجل جنت میں نیک آدمی کا درجہ بلند فرمائے گا تو آدمی عرض کرے گا: یا اللہ! یہ درجہ مجھے کیسے حاصل ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’تیرے بیٹے نے تیرے لیے استغفار کیا تھا‘‘.(مسند احمد)