انڑویو

سوال

ڈاکٹر صاحب!آپ سب سے پہلے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتا دیجیے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

میرا خاندانی پس منظر یہ ہے کہ میری والدہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھیں. میرے ددھیال میں میرے پڑدادا حافظ نور اللہ ایک قصبہ حسین پور‘ جو یوپی کے مغربی ضلع مظفر گڑھ میں واقع ہے‘ کے رئیس تھے. 1857ء کے بعد ان کی جائیداد ضبط ہو گئی تھی. سبب یہ تھا کہ جنگ ِ آزادی میں ایک انگریز ڈپٹی کمشنر مجروح ہو کر ان کے پاس پناہ مانگنے آیا تھا تو انہوں نے اُسے پناہ نہیں دی تھی. اس جرم میں ان کی ساری جائیداد ضبط کر لی گئی. چنانچہ انہوں نے وہاں سے نقل مکانی کی اور دریائے جمنا عبور کر کے مشرقی پنجاب کے ضلع حصار آ گئے. وہیں ان کا انتقال ہوا. وہاں انہوں نے سرکاری ملازمت شروع کی. میرے والد صاحب وہیں پیدا ہوئے اور اور 1947ء میں ہم ان کے ساتھ پاکستان آئے ہیں. میرے ددھیال نسلی اعتبار سے اَگروال شطری راجپوتوں کی نسل سے ہیں. ان میں جو پہلے شخص مسلمان ہوئے تھے ان کا نام دیوان باری بخش رکھا گیا تھا. باقی کوئی خاص تفاصیل میرے علم میں نہیں ہیں.

میری پیدائش 26 اپریل 1932ء کو ہوئی. دادا کا ایک چھوٹا سا مکان تھا‘جہاں ہماری رہائش تھی. میری پیدائش سے پہلے والدہ نے اپنا زیور فروخت کیا اور اس وقت کی جو حصار کی پوش آبادی بن رہی تھی اس میں مکان بنایا. اسی مکان میں میری ولادت ہوئی. 1947ء میں میٹرک وہیں سے کیا. میں پورے ضلع میں اوّل آیا تھا. اس وقت میٹرک کا امتحان یونیورسٹی کا ہوتا تھا. پوری پنجاب یونیورسٹی میں مسلمانوں میں آٹھویں نمبر پر تھا. میں جب پانچویں جماعت کا طالب علم تھا تو میرے بڑے بھائی یہاں اسلامیہ کالج میں پڑھتے تھے. ریواز ہاسٹل میں رہتے تھے. وہ چھٹیوں میں گھر آئے تو میرے لیے ’’بانگ ِ درا‘‘ لے کر آئے.اسے میں ترنم کے ساتھ پڑھتا تھا. کچھ سمجھتا تھا‘کچھ نہیں سمجھتا تھا. اس میں سے بعض چیزیں میرے ذہن پر نقش ہو گئیں. ایک تو اقبال کا یہ پیغام کہ مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ ہو گی اور مسلمان دنیا میں عروج حاصل کریں گے. خاص طور پر جواب ِ شکوہ کا ایک شعر میرے ذہن میں پیوست ہو گیا کہ ؎ 


وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

میٹرک میں بطور مضمون عربی پڑھی تھی. عربی کی بنیادیں ہائی سکول کے زمانے میں پختہ کر لی تھیں. اس دوران تحریک ِ پاکستان میں بھی میں ایک چھوٹے سے کارکن کی حیثیت سے شریک تھا. میں مسلم لیگ کے سٹوڈنٹ وِنگ میں شامل تھا اورفعال تھا. ضلع حصار کی مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری تھا. اسی زمانے میں مجھے مولانا مودودیؒ کے کچھ بنیادی کتابچے پڑھنے کا موقع ملا. مولانا ابوالکلام آزاد کے بھی کچھ مقالات پڑھے.اس طرح میں اسلام کے انقلابی فکر سے بھی واقف ہو گیا تھا اور ایک حد تک میرے اندر اس کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو چکا تھا. تاہم عملی طور پر تحریک ِ پاکستان میں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کام کرتا رہا. 


سوال

آپ نے جیسے فرمایا اقبال ؒ سے تعلق آپ کا بچپن میں ہوگیا اور مولانا مودودیؒ کی تحریریں بھی آپ نے پڑھیں اور آپ اس سے متاثر ہوئے. اسی وقت آپ مسلم لیگ کے سٹوڈنٹ وِنگ (MSF) کے بھی عہد ِیدار تھے. اس وقت مولانا مودودیؒ مسلم لیگ کی قیادت پر شدید تنقید کر رہے تھے‘آپ ان دونوں چیزوں کو اکٹھا لے کر کیسے چلے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

میں اس طرح کرتا تھا کہ جب ہمارے ہاں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے حلقے میں بعض لوگ جو بہت غالی قسم کے لیگی تھے وہ مولانا مودودیؒ پر تنقید کرتے تھے تو میں ان سے لڑتا تھا کہ یہ کام غلط ہے. یہ ان کی رائے ہے اور ان کے خیالات اپنی جگہ ہیں. ٹھیک ہے ہمارا اختلاف ہے اور ہم پاکستان کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے. وہاں جماعت ِ اسلامی کے ایک ہفتہ وار اجتماع میں درسِ قرآن ہوتا تھا. میں اس میں ریگولر شریک ہوتاتھا. میرے نزدیک اس میں کوئی خاص تضاد نہیں تھا. نشاۃِ ثانیہ کے لیے مولانا مودودیؒ کا انقلابی انداز کا ایک طریقہ کار تھا جس کے مطابق قومی بنیاد پر نہیں بلکہ اُصولی بنیاد پر ایک جماعت قائم کرنے کا پروگرام دیا گیا تھا. یعنی وہ لوگ جو خود اسلام کو اپنے اُوپر نافذ کریں‘وہ جمع ہوں اور ان کی جدوجہد سے اسلامی ریاست قائم ہو.

1940ء میں مولانا مودودیؒ نے علی گڑھ یونیورسٹی میں ’’اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے‘‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھا تھا. جس میں انہوں نے بیان کیا کہ مسلم لیگ نعرہ لگا رہی ہے کہ ہم اسلام کو قائم کریں گے‘اسلام کو نافذ کریں گے‘ لیکن یہ کام قومی تحریک سے نہیں ہو سکتا. اس سے قومی ریاست ہی وجود میں آئے گی. تاہم اس وقت مسلمانوں کی جو قومی کیفیت تھی اور ان کے مستقبل کے تحفظ کے لحاظ سے یہی محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ کے پروگرام میں حصہ لیا جائے. بہرحال اس معاملے میں مجھے کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا تھا. 


سوال

ڈاکٹر صاحب! 1951ء میں پاکستان کے پہلے انتخابات پنجاب میں ہوئے. اس میں جماعت ِ اسلامی نے بھی حصہ لیا اور آپ نے جماعت ِ اسلامی کی طرف سے انتخابی مہم میں بھرپور کرداراداکیا. پھر 1957ء میں جماعت ِ اسلامی کا ایک بہت بڑا اجتماع ماچھی گوٹھ میں ہوا تھا. اس میں آپ نے جماعت اسلامی پر الزام لگادیا کہ وہ اپنے بنیادی موقف سے منحرف ہو گئی ہے. سوال یہ ہے کہ 1951ء میں آپ بھی انتخابات میں بڑے زور و شور سے حصہ لے رہے ہیں اور 1957ء میں آپ کہہ رہے ہیں کہ اس راستے سے اسلام آ نہیں سکتا. یہ تبدیلی تو آپ میں آئی‘جماعت کی تبدیلی تو بعد کی بات ہے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

آپ کی بات جزوی طور پر درست ہے. میں جب جماعت اسلامی کے ساتھ عملاً وابستہ ہوا ہوں تو ابتداء میں حلقۂ ہمدردان میں شامل ہوا. اس وقت میری عمر 15 برس تھی. اس وقت کوئی سمجھ اور فہم کا معاملہ اتنا زیادہ نہیں تھا. چونکہ مولانا مودودیؒ کھڑے ہو گئے تھے کہ جب اسلام کے نام پر ملک لیا گیا ہے تو یہاں پر اسلامی دستور بننا چاہیے. مطالبۂ دستور اسلامی کے حوالے سے انہوں نے ایک تحریک شروع کی اور میں اس جدوجہد میں ان کے ساتھ شریک رہا. اس کے بعد جب میں میڈیکل کالج میں داخل ہوا تو ہاسٹل میں چلا گیا. یہاںمیرا جماعت کے ساتھ ربط زیادہ نہیں رہا. ہاسٹل لائف میں اسلامی جمعیت طلبہ میں کام کرنے کا موقع ملا ‘جو پوری تندہی سے کیا. میرا مزاج اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ اگر کسی چیز کو اختیار کرتا ہوں تو پوری طرح کرتا ہوں. بہرحال جماعت اسلامی کے ساتھ کام کر کے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ خود اللہ اور رسول کا فرماں بردار ہواوراسی کی دعوت دوسروں کو بھی دے. اور پھر یہ کہ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے قائم کرنے کی جدوجہد کرے.یہ فکر میرے سامنے ’’شہادت حق‘‘ نامی پمفلٹ سے آیا‘جس میں مولانا مودودیؒ نے یہی بات بیان کی ہے. اس سے میں نے یہی اخذ کیا کہ اسلام کو قائم کرنے کے لیے ایک جماعت ضروری ہے. میں اس جماعت میں شامل تھا‘اس لیے جماعت کی انتخابی مہم کے لیے کام کر رہا تھا‘لیکن محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں کوئی غلطی ہو رہی ہے. 1951ء کے الیکشن میں بھی ہم نے ڈٹ کر حصہ لیا. میں نے بہت کام کیا. مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ماڈل ٹاؤن سے کھڑے ہوئے تھے. ہم نے ان کے لیے الیکشن کی مہم پُر زور انداز میں چلائی تھی. اگرچہ ہمارے پاس لوگ نہیں آتے تھے. اس لیے کہ مسلم لیگ کی شاخوں کا ہی آپس میں مقابلہ تھا. 

ایم بی بی ایس کرنے کے بعد یہ احساس زیادہ شدید ہو گیا کہ جماعت کے بغیر زندگی گزارنا درست نہیں .لہٰذا جیسے ہی میرا نتیجہ نکلا ‘اسی رات کو میں نے جماعت ِ اسلامی کی رکنیت کے لیے درخواست دے دی. انہوں نے ڈیڑھ مہینہ لیا.میں فروری 1955ء میں جماعت ِ اسلامی کا رکن بن گیا. اب میں نے اندر جا کے جو حالات دیکھے تو مجھے اندازہ یہ ہوا کہ اُصولی اعتبار سے اور شخصی کردار کے اعتبار سے بات وہ نہیں ہے جو ہم نے لٹریچر میں پڑھی ہے ‘کیونکہ ہمارا سارا رابطہ لٹریچر کے ساتھ تھا. ا س پر بھی زیادہ غور کرنا پڑا کہ کیا سبب ہے. کیوں یہ چیز صحیح نتائج برآمد نہیں کر رہی. اسی طرح جب 1956ء کا دستور بنا جس کے لیے جماعت نے بڑی محنت کی تھی اس وقت لگتا تھا کہ شاید اب منزل بہت قریب آ گئی ہے. دستوربن گیا ہے‘اب یہاں اسلام آ جائے گا.مگر اس کے بعد یہ ہوا کہ وہ ساری بساط ہی لپیٹ دی گئی. 

اس پر ایک سوالیہ نشان سامنے آیا. اس کے بارے میں جب غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ جماعت اسلامی اپنی اصل ڈگر سے ہٹ گئی ہے‘جو ایک اُصولی انقلابی جماعت تھی.جماعت اسلامی اگرچہ قائم تو 1941ء میں ہوئی تھی لیکن اس کا فکری ہیولا مولانا مودودیؒ نے 1939-40ء کی اپنی تحریروں میں پیش کیا تھا. اس وقت سے لے کر قیام ِ پاکستان تک اس نے ایک اُصولی انقلابی جماعت کا رول ادا کیا تھا‘قومی مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں لی. قیام پاکستان کے بعد محسوس ہوا کہ جماعت نے الیکشن میں حصہ لے کر ایک اسلام پسند قومی سیاسی جماعت کا جو رول اختیار کر لیا ہے‘اس سے اُس کا انقلابی رنگ ختم ہو گیا ہے. یہی خیال جماعت سے میری علیحدگی کا سبب بنا. 


سوال

ڈاکٹر صاحب! 1957ء میں جماعت اسلامی کاجو ماچھی گوٹھ کا اجتماع ہوا تھا‘اس کے بعد جماعت اسلامی کے کچھ بڑے جماعت سے نکلے تھے. آپ بھی ان کے ساتھ نکلے تھے. وہ سب مولانا مودودیؒ کی ذات کے حوالے سے توناقد تھے‘لیکن ان کا آپس میں بھی اختلاف تھا. آپ لوگوں کا جو اتحاد تھا کیا یہ مولانا کی ذات کے حوالے سے نہیں تھا؟ 


ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

پہلی بات یہ نوٹ کر لیجیے کہ کوئی گٹھ جوڑ سرے سے تھا ہی نہیں. لوگوں کی انفرادی سوچ تھی جس میں مختلف پہلوؤں میں یک رنگی بھی تھی. مثلاً یہ تو تقریباً سب کا خیال تھا کہ ہم غلط راستے پر آ گئے. 1955ء میں کراچی کے کیولری گرائونڈ میں جماعت اسلامی کے آل پاکستان اجتماع میں یہ بات کھل کر سامنے آئی. اس اجتماع میں بہت سے لوگوں نے اپنی تجاویز بھیجی ہوئیں تھیں کہ جماعت کے دستور میں یہ ترامیم ہونی چاہئیں. کچھ لوگوں نے جماعت کی پالیسی کے بارے میں اظہار کیاکہ یہ غلط رُخ پر چلی گئی . مولانا مودودیؒ نے حکمت ِ عملی سے کام لیا. اس لیے کہ اس وقت وہ اسلامی دستور بنانے کے لیے ایک تحریک چلا رہے تھے‘ جس کا بہرحال کچھ نہ کچھ اثر تھا کہ 1956ء کا دستوربنا. لہٰذا انہوں نے اس وقت کارکنوں کی اس سوچ کو divert کیا کہ اگر ہم نے اس وقت سالانہ جلسے کے اندر یہ ایشوز اوپن کر دیے تو پنڈورا باکس کھل جائے گا اور لوگ کنفیوژن کا شکار ہو جائیں گے اور وہ منتشر ہو جائیں گے. لہٰذا انہوں نے جماعت کے تنظیمی حلقوں سے دو دو آدمی منتخب کیے اور ایک دستوری کمیٹی بنا دی تاکہ جماعت کے دستور کے اندر ترامیم وغیرہ کی جو تجاویز آئی ہیں ان کی روشنی میں یہ لوگ بیٹھ کر جائزہ لیں. ان میں حلقۂ اوکاڑہ کے دو نمائندگان میں سے ایک میں بھی تھا. اسی طرح جماعت کی پالیسی کے معاملے کے لیے بھی انہوں نے ایک کمیٹی بنا دی جس کا نام جائزہ کمیٹی رکھا کہ جو پورے ملک میں گھوم پھر کر جائزہ لے اور جن کو پالیسی کے بارے میں اشکالات ہیں‘یہ کمیٹی ان کو جاکر سنے. 

اُس وقت اکثر و بیشتر لوگ یہ تو محسوس کر رہے تھے کہ کچھ خرابیاں ہو گئی ہیں لیکن کوئی نشاندہی نہیں کر پا رہا تھا کہ کیا خرابیاں ہیں؟جب اوکاڑہ میں جائزہ کمیٹی آئی تو وہاں بھی انہوں نے ایک ایک آدمی کو گفتگو کرنے کے لیے بلایا. میں نے کاغذ پر کچھ پوائنٹس نوٹ کر 
لیے کہ وہاں یہ باتیں کرنی ہیں. میں نے جب باتیں کیں تو وہ چاروں حضرات مولانا عبدالجبار غازی‘عبدالغفار حسن‘عبدالرحیم اشرف اور شیخ سلطان صاحب کے تاثرات سے ایسے لگا کہ جیسے ان کی آنکھیں کھل سی گئی ہیں. انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ یہ چیزیں لکھ کر نہیں دے سکتے؟ میں نے کہا کہ میں لکھاری آدمی نہیں ہوں اور میں نے کبھی کچھ لکھا ہی نہیں ہے. وہ کہنے لگے آپ کوشش کریں. اس کے بعدمیں نے 10 دن میں اپنے کلینک کی مصروفیت کے ساتھ اپنے خیالات کو تحریری شکل دینا شروع کی. اس تحریر میں کتابوں سے حوالے کاٹ کاٹ کر پیسٹ بھی کیے. اس کے بعد پانچ دن کے لیے میں لاہور میں آ کر اپنی ہمشیرہ کے گھر (جو کرشن نگر (اسلام پورہ) رہتی تھیں)‘دروازہ بند کر کے بیٹھ گیا. یوں میں نے ڈھائی سو صفحے کا بیان تیار کر کے دے دیا. اس بیان نے بہت بڑا رول پلے کیا. مولانا عبدالجبار غاز ی صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ میں حیران ہوں کہ ہم بوڑھے لوگ حالات و واقعات سے گزر کر جن نتائج تک پہنچے ہیں اس نوجوان نے صرف لٹریچر کے تجزیئے سے وہ سارے نتائج حاصل کر لیے. 

پھر شوریٰ کااجلاس ہوا. جائزہ کمیٹی کی رپورٹ میں وہی بات آ گئی کہ جو کام غلط ہو گیا ہے ہمیں اس میں کچھ ترمیم کرنی چاہیے. مولانا اصلاحی صاحب نے بھی مولانا مودودیؒ اور شوریٰ کے لوگوں سے کہا کہ ’’ڈاکٹر اسراراحمد کا بیان سب لوگ ضرور پڑھیں‘اس میں اگرچہ مجھ پر بھی بڑی شدید تنقید ہے لیکن وہ ٹھیک بات کر رہا ہے.‘‘ مولانا مودودیؒ نے کہا کہ میرے پاس تو ٹائم نہیں ہے ‘یہ بہت بڑابیان ہے. بہرحال جس نے اس کو پڑھا سوچنے پر مجبور ہو گیا .اصل میں ہوا یہ کہ لوگ جو بات محسوس کر رہے تھے کہ کچھ گڑ بڑ ہے ‘اسی کو میں نے مرتب کر کے تحریری شکل دے دی تھی. وہ یہ کہ جماعت ِ اسلامی کا اپنی بنیادی فکر سے یوٹرن لینے کی وجہ سے پورا معاملہ تبدیل ہو کر رہ گیا ہے. 

مولانا مودودیؒ نے جب جائزہ کمیٹی کا رنگ دیکھا کہ یہ لوگ اب میرے معتقد نہیں رہے تو انہوں نے امارت سے جذباتی انداز میں استعفا دے دیا. اب سب لوگ خوشامد کرنے لگے. وفد کے وفد پنجاب‘کراچی وغیرہ سے آنے لگے کہ مولانا استعفا واپس لیں. اس پر انہوں نے یہ کیا کہ جائزہ کمیٹی کے ارکان کو ایک خط لکھا کہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ چاہے آپ کی کوئی نیت تھی یا نہیں تھی لیکن آپ نے غیر شعوری طور پر جماعت کے خلاف ایک سازش کی ہے ‘میں آپ کو option دیتا ہوں کہ یا تو آپ خود شوریٰ سے مستعفی ہو جائیں‘یا جن جن حلقوں سے آپ منتخب ہو کر آئے تھے میں ان کے سامنے آپ کا کیس رکھوں گا. وہاں کے لوگ آپ کے بارے میں جو کہیں گے وہ کیا جائے گا. اس پر مولانا اصلاحی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے مولانا مودودیؒ کو ایک زبردست خط لکھا. اب یہ دونوں (مولانا مودودیؒ اور مولانا اصلاحیؒ ) مد مقابل ہو گئے‘جو 17برس سے یکجان دوقالب رہے تھے. بہرحال اس کے بعد کئی مراحل آئے جس کے نتیجے میں جماعت کی نئی پالیسی سے اختلاف رکھنے والے لوگ الگ ہو گئے. 

سوال

’’جماعت ِ اسلامی :ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ آپ نے جماعت کے اندر رہ کر لکھی لیکن اسے 10 سال بعد شائع کیا.ایسا کیوں ہوا؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں کہ محض تخریب جائز نہیں ہے جب تک کہ تعمیر کا پروگرام شامل نہ ہو. ظاہر بات ہے کہ اُس وقت جو لوگ الگ ہوئے وہ سینئر لوگ تھے. میں انتظار کرتا رہا کہ یہ بڑے لوگ کوئی جماعت قائم کریں گے تومیں بھی لبیک کہوں گا. جب میں جماعت سے علیحدہ ہوا تو میری عمر کل 25 سال تھی. میں کوئی نئی تحریک یا نئی جماعت شروع نہیں کر سکتا تھا. اُمید یہ تھی کہ یہ بڑے لوگ (عبدالغفار حسن‘عبدالرحیم اشرف اورمولانا عبدالجبار غازی ‘شیخ سلطان احمد) سرجوڑ کر بیٹھ جائیں گے تو کوئی نئی تنظیم‘نیا ڈھانچہ بن جائے گا. لہٰذا میں نے اس کو روکے رکھا. جب میں نے دیکھا کہ یہ لوگ کچھ نہیں کر رہے تو میں نے سوچا کہ ہر شخص کو اپنی قبر میں جانا ہے اور اپنا حساب خود پیش کرنا ہے. میں یہ کہہ کر تو نہیں چھوٹ جاؤں گا کہ انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا. لہٰذا میں نے 1965ء میں طے کیا کہ کچھ بھی ہو ‘میں اپنے طور سے کام شروع کروں گا. میں ایم بی بی ایس کر کے ساہیوال چلا گیا تھا ‘پھر وہاں سے میں 1965ء میں لاہور دوبارہ اس عزم کے ساتھ منتقل ہوا کہ اب میں نے اپنی بنیاد پر ایک دعوت دینی ہے اور اس پر تنظیم اور جماعت اُٹھانی ہے. اس وقت میں نے وہ کتاب شائع کی.

سوال: جماعت ِ اسلامی اور تنظیم اسلامی دونوں اپنا ایک ہی ہدف بتاتی ہیں. آپ نے جو 
الگ جماعت بنائی اس کی وجہ صرف طریقہ کار کا اختلاف تھا یا اور بھی کوئی اختلاف تھا؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

چھوٹے موٹے اختلافات تو بہت تھے مثلاً وہ جو آئیڈیل دور ہے جماعت ِ اسلامی کا 1939ء سے 1950ء تک‘اس میں بھی مجھے دو خامیاں نظر آتی تھیں اور میں نے اپنے اس بیان میں بھی لکھ دیا تھا لیکن اس پر اصرار نہیں کیا تھا. ایک خامی مجھے یہ محسوس ہوتی تھی کہ مولانا مودودیؒ شدت پسند ہیں. وہ جب تنقید کرنے پر آتے ہیں تو جب تک کسی کو کفر تک نہ پہنچا لیں اس وقت تک ان کو اطمینان نہیں ہوتا. متحدہ قومیت کی تحریک جس میں مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ شامل تھے ان پر انہوں نے جو تنقیدیں کی ہیں ان میں اس معاملہ کو کفر اور شرک تک پہنچا دیا. جب مسلم لیگ پر تنقیدیں کیں تو مسلم قوم پرستی کو بھی کفر اور شرک تک پہنچا کر دم لیا. ایک تو ان میں یہ شدت تھی. ٹھیک ہے‘اختلافات رکھیں لیکن اختلاف کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ لوگ قریب آنے کی بجائے دور ہو جائیں. مثلاً جن بزرگوں پر انہوں نے تنقیدیں کی ہیں ان کے معتقدین کے کان جماعت کی دعوت کے لیے بند ہو گئے. دوسری کمی جس کا مجھے احساس ہوتا تھا وہ یہ کہ اسلام کے موضوع پر گفتگو تو ساری صحیح ہے لیکن ایمان پر Emphases اتنا نہیں ہے جتنا کہ ہونا چاہیے. 

یہ دو چیزیں تھیں جن کی کمی محسوس ہوتی تھی. تاہم جماعت کا جو فرائض دینی تصور ہے اس کے لیے میں ان کے ساتھ 
Agree کرتا تھا اور آج بھی Agree کرتا ہوں. جب جماعت اسلامی نے پاکستان بننے کے بعد یوٹرن لیا تو پہلا کام صحیح کیا تھا یعنی دستور اسلامی کا مطالبہ کیا‘اس میں پوری قوم نے ساتھ دیا. مسلم لیگیوں نے بھی ساتھ دیا. گویا کہ یہ مسلم لیگ کی تحریک کا ایک معنوی تسلسل ہو گیا. مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اس حوالے سے دستور ساز اسمبلی کے اندر بڑا اہم رول پلے کیا.لیکن 1951ء کے الیکشن میں جماعت نے حصہ لے کر جوٹرن لیا اس نے اس کی نوعیت کو بدل دیا. 

سوال

گزشتہ 30 سال میں دین کے حوالے سے جو محنت آپ نے کی ہے آپ کے مخالفین بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے. لیکن اس میں ایک تسلسل اور استقامت نظر نہیں آتی. مثلاً پہلے آپ نے انجمن خدام القرآن بنائی ‘پھر تنظیم اسلامی قائم کی. پھر آپ نے تحریک خلافت لانچ کر دی اور بعدازاں تحریک خلافت کو ختم کر دیا گیا. کیا یہ کسی فکری کنفیوژن کا معاملہ تو نہیں تھا؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

اصل میں تو یہ مراحل (steps) ہیں. میں نے جو کام شروع کیا تھا وہ کسی تحریری بنیاد پر نہیں تھا. جیسے مولانا مودودیؒ کا سارا معاملہ تحریر یعنی کتابوں کی تصنیف کی بنیاد پر تھا. میں نے درسِ قرآن کے حوالے سے لاہور میں 1966ء سے کام شروع کیا. اس سے میرے ہم خیال لوگوں کا ایک حلقہ وجود میں آ یا. چنانچہ پہلے میں نے مرکزی انجمن خدام القرآن قائم کی‘لیکن اس کے لیے بھی میں نے جو تجویز ماہنامہ میثاق میں شائع کی تھی‘اس میں لکھ دیا تھا کہ میرا اصل مقصد انجمن کا قیام نہیں ہے بلکہ یہ تو پہلا Step ہے جو میں اُٹھا رہا ہوں. میرے پیش نظر یہ ہے کہ بیعت کی بنیاد پر اقامت دین کے لیے جماعت بنائی جائے. چنانچہ تین سال بعد تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی گئی. میرے نزدیک یہ ایک ارتقاء کا پراسس ہے. 

سوال

تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

تنظیم اسلامی کا ہدف خلافت کا قیام ہے. اس اعتبار سے تنظیم اسلامی کی جدوجہد دراصل تحریک خلافت ہے. جیسے قیام پاکستان کی جدوجہد تحریک ِ پاکستان کہلاتی ہے اور اس تحریک کو اُٹھانے والی مسلم لیگ تھی. مسلم لیگ پارٹی کا نام تھا. تنظیم اسلامی بھی پارٹی کا نام ہے. چونکہ تنظیم اسلامی کا ہدف نظام خلافت قائم کرناہے‘اس اعتبار سے تحریک خلافت لانچ کی گئی. 

سوال

تنظیم اسلامی جو دعویٰ کرتی ہے کہ ہم اسلام کا نظام انقلابی طریقہ کار سے قائم کریں گے اور یہ انقلابی طریقہ کار آپ نے سیرت رسول سے اخذ کیا ہے. آپ اسے منہج انقلاب نبوی کا نام دیتے ہیں. منہج انقلاب نبوی  کے مراحل کے بارے میں مختصر ًا بتا دیں؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

اس بارے میں دو چیزیں میں Assert کرتا ہوں (1)انبیاء ورسل کی جماعت میں صرف حضور کے دست مبارک سے ایسا ہوا کہ ایک بالکل نئی حکومت ‘ایک نئی ریاست ‘ایک نیا معاشرہ وجود میںآ گیا .اور کسی نبی یا رسول کے ذریعے پہلے یہ کام نہیں ہوا. (2) دنیاوی اعتبار سے دنیامانتی ہے کہ جو انقلاب حضور نے برپا کیا تھا وہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب ہے. اس انقلاب کے عمل کو سمجھنے کے لیے میرے نزدیک واحد ذریعہ حضور کی سیرت ہے. اس کا جب میں نے مطالعہ کیا تو وہاں سے میں نے چھ مراحل اخذ کیے ہیں‘ اور اس میں ساتویں مرحلے کا اضافہ ہے جو انقلاب برپا ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے. بہرحال انقلاب کی تکمیل چھ مراحل میں ہوئی ہے.(1) سب سے پہلے یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی انقلابی فلسفہ یا نظریہ ہونا چاہیے جس کو پھیلایا جائے. اسلام کا انقلابی نظریہ توحید ہے . توحید کی تین پرتیں اس نظام کی بنیاد بنتی ہیں. ایک ہے عقیدے کی توحید.

دوسری ہے عمل کی توحید. اس میں اسلام کا اجتماعی نظام ہے یعنی سیاسی نظام وہ ہو گا جس میں حاکمیت اللہ کی ہو گی. اللہ اور اس کے رسول کو ہر شے پر برتری حاصل ہو گی. معاشی نظام وہ بنے گا جس میں ملکیت صرف اللہ کی ہے. انسان صرف امین ہو گا. اس میں کہیں سود اور جوئے کا معاملہ نہیں ہوگا. تیسرے یہ کہ معاشرتی اعتبار سے تمام انسان پیدائشی طور پر برابر ہیں‘کوئی اونچا نیچا نہیں. یہاں تک کہ مرد اور عورت مساوی ہیں. اس نظریے کو پھیلایا جائے. (2) اس کے بعد جو لوگ اس کو قبول کرلیں انھیں منظم کیا جائے. اس لیے کہ نظام کو جڑ سے اُکھاڑنا آسان کام نہیں. اس کے لیے زبردست جدوجہد کی ضرورت ہے جس میں جان اور مال کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا. یہ پارٹی حضورنے دو بنیادوں پر قایم فرمائی. پہلی بنیاد تو یہ تھی کہ آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں. اگر مانتے ہو تو تم مسلمان ہو گئے. اس کا مطلب یہ تھا کہ اب تمہیں میری اطاعت کرنی پڑے گی. میں جو بات کر رہا ہوں اللہ کی طرف سے کررہا ہوں. اس بنیاد پر ایک ڈسپلن خود بخود قائم ہو گیا. جب وہ تحریک آگے ایک تصادم کے مرحلے میں داخل ہونے لگی تو پھر آپ نے لوگوں سے بیعت لی کہ میں جو حکم دوں گا‘اسے مانو گے. تنظیم گویا انقلابی جدوجہد کا دوسرا مرحلہ ہوا. (3)پھر یہ کہ ان لوگوں کی تربیت ہونی چاہیے. تربیت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں. ڈسپلن کی عادت بھی ہو جائے اور ان میں جان و مال ہر شے کھپا دینے کے لیے آمادگی بھی پیدا ہو جائے. پھر یہ کہ ایک روحانی کیفیت بھی انہیں حاصل ہو جائے اور ان کی نیتوں میں اتنا خلوص پیدا ہو جائے کہ سوائے اللہ کی رضا اور آخرت کی جزا کے کوئی شے مطلوب نہ ہو ؎ 

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

ان تین کاموں سے حضور کے دور میں ایک حزب اللہ وجود میں آئی. (4) چوتھی بات یہ رہی کہ اس تمام عرصے میں جب تک کہ وہ جماعت مضبوط نہیں ہوگئی ‘ یہ حکم رہا کہ تمہارا کچھ بھی استہزا کیا جائے ‘تمہارے خلاف کوئی بھی جارحانہ اقدام ہو تواس پر صبر کرواور جوابی کارروائی نہ کرو. یہ 
passive resistance کا چوتھامرحلہ ہے. (5) اس کے بعد محسوس ہوا کہ ہمارے پاس طاقت اتنی ہے تو پھرحضور نے اقدام شروع کیا جسے active resistance کہا جا سکتا ہے. اس کی ابتدا قریش کے economic blockade سے ہوئی. قریش کے جو قافلے تجارت کے لیے بیرون ملک جاتے تھے وہ بدر کے پاس سے گزرتے تھے. آپ نے آٹھ مہمات کے ذریعے ان کا یہ راستہ مخدوش بنا دیا. گویا کہ ان کی لائف لائن پر آپؐ نے ہاتھ ڈال دیا. اسی طرح آپ نے آس پاس کے قبائل جو پہلے ایک طرح سے قریش کے حلیف تھے ان سے معاہدے کر لیے. ان میں سے کئی حضور کے ساتھ ہو گئے اور قریش کے مخالف ہو گئے جبکہ کچھ کہتے تھے کہ ہم نیوٹرل ہیں. لیکن دونوں حالتوں میں قریش کے سیاسی اثر و رسوخ کو دھچکا لگا. اس کے نتیجے میں قریش نے قدم اُٹھایا اور تصادم ہوا. (6)غزوۂ بدر سے چھٹا اور آخری مرحلہ یعنی مسلح تصادم شروع ہو گیا. چھ سال یہ تصادم جاری رہا. چونکہ پوری تیاری کے بعد یہ مرحلہ آیا تھا لہٰذا اللہ نے کامیابی عطا فرمائی. (7) ساتواں مرحلہ اس انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کا ہوتا ہے. 

سوال

کیا موجودہ دور میں ہم کسی حکومت سے جنگ کریں گے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

موجودہ دور میں یہ ہے کہ پہلے پانچ مرحلے تو جوں کے توں رہیں گے. لیکن کسی حکومت کے خلاف جنگ کا معاملہ اس دور میں آ کر قابل عمل (feasible) نہیں رہا ہے‘اگرچہ یہ جائز ہے . اگر حالات اس کی اجازت دیں تو اس کو ہم حرام نہیں کہہ سکتے‘لیکن feasible نہیں ہے. اس لیے کہ آج عوام نہتے ہیں اور حکومتوں کے پاس 5لاکھ ‘10 لاکھ فوجیں ہوتی ہیں جو پوری طرح مسلح ہیں. ان کے پاس ٹینک ہیں‘جہاز ہیں‘فوج ہے جوحکومت ِوقت کا حکم مانتی ہے. ظاہر بات ہے کہ حکومت ِوقت رائج نظام کی پاسبان ہوتی ہے. لہٰذا میرے نزدیک دورِ حاضر میں اس مرحلے کو ایک غیر مسلح جدوجہد کی حیثیت سے اختیار کیاجانا چاہیے. غیر مسلح جدوجہد کے تین مراحل ہیں. میں یہاں خاص طور پر گاندھی کا نام لوں گا. چونکہ اس میدان میں وہی شخص ہے جس نے یہ راستہ اختیار کیا. پہلا مرحلہ تھاکہ عدم تشدد پر مبنی عدم تعاون کی پالیسی کہ ہم تمہارا کپڑا نہیں پہنیں گے. ہم چرخہ کاتیں گے اور اس سے سوت بنائیں گے‘سوت سے کھدر بنائیں گے اور کھدر پہنیں گے لیکن تمہارا کپڑا نہیں پہنیں گے. اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی معیشت کو دھچکا لگا.

کپڑوں کے بڑے کارخانے بند ہو گئے. پھر اگلی سٹیج آئی عدم تشدد پر مبنی سول نافرمانی کی‘جس میں گاندھی نے کہا کہ سمندر میں پرماتما نے نمک پیدا کیا ہے‘ہم وہاں سے نمک بنائیں گے‘بازار سے نمک نہیں خریدیں گے. دراصل حکومت نے اس پر ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی. اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ حکومت کی ٹیکس پالیسی کو چیلنج کر رہے ہیں. اس پر لوگوں کو ماریں پڑیں‘انہوں نے لاٹھیاں کھائیں لیکن خود تشدد کا راستہ اختیار نہیںکیا. تیسری سٹیج ہندوستان میں آئی نہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ جب جنگ عظیم دوم چھڑ گئی تو اس میں ایک وقفہ آگیا اور جنگ عظیم دوم کے نتیجے میں برطانیہ طے کر چکا تھا کہ اسے یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرنا ہے. 

تیسری سٹیج ہمیں ایران میں آیت اللہ خمینی کی جدوجہد میں نظر آتی ہے. وہ ہے ’’غیر مسلح بغاوت‘‘ کہ لوگ سڑکوں پر آ گئے اور سسٹم کو بلاک کر دیا. اس کے نتیجے میں فوج نے پہلے ان پر فائرنگ بھی کی‘ہیلی کاپٹرز سے فائرنگ کی گئی اور لوگوں نے جانیں دیں. 20 سے 30 ہزار تک لوگوں کوجان سے ہاتھ دھونے پڑے‘لیکن بالآخر شاہ کو بھاگنا پڑا. یہ معاملہ اب دنیا میں بہت دہرایا جا رہا ہے. برازیل میں‘جارجیا میں‘یوکرائن میں اور کرغزستان میں ایسا ہی ہوا. جب عوامی ریلا آتا ہے تو حکومت بہہ جاتی ہے. کوئی اس میں مسلح مقابلہ نہیں ہوتا. میرے نزدیک آج کے دور میں اس طریقے کو اختیار کرنا زیادہ مناسب ہو گا. اس لیے کہ آج بہت بڑا فرق یہ واقع ہو چکا ہے کہ پہلے کوئی باقاعدہ منظم فوج نہیں تھی فرق صرف تعداد کا تھا. دونوں طرف تلواریں اور نیزے تھے. ان کے پاس بھی اونٹ اور گھوڑے تھے جبکہ دوسری طرف بھی اونٹ اور گھوڑے تھے. اگرچہ تعداد کا فرق بہت بڑا تھا لیکن نوعیت کا فرق زیادہ نہیں تھا. آج معاملہ بہت مختلف ہو گیا. بہرحال آج ایک مثبت معاملہ یہ ہوا کہ آج ریاست اور حکومت کے درمیان فرق ہے. شہری ریاست کے وفادار ہوتے ہیں ‘حکومت کے نہیں. حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا شہریوں کا حق ہے. حضرت حسین رضی اللہ عنہ ظاہر بات ہے اسلامی ریاست کے خلاف تو نہیں تھے‘یزید کے خلاف تھے لیکن انھیں ریاست کے مخالف سمجھا گیا. آج حکومت کو بدلنے کے دو راستے ہیں :الیکشن اور ایجی ٹیشن. ایجی ٹیشن کے ذریعے سے نظام بدلا جا سکتا ہے اور الیکشن کے ذریعے سے صرف اس نظام کو چلانے والے ہاتھ بدلے جا سکتے ہیں. 

سوال

منہج انقلاب نبوی کے چھٹے مرحلے میں آپ نے ایران کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ وہاں یکطرفہ تشدد ہوا اور غیر مسلح لوگ سامنے آ گئے. جس طرح کا عدم برداشت اور عدم تحمل کا معاملہ ہمارے معاشرے میں ہے‘کیا یہ ممکن ہے کہ ہماری قوم بھی ایسا کوئی مظاہرہ کر سکے گی ایسے مرحلے پر؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

اس کی بھی ایک شرط یہ ہے کہ ایسی مضبوط جماعت بن چکی ہو جو مظاہرے کو کنٹرول کر سکے. ظاہر بات ہے کہ اس قسم کے جو مظاہرے یا جلوس ہوتے ہیں وہاں حکومت وقت بھی اپنے آدمی بھیج کر ہنگامہ‘فساد اور توڑ پھوڑ شروع کرا دیتی ہے‘تاکہ انھیں جلوس کے خلاف کارروائی کا جو از مل جائے. لیکن یہ کہ اگر کوئی جماعت اتنی مضبوط بن چکی ہو اور اس کے بعد یہ مرحلہ آئے تو وہ جماعت ذمہ داری لے گی کہ اس مظاہرے میں کوئی غلط کام نہ ہو. اس کے لیے بھی میں گاندھی کی مثال دوں گا.جیسا کہ حضور نے فرمایا: ’’ حکمت اور دانائی کی بات مومن کی گمشدہ متاع کی مانند ہے. جہاں سے بھی ملے اس کو لے لے‘‘.لہٰذا اگر کوئی درست بات کسی غیر مسلم نے کی ہے تو اُسے لینے میں کوئی حرج نہیں. جب گاندھی کی تحریک دوسرے مرحلے میں تھی تو اس وقت ایک جلوس میں تشدد کا معاملہ ہو گیا. پولیس نے تشدد کیا تو جلوس نے جاکر تھانے کا گھیراؤ کر لیا اور آگ لگا دی. چنانچہ بہت سے پولیس والے تھانے کے اندر مر گئے. گاندھی نے فوراً موومنٹ کال آف کر دی. یہ جو گاندھی نے عدم تشدد کی بات کی ہے ‘اس کے بارے میں اس کا اپنا قول دوو اسطوں سے مجھ تک پہنچا ہے. گاندھی نے یہ بات سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان مرحوم سے کہی اور انہوں نے میم شین(میاں محمد شفیع) مرحوم کو بتایا. گاندھی نے کہا تھا کہ میں نے عدم تشدد حضرت مسیحؑ اور حضرت محمد سے سیکھا ہے. حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور قول ہے کہ کوئی تمہارے داہنے گال پہ تھپڑ مارے تو بایاں بھی پیش کر دو. حضور بھی مکے میں بارہ برس اسی اُصول پر کاربند تھے.مکہ میں قرآن کا حکم تھا: ’’اپنے ہاتھ باندھے رکھو.‘‘ 

سوال

آپ متعدد بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اقامت دین کی جدوجہدایک مسلمان پر اسی طرح فرض ہے جس طرح پنج وقتہ نماز. اگر کوئی مسلمان اقامت ِ دین کی جدوجہد نہیں کرتا تو وہ آخرت میں اُسی طرح سزاوار ہو گا جس طرح نماز کو ترک کرنے والا ؟ 


ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

تھوڑی سی ترمیم اس میں کر لیجیے کہ میں یہ کہتا ہوں کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد اہل ایمان پر فرض ہے.قرآن کی رُو سے اسلام اور ایمان میں فرق ہے. 

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ 
: (الحجرات:14) 

’’دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ (یوں) کہوں کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان توابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا.‘‘ جب ایمان دل میں داخل ہو جائے گا تو اس کا لازمی نتیجہ جہاد فی سبیل اللہ یعنی اقامت دین کی جدوجہد ہے. جو شخص یہ جدوجہد نہیں کرتا وہ گنہگار ہے. جس طرح کوئی نماز نہیں پڑھتا تو وہ گنہگار ہو گا اور اللہ کے ہاں سزا پائے گا. اسی طرح اگر کوئی یہ نہیں کرتا ہے توسزا پائے گا. 

البتہ اس میں تھوڑا سا فرق یہ ہو جائے گا کہ چونکہ ہمارے عام معاشرے میں نماز‘روزہ‘حج اور زکوٰۃ کے بارے میں تو یہ بات معروف ہے کہ یہ فرائض ہیں اور چاہے کوئی شخص نماز نہ پڑھتا ہو وہ یہ جانتا ہے کہ نماز فرض ہے. روزہ رکھے یا نہ رکھے یہ جانتا ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہیں. لیکن اقامت دین کی جدوجہد کا تصور ہی لوگوں کے ذہن سے محو ہو گیا ہے‘جسے باور کرانے کی ضرورت ہے. تاہم اس کا حوالہ ایمان کے ساتھ دینا چاہیے. اس لیے کہ ارکان اسلام تو پانچ ہی ہیں‘کسی چھٹے رکن کا ہم اضافہ نہیں کر سکتے. البتہ ایمان کی شکل میں دو رکن اور بڑھ جاتے ہیں اور وہ ہیں: ایک دل میں یقین اور دوسرا عمل میں جہاد فی سبیل اللہ. اگرچہ جہاد فی سبیل اللہ کے مختلف مراحل ہیں‘لیکن اس کا آخری ہدف دین کو قائم کرنا ہے ‘تاکہ پوری انسانی زندگی دین کے تابع ہو جائے. 

سوال

ڈاکٹر صاحب! آپ ایک بات زور دے کر کہتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے پاکستان میں اسلام بحیثیت نظام نہیں نافذ ہو سکتا اور مذہبی جماعتوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے اسلام کی منزل مزید دور ہو گئی ہے. اسی لیے آپ نے انقلابی طریقہ کار اختیار کیا. لیکن آپ کے اختیار کردہ انقلابی طریقہ کا عوام کی طرف سے کوئی response نظر نہیں آتا. اس کے مقابلے میں اسلامی جماعتیں کہتی ہیں کہ اگرچہ ہم اسلام نافذ نہیں کر سکے لیکن ہم نے انتخابی سیاست کے ذریعے پارلیمنٹ میں جا کر سیکولرازم اور سوشلزم کا راستہ روکا ہے. آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

سوال یہ نہیں کہ لوگوں کا response کیا ہے ‘کیا نہیں ہے. یہ کسی بھی قائد یا کسی بھی جماعت کے بس کا معاملہ نہیں ہے. یہ تواللہ تعالیٰ ہی ہے جولوگوں کے دل میں بات ڈال دیتاہے تو …’’ کسی جماعت یاکسی تحریک کی طرف متوجہ ہوتے ہیں. لیکن اُصولی اعتبار سے الیکشن کے ذریعے سے اسلامی نظام نافذ نہیں ہو سکتا. انتخابی عمل کسی نظام کو چلانے کے لیے ہوتا ہے جبکہ اس نظام کوبدلنے کے لیے انقلاب لایا جاتا ہے. مثال کے طور پر امریکہ میں دو سیاسی پارٹیاں ہیں: ری پبلکن اور ڈیموکریٹک. الیکشن ان کے درمیان ہی ہوتا ہے. ان دونوں میں امریکہ کے نظام کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے. تھوڑا سا فرق ہو گا مثلاً امیگریشن پالیسی میں فرق ہو جائے گا‘ہیلتھ پالیسی میں فرق ہو جائے گا وغیرہ. وہ عوام کے سامنے منشور لے کر جاتے ہیں اور الیکشن میں ووٹرز فیصلہ کرتے ہیں. اس طرح برطانیہ میں کنزرویٹوز اور لیبر پارٹی ہے. ان میں نظام کے بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے. نظام کا اختلاف کمیونسٹوں کو ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام غلط ہے. ظاہر ہے ‘وہ الیکشن میں آکر نظام نہیں بدل سکتے تھے. چنانچہ انہوں نے اپنے طریق کار کے مطابق اپنی دعوت پیش کی‘ایک طبقاتی شعور پیدا کیا‘پھرایک جدوجہد شروع کی اور اس کے نتیجے میں پھر فوجوں کا بھی مقابلہ کیا‘جانیں دیں اور انقلاب برپا کیا. بہرحال انتخابات کے ذریعے سے کسی بھی نظام کو بدلا نہیں جا سکتا. البتہ ہر کام کا کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا ہے. الیکشن میں حصہ لے کر لوگ پارلیمنٹ میں جائیں گے تو کچھ نہ کچھ فائدہ ہو جائے گا. لیکن ہدف اگر نظام کا بدلنا ہے اور اسلامی نظام کا قائم کرنا ہے تو اس کے لیے الیکشن کا راستہ بالکل بے کار ہے. 

سوال

آپ منبر رسول ؐ سے حکومتوں اور اپوزیشن کو سیاسی مشورے دیتے رہے ‘جن میں آپ نے جمہوریت کو طرزِ حکومت کے طو رپر مارشل لاء سے بہتر قرار دیا اور جب بھی انتخابات کا موقع آیا آپ نے صاف شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا مطالبہ کیا. لیکن آپ کی اپنی جماعت میں جمہوریت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی. آپ نے اپنے بیٹے کو اگلا امیر نامزد کر دیا. آپ اس کو کس طرح تعبیرکرتے ہیں؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

پہلی بات یہ ہے کہ حکومت اور جماعت کا معاملہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف چیزیں ہیں .ان کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا. حکومت وہ ہوتی ہے کہ جس کی ایک teritorial jurisdiction ہوتی ہے. یہاں رہنے والے جتنے بھی لوگ ہیں وہ سب اس حکومت کے حقدار ہیں. وہ اس مملکت کے ممبر ہیں‘شہری ہیں. لہٰذا ان کے لیے حکومت بھی ان کی مرضی سے وجود میں آنی چاہیے. جبکہ جماعت یا پارٹی کی کوئی teritorial jurisdiction نہیں ہے. جماعت میں جو شخص جب چاہے شامل ہو جائے‘جب چاہے اُسے چھوڑ کر چلا جائے. اس اعتبار سے ان کو گڈمڈ کرنا صحیح نہیں ہے. انقلابی جماعت ہمیشہ کسی ایک قائد کی دعوت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے. جمہوری جماعت کی بنیاد پر نہ کوئی انقلاب دنیا میں آیا ہے نہ آئے گا. مثلاً قائداعظم کو جب مسلم لیگ کا تاحیات صدر بنا دیا گیا تب وہ حرکت میں آئی تھی. اس سے پہلے وہ ایک کلب‘ایک انجمن کی طرح تھی. قائداعظم نے مسلم لیگ کے ذریعے آزادی کی تحریک برپا کی. اب مسلم لیگ ایک تحریک تھی‘مسلم لیگ جماعت بن ہی نہیں سکی. چنانچہ جب پاکستان بن گیاجو تحریک کا ہدف تھا تو مسلم لیگ بھی ختم ہو گئی. اس کے برعکس کسی انقلابی جدوجہد کے لیے نظم و نسق‘سمع و طاعت اور ڈسپلن کی بنیاد پر مضبوط جماعت قائم ہونا ضروری ہے. اس جماعت میں اگرچہ مشورہ ہوگا لیکن آخری فیصلہ قائد کا ہی ہوگا.

دوسری بات یہ ہے کہ تنظیم اسلامی میں اگر میں نے اپنے بیٹے کو نامزد کیا ہے تو پہلے دن 
سے یہ تنظیم کے قواعد و ضوابط میں طے تھا کہ میں اپنی زندگی میں کسی وجہ سے مثلاً معذور ہو جاؤں وغیرہ تو میں کسی کو اپنا جانشین نامزد کر سکتا ہوں. تنظیم اسلامی کے دستور میں اس کی گنجائش تھی. اس کے باوجود میں نے امیر کی نامزدگی کے لیے بہت مفصل مشورے کیے ہیں. ان کی ایک لمبی تاریخ ہے .وہ ریکارڈ پر بھی ہے کہ کتنے اجلاس ہوئے‘کتنے مشورے ہوئے‘پھر اس معاملے میں خوب غور وفکر ہوا. آخر تک میرے ذہن میں عزیزم حافظ عاکف سعید کا نام تھا ہی نہیں ‘بلکہ میں نے تو اپنی وصیت کے طور پر کسی اور کا نام لکھ رکھا تھا. بہرحال مشورے کے دوران جو باتیں سامنے آئیں اُن کی بنا پر میں نے سمجھا کہ عاکف سعید ہی امارت کے لیے موزوں ترین ہیں. ظاہر ہے میرا بیٹا ہونا کوئیdisqaualification نہیں ہے. یہ بات تنظیم کے ایک سینئر رفیق عبداللطیف عقیلی صاحب نے مجھ سے کہی تھی . لہٰذا میں نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے. 

سوال

آپ نے اپنے ایک بیٹے کی شادی محرم کے مہینے میں کی تھی .اس ماہ کو ایک فرقہ کے لوگ سوگ کے طور پر مناتے ہیں. کیا اس عمل سے ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچی؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ان کے جذبات اتنے Hurt ہوں گے‘جتنا کہ اس کے بعد یہ معاملہ ہوا. میری نیت کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ہر گز نہیں تھی. صورتِ حال یہ ہوئی تھی کہ تنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع ہو رہا تھا اور اس کے لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ 9 محرم اور 10 محرم کی دو چھٹیوں میں اجتماع رکھا جائے. ان کے ساتھ دور دراز سے آنے والے رفقاء ایک آدھ دن کی اور چھٹی لے لیں گے تو ان کو سہولت ہو جائے گی اور ان کی دوسری چھٹیوں میں سے کٹوتی نہیں ہوگی. اس وقت میں نے سوچا کہ ہمارے سارے ساتھی لاہور آئے ہوئے ہیں تو بیٹے کا نکاح انہی دنوں میں ہو جائے. بعد میں بہت سے شیعہ علماء نے بھی کہا کہ یہ کوئی حرام بات نہیں ہے ‘لیکن ہمارے جذبات اس کام سے مجروح ضرور ہوئے ہیں. مجھے اس معاملے کی شدت کا اندازہ ہوتا تو میں یہ شادی ان دنوں میں نہ کرتا. 

سوال

آپ ضیاء الحق کی شوریٰ کے رُکن بنے. کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق صاحب نے اسلام کا نعرہ طوالت اقتدارکے لیے لگایا اور انتخابات کے بارے میں وہ جھوٹے وعدے کرتے رہے. آپ ایسے شخص کی شوریٰ میں یا اس کے اقتدار میں حصہ دار کیوں بنے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

اس کے لیے تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا ضروری ہو گا. جس زمانے میں میرا درسِ قرآن مسجد خضراء سمن آباد لاہورمیں ہوتا تھا. ضیاء الحق صاحب جو اس وقت یہاں پر کور کمانڈر تھے‘سویلین لباس میں آ کریہ درس سنا کرتے تھے. (یہ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا)اس کے بعد ایسا ہوا کہ جب میں نے مولانا اصلاحی صاحب کی تفسیر تدبر قرآن کی پہلی جلد شائع کی تو ایک میجر صاحب آرمی جیپ میں کرشن نگر میرے آفس دارالاشاعت اسلامیہ آئے اور تفسیر کی وہ جلد لے کر گئے. انہوں نے بتایا کہ میجر جنرل صاحب نے منگوائی ہے. میں حیران ہوا کہ ایک آرمی آفیسر کی اتنی دلچسپی ہے. اس کے بعد جب ان کی حکومت آ گئی ہے تو انہوں نے پی این اے کی تحریک کو ہائی جیک کیا ‘جس کی وجہ سے لوگوں میں اسلام کے حوالے سے جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا. وہ اسی اسلام کا نعرہ لگا کر اور کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آ گئے. ظاہر بات ہے کہ ہم کسی کی کے دل میں اُتر کر نہیں دیکھ سکتے کہ اُس کی نیت کیا ہے. وہ تو بعد میں حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اس شخص کی نیت کیا تھی یا مقصد کیاتھا؟ جس زور و شور سے انہوں نے اسلام کا نام لیااُس سے ہم نے سمجھا کہ شاید انہی کے ہاتھوں سے یہ کام ہو جائے. ہمیں تو اسلام کا کام مطلوب ہے. انہوں نے پہلے مجھے وزارت کی آفر کی. 

1980ء میں جو پہلی کابینہ بنی تھی جن میں جماعت ِ اسلامی اور جے یو آئی کے لوگ شامل تھے‘ اس کو انہوں نے برطرف کر دیا تھا. اس کے بعد وہ عمرے کے لیے جا رہے تھے اور کراچی میں چند دن ٹھہرے تھے. ان دنوں میں بھی کراچی میں تھا. میرے بڑے بیٹے عزیزم عارف رشید کا وہاں نکاح تھا. وہاں میرے پاس ضیاء الحق مرحوم کے برادر نسبتی ڈاکٹر نور الٰہی صاحب آئے. وہ سرجن تھے‘بڑے نیک آدمی تھے. انہوں نے آ کر کہا کہ ضیاء الحق صاحب کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اگر کام کرنا ہے تو میدان میں آئیں‘میں عمرے سے واپس آ کر نئی کابینہ کا اعلان کروں گا‘وہ کوئی وزارت سنبھالیں اور کام کریں. میں نے انھیں دو ٹوک جواب دیا کہ دو وجوہات سے میری معذرت ہے. ایک تو میرے اندر اس کام کی صلاحیت نہیں ہے‘میں کاریڈور آف پاورز میں گھوما پھرا نہیں
ہوں. مجھے یہاں کے آداب اور طور طریقوں کا علم ہی نہیں. دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ ہمیں کرنے کچھ نہیں دیں گے. اصل حکومت تو فوج کی ہے اور بدنامی ہمارے حصے میں آئے گی کہ ہم وزارت میں کچھ نہیں کر سکے. لہٰذا اس کے لیے میں تیار نہیں. بہرحال یہ پہلا مرحلہ تھا.

اس کے بعد شوریٰ کا مرحلہ آیا. اسی دوران میں یہ بات بھی ہوئی کہ صدر صاحب مسجد دارالسلام باغِ جناح میں جمعہ کی نماز کے لیے آئے. پہلی صف میں ان کے لیے جگہ رکھی گئی تھی. میں نے دو باتیں خاص طور پر کہیں. ایک تو یہ کہ آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ کے دور میں لڑکیوں کی پہلی ہاکی ٹیم ملک سے باہر جا رہی ہے. جس اسلام کا آپ نام لیتے ہیں ‘کیا اس میں اس کی اجازت ہے؟ واقعتا میری بات سن کر انہوں نے اسی روز اعلان کر دیا کہ خواتین کی ہاکی ٹیم باہر نہیں جائے گی. دوسری میں نے کرکٹ کے بارے میں بات کی تھی جس کو انہوں نے اہمیت نہیں دی. اسی زمانے میں ڈاکٹر ابصار احمد میرے چھوٹے بھائی قرآن اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے. ان کو وزارت اطلاعات کی طرف سے ایک پروپوزل ملی کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر میرا ایک دینی پروگرام ہونا چاہیے. اس کے بعد پی ٹی وی لاہور والوں نے مجھ سے بات کی ‘تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے‘ہفتہ وار درس ہو سکتا ہے. چنانچہ الہدیٰ کے نام سے ٹی وی پر یہ درس شروع ہو گیا جو کافی عرصہ چلتا رہا. اس پس منظر میں جب ضیاء الحق صاحب کی طرف سے شوریٰ کی بات آئی تو میں نے سوچا کہ جب میں منبر سے انہیں مشورے دیتا ہوں‘تنقیدیں بھی کرتا ہوں.( ہم چاہیں یا نہ چاہیں حکومت تو ان کی ہے اورملک کی بہتری کے لیے حکمران کو مشورے دینا یا کسی غلط بات پر روکنا ٹوکنا اچھی بات ہے. )تو اگرکوئی بات سامنے جا کر کی جا ئے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں. اس دلیل سے میں نے شوریٰ میں جانا منظور کر لیا. 

مجلس شوریٰ میں جا کر میں نے دیکھا کہ اس کے سارے اُصول و ضوابط اور لائحہ عمل پارلیمنٹ کا بنا دیا گیا .تو میں نے سوچا کہ یہ تو وقت ضائع ہونے والی بات ہے. چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے شوریٰ کی بات کی تھی‘شوریٰ اگر ہے تو آپ کو یہاں ہونا چاہیے‘مشورہ سننا چاہیے. کہنے لگے :میں شوریٰ میں نہ آؤں‘تب بھی یہ بات مجھ تک پہنچ جاتی ہے. یہ پہلے ہی سیشن کی بات ہے. دوسرا سیشن ہوا تو انہوں نے ایک بات ایسی کہہ 
دی کہ لوگ کہتے ہیں کہ سیاسی عمل کو مت روکوجبکہ یہی شوریٰ میرا سیاسی عمل ہے. اِس پر میرے کان کھڑے ہوئے کہ انہوں نے گویا کہ ہمیں اپنا سیاسی اتحادی قرار دے دیا ہے. میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ میں استعفادے دوں گا. مجھے اس دوران یہ بھی محسوس ہو گیا تھا کہ یہ کچھ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں. یہ صرف امریکہ کی عوامی رائے عامہ کویہ بتانے کے لیے ڈراما رچایا گیا ہے کہ میری حکومت خالص فوجی نہیں ہے بلکہ اس میں سویلینز بھی میرے ساتھ ہیں . لہٰذا میں نے ان سے ملاقات کا ٹائم مانگا‘ لیکن وہ ٹائم نہیں دے سکے اور کہنے لگے میں چند دنوں میں لاہور آ رہا ہوں‘ وہاں پر گورنر ہاؤس میں ملاقات کر لیں گے. وہ آئے اور انہوں نے پیغام بھیج دیا کہ فلاں وقت آپ گورنر ہاؤس آ جائیں‘میں وہاں چلا گیا. 

گورنر ہاؤس جا کر میں نے ایک خاص نکتہ ان کے سامنے رکھا. میں نے کہا کہ آپ اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لیے پھر رہے ہیں (میں نے یہ محاورے کے طور پر استعمال کیا تھا ‘پھرمجھے احساس ہوا کہ ان کے ماتھے پر تو محراب بن گیا ہے). میں نے کہا کہ آپ نے فیڈرل شریعت کورٹ قائم کی‘اپنی مرضی کے علماء کو وہاں ججز بنایا‘لیکن آپ نے ان کے ہاتھ پر گویا ایک ہتھکڑی باندھ دی کہ وہ مسلم فیملی لاز پر بات بھی نہیں کر سکتے. آپ نے اپنے پسندیدہ علماء کو وہاں بٹھایا ہے تو ان پر اعتبار کریں اور ان کی ہتھکڑی کھول دیں. میں نے یہ بھی کہا کہ غلام احمد پرویز (جو اس وقت ڈپٹی سیکریٹری تھا اور جس نے صدر ایوب کے ذریعے سے فیملی آرڈی نینس جاری کروایا تھا .) اگر عدالت میں آ کر ثابت کر دیں کہ یہ قوانین شریعت کے خلاف نہیں تو پھر ہمیں ان پر کوئی اعتراض نہیں. وہ کہنے لگے کہ پھر خواتین کو کیسے مطمئن کریں گے. میں نے کہا کہ اگر یہی آپ کی سوچ کا معیار ہے تو میرا استعفاحاضر ہے ‘میں جا رہا ہوں. یہ واقعہ 5 جولائی 1982ء کو ہوا. میں نے شوریٰ کے صرف دو سیشن میں شرکت کی‘ضیاء الحق صاحب چونکہ اپنی حکومت کوطول دینے کرنے کے لیے ہر طبقے کو خوش کرنا چاہتے تھے.یعنی خواتین کو بھی راضی کرنا ہے‘ایکٹروں کو بھی‘گلوکاروں کو بھی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت چلانی ہے. لہٰذا میں شوریٰ سے الگ ہو گیا. 


سوال

ڈاکٹر صاحب! گزشتہ چند سال سے آپ نے پاکستان کے بارے میں جو تقاریر کی ہیں ان سے بہت مایوسی بہت ہے ‘بلکہ آپ نے اس عنوان سے بھی ایک تقریر کی تھی کہ کیاپاکستان کے خاتمے کی اُلٹی گنتی شروع ہو چکی ہے؟‘‘ کیا اس طرح کی باتوں سے قوم کا مورال ڈاؤن نہیں ہوتا؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

کہاوت ہے کہ برتن میں جو ہوتا ہے‘وہی ٹپکتا ہے. اب میرے ذہن میں جو کچھ ہے وہی باہر آ ئے گا. زمینی حقائق دیکھتے ہوئے میں واقعتا پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو چکا ہوں. میری مایوسی کی دو بڑی بنیادیں ہیں. ایک تو یہ کہ پاکستان کے قیام کے دو محرکات تھے‘ایک منفی اور ایک مثبت. منفی محرک تھا ہندو کا یہ خوف تھاکہ ہندو اپنی اکثریت کے بل پر ہمارا استحصال کرے گا. یہی خوف تھا جس کی بنیاد پر مسلم لیگ قائم ہوئی. 1906ء سے لے کر 1930ء تک مسلم لیگ کے پاس کوئی دوسرا عنصر تھا ہی نہیں. جہاں تک قائداعظم کا تعلق ہے وہ مسلم لیگ کے بنانے والوں میں سے نہیں تھے.اس وقت وہ مسٹر جناح تھے ‘ابھی قائداعظم نہیں کہلائے تھے. وہ دادا بھائی نوروجی کے پرنسپل سیکرٹری اور کانگریس کے ممبر تھے. مسلم لیگ میں نہیں آئے تھے.وہ 1913ء میں محمد علی جوہر مرحوم کے کہنے پر مسلم لیگ میں آئے لیکن بیک وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے رکن تھے. ایک دفعہ انہوں نے دونوں کے سالانہ اجلاس بمبئی میں ایک ہی وقت میں رکھوائے اور سر توڑ کوشش کی کہ ہندئوں اورمسلمانوں کے درمیان کوئی فارمولا طے ہو جائے‘جس سے مسلمانوں کا ایک تشخص برقرار رہے اور انہیں تحفظ حاصل ہو جائے ‘لیکن وہ اس کوشش میں بالکل ناکام ہو گئے. حالانکہ ان کی محنت اور اخلاص کے باعث دنیا نے مانا کہ محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہیں. اس کے بعد وہ مایوس ہو کر لندن چلے گئے اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور وہاں پریکٹس شروع کر دی. 

اسی عرصے میں 1930ء میں علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے الٰہ آباد سیشن میں خطبہ دیا. اس میں انہوں نے مسلم لیگ میں ایک مثبت انجکشن لگا دیا. یعنی اُسے احیائے اسلام کا جذبہ دے دیا. انہوں نے ایک تو مسلم قومیت کو فلسفیانہ بنیادوں پر ثابت کیا اور واضح کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے اور کسی بڑی قومیت میں ضم نہیں ہو سکتے. دوسرے انہوں نے کہا 
کہ یہ تقدیر مبرم ہے کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک آزاد مسلمان حکومت قائم ہو گی. تیسرے یہ کہ اگر ایسا ہو گیا تو ہمیں موقع مل جائے گا کہ اسلام کے چہرے پر جو بدنما داغ دھبے ملوکیت کے دور میں آگئے تھے‘انھیں ہٹا کر حقیقی اسلام کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرسکیں. اس کے بعد 1932ء میں علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلینڈ گئے. وہاں انہوں نے مسٹر جناح سے ذاتی ملاقاتیں کیں. اس میں علامہ نے وہی انجکشن جناح صاحب کو لگایا کہ اسلام کے احیاء کی بات کرو‘کیونکہ ہمیں تو یہ کام کرنا ہے کہ اسلام ایک نظام کی حیثیت سے دنیا میں قائم ہو جائے. اس انجکشن کے نتیجے میں مسٹر محمد علی جناح واپس ہندوستان آئے. یہاں آ کر بھی ان کا قرب علامہ اقبال کے ساتھ رہا. اب انہوں نے 1937ء سے لے کر 1947ء تک اسلام کا راگ الاپا‘جس سے اس تحریک میں ایک کرنٹ دوڑ گیا. دراصل کرنٹ کا سرکٹ چلانے کے لیے منفی اور مثبت دونوں تاریں ضروری ہیں . اسی طرح اس منفی اور مثبت جذبے کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا. 

قیام پاکستان کی جو مثبت بنیاد تھی وہ تو ہم نے قائم کی ہی نہیں. چنانچہ ساٹھ سال (اب 66سال) ہو گئے وہ اسلام کہاں ہے؟ یہاں اگر مسجدیں ہیں تو مسجدیں انڈیا میں بھی ہیں. ایک سے بڑھ کرایک بڑی شاندار مسجد ہے. وہ تو چند تاریخی مساجد ہیں جن کے بارے میں انتہا پسند ہندو کہتے ہیں کہ ان کو ہم گرائیں گے کہ یہ مندروں پر بنائی گئی ہیں ‘جبکہ وہاں پر اب بھی نئی مسجدیں بن رہی ہیں.مسجدیں تو امریکہ میں بھی بن رہی ہیں. سوال یہ ہے کہ وہ نظام کہاں ہے‘جس بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے سامنے اسلام کے اُصولِ حریت و اخوت و مساوات کا ایک نمونہ پیش کر سکیں؟

مثبت اساس توہم نے قائم ہی نہیں کی. نتیجہ یہ ہے کہ اب منفی بھی اب ختم ہو رہی ہے. اب امریکہ کے دباؤ کے تحت ہم ہندوستان کے آگے بچھے جا رہے ہیں. ہماری طرف سے بار بار کہا جاتا ہے کہ مذاکرات جاری رہنے چاہئیں.ہم لچک پر لچک دکھا رہے ہیں. اس کے علاوہ انڈیا سے جو آمدورفت شروع ہوئی ہے اگر یہ بڑے پیمانے پر شروع ہو گئی تواس کے بھیانک نتائج نکلیں گے. ابھی تو صرف ہلکا سا اثر آ رہا ہے. اب تو یہ ہے کہ ان کے طائفے آگئے یا ہمارے اُدھر چلے گئے. صحافی آ گئے‘کاروباری آ گئے.اسی سے فضا بدل گئی ہے. حالانکہ انڈیا کا حال میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ وہاں کی مڈل کلاس اور ایلیٹ اَپر کلاس خالص سیکولر ہے. وہاں مذہب کی کوئی حیثیت ہی نہیں. بہت چھوٹے طبقات کے اندر مذہب ہے‘جسے مذہبی جماعتیں exploit کرتی ہیں. وہ لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم اپنے گھر میں رہو‘نماز پڑھو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے. بہرحال ہماری اس لچک سے یہ جو خوف کی منفی بنیاد تھی وہ بھی ختم ہو گئی‘ اور ہم آہستہ آہستہ بھارت کی بالادستی قبول کر رہے ہیں.یہ چیزیں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں میرے ذہن میں کچھ نا اُمیدی کی سی کیفیات پیدا کر رہی ہیں. 

سوال

آپ نے مثبت بنیاد کی بات کی ہے کہ اسلام بحیثیت نظام نافذ نہیں ہوا. لیکن جو منفی بنیاد ہے اس میں تو کمی بیشی ہوتی رہتی ہے. بھارت سے ہماری دوستی ممکن نہیں. پھر آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ منفی بنیاد بھی ختم ہو رہی ہے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

دراصل اُوپر نیچے ہوتے ہوتے بھی ایک چیز اُوپر جا رہی ہے. اس لیے کہ آج سے پہلے کسی ہندوستانی لیڈر کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی تھی کہ کنفیڈریشن ہونی چاہیے. آج سے پہلے کسی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے آ کریہ نہیں کہا تھا کہ یہ لکیر ختم کر دینی چاہیے. مہاراجہ پٹیالہ کا بیٹا انڈین پنجاب کا وزیراعلیٰ دو دفعہ یہ بات یہاں آ کر کہہ گیا. اب تو یونائیٹڈ سٹیٹس آف انڈیا کی باتیں ہو رہی ہیں. امریکا کھلے عام کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ اور بھارت مل کر کریں گے. تھنک ٹینکس جو پہلے کہہ رہے تھے کہ 2014ء میں پاکستان نہیں ہو گا‘اب 2020ء میں پاکستان کے خاتمے کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں. بقول شاعر ؎ 

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا!

صحیح بات یہ ہے کہ آپ اپنی نوجوان نسل سے بات کر کے دیکھیں وہ بالکل نہیں جانتے کہ پاکستان کیوں بنا تھا؟وہ نہیں جانتے کہ لاکھوں لوگوں کی جانوں کی قربانی دے کر یہ ملک اسلام کے لیے بنایا گیا تھا. آج وہ اسلام کہاں ہے؟ ہم نے منفی اور مثبت دونوں بنیادوں سے انحراف کیا ہے. 

سوال

اس وقت عالم اسلام میں قحط الرجال کی کیفیت ہے. کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟ کیا کوئی ایسا دور آئے گا جس میں کوئی شخص امت مسلمہ کو کی قیادت کر سکے گا؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

حقیقتاً اس وقت تو ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے. اس حوالے سے میرا ایک مستقل فکر ہے جو میں نے کئی سال پہلے مرتب کیا تھا اور 1992ء میں کتابی شکل میں شائع ہوا. میں یہ سمجھتا ہوں کہ امت مسلمہ بحیثیت مجموعی اللہ کے عذاب کی گرفت میں ہے. جس قوم کو اللہ اپنی کتاب اور شریعت دیتا ہے وہ قوم زمین پر اللہ کی نمائندہ بن جاتی ہے. وہ قوم اگر اپنے عمل کے ذریعے اللہ کی صحیح نمائندگی نہ کرے تو پھر اُس پر اللہ کا بہت شدید عذاب آتا ہے. وہی عذاب جو ماضی میں یہود پر آیا تھا‘ وہی عذاب آج ہم پر مسلط ہے. آج وہی ذلت و مسکنت ہم پر تھوپ دی گئی. پاکستان بہت بڑا ملک ہے. یہ پورے عالم اسلام میں واحد ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں لیکن ہمارے سابق صدر نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا سے تعاون کرکے نہایت گھناؤنا کردار ادا کیا. اس حوالے سے اب تک جو تفصیلات آ چکی ہیں وہ انتہائی شرمناک ہیں. امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کولن پاول کے مطابق نائن الیون کے واقعہ کے فوراً بعد ہم وائٹ ہاؤس میں بیٹھے تھے اور ہم نے ایک لسٹ تیار کی تھی کہ اگر پرویز مشرف یہ مانگے گا تو دے دیں گے. یہ مانگے گا تو یہ بھی دے دیں‘لیکن جب ہم نے انھیں فون کیا کہ تو انہوں نے کوئی بات کی ہی نہیں. گویا پرویز مشرف غلام بے دام بننے کو تیار ہو گئے تھے. مسلم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ا نڈونیشا سب سے بڑا ملک ہے. لیکن پاکستان کی جیوپولیٹیکل بڑی اہمیت ہے. اس ملک کا حال یہ ہے کہ امریکی صدر کے ایک فون پر ہمارا کمانڈو صدراُس کے آگے بچھ گیا ‘تو اور کسی کی کیا بات کریں گے. لبنان کا جو معاملہ ہوا‘اب وہی معاملہ شام کا بھی ہوگا‘کیونکہ یہ ممالک گریٹر اسرائیل کے مجوزہ نقشے میں آتے ہیں. عراق ان کے پاس پہلے آ چکا ہے. پاکستان اگرچہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں نہیں ہے‘لیکن پاکستان سے انھیں اس لیے خوف ہے کہ یہ ایٹمی پاور ہے. صورتِ حال یہ ہے کہ امت مسلمہ اس وقت اللہ کے عذاب میں گرفتار ہے .وہ اللہ کی مجرم ہیں‘اسی لیے اُس پر سخت وقت آیا ہواہے. بہرحال وقت بدلے گا اور صحیح احادیث کی رُو سے حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ ؑکی صورت میں امت کو لیڈر میسر آئیں گے. ان کی رہنمائی میں قیامت سے قبل کل روئے ارضی پر اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا. 


سوال

امریکہ کی منصوبہ بندی ہے کہ ایک نیا مشرق وسطیٰ تشکیل دیا جائے. اس سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

یہ ناگزیر ہے‘ظاہر ہے گریٹر اسرائیل مشرق وسطیٰ میں بنے‘گا‘کیونکہ یہودیوں کے اس نقشہ میں لبنان‘شام اور جنوبی ترکی کا کچھ حصہ شامل ہے‘پھر اس میں پورا عراق بھی ہے. وہ پہلے کہتے تھے کہ ہماری سرحدیں فرات تک ہیں لیکن شیرون نے کہا تھا کہ ہم دجلہ تک گریٹر اسرائیل بنائیں گے‘تاکہ پورا دوآبہ اور زرخیز علاقہ بھی ہمارے ہاتھ میں آ جائے. اس کے علاوہ سعودی عرب کا شمالی حصہ (بشمول مدینہ منورہ) ‘پورا صحرائے سینا ‘اردن ‘مصر کا زرخیز ترین علاقہ ان کے نقشے میں شامل ہے. 

سوال

ڈاکٹر صاحب! اپنے حالات ِ زندگی بیان کر تے ہوئے آپ نے اپنے ذریعہ معاش کا کوئی ذکر نہیں کیا. مرکزی انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے قیام کے بعد آپ کا کیا ذریعہ معاش رہا؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

جب تک میں طالبعلم تھا ظاہر ہے کہ میں اخراجات کے لیے اپنے والد صاحب اور بڑے بھائی اظہار احمد صاحب مرحوم پر انحصار کرتا تھا. اس کے علاوہ مجھے وظائف وغیرہ بھی ملتے رہے. بعد ازاںمیں نے ایم بی بی ایس کر لیا توساہیوال میں جماعت ِ اسلامی کی ڈسپنسری کا چارج سنبھال لیا. اس کی تنخواہ ملتی رہی. اس وقت بھی میں taxpayer بن گیا تھا. اس کے بعد بڑے بھائی جان نے ایک بزنس شروع کیا ‘جس میں ان کے ساتھ تین سال رہا. اس کے بعد پھر ہماری علیحدگی ہوئی. ان تین سالوں کے نتیجے میں تقریباً 2 لاکھ روپے کے قریب میرے پاس سرمایہ موجود تھا ‘جس سے میں نے لاہور میں ایک مکان خریدا اور وہاں اپنا کلینک شروع کر دیا. وہیں ’’دارالاشاعت اسلامیہ ‘‘کے نام سے ایک پبلشنگ ادارہ بھی شروع کر دیا. 1965ء سے لے کر 1971ء تک میں پریکٹس بھی کرتا رہا اور درس قرآن بھی دیتا رہا. پھر فروری 1971ء میں میں نے فیصلہ کیا کہ اب پریکٹس نہیں کروں گا. اس لیے کہ میرے دعوتی‘تبلیغی اور تدریسی مشاغل بہت آگے بڑھ گئے تھے. اب ایک ہی شکل تھی یا تو میں ان کو رول بیک کروں یا کم از کم انہیں آگے نہ بڑھاؤں‘تاکہ میرے معاش کا معاملہ چلتا رہے. لیکن پھر میں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے پریکٹس چھوڑ دی. جو میرے پاس تھا ‘اس سے گزارہ ہوتا رہا . 

1972ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن قائم ہو گئی. اس کے آفس کے لیے سمن آباد میں ایک بڑا مکان کرائے پر لے لیا گیا. ادارے نے وہاں مجھے رہائش دے دی‘تاکہ میں ہمہ وقت انجمن کے لیے کام کر سکوں. میرا مکان کرائے پر دے دیا گیا ‘جس سے میں اپنا گزارہ کرتا رہا. کچھ عرصے کے بعد چھوٹے بھائی عزیزم اقتدار احمد نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہوں. میں نے ان سے کہا کہ اگر صرف بھائی ہونے کے ناتے تعاون کرنا چاہتے ہیں تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اور اگر تمہیں میرے مشن سے دلچسپی ہے اور اس میں حصہ لینا چاہتے ہو تو سر آنکھوں پر. انہوں نے کہا کہ میں مشن میں شریک ہوں گا. وہ انجمن میں شریک ہو گئے. اس کے کچھ عرصے بعد تنظیم اسلامی قائم ہوئی تو اس میں بھی شریک ہو گئے. اس دوران وہ مجھے کچھ سپورٹ کرتے رہے. انہوں نے اپنی ایک فیکٹری جو ملتان میں تھی اس میں بھی میرا حصہ ڈال دیا‘ جس سے وہ مجھے کچھ ماہانہ رقم دیتے رہے. 
جب تنظیم اسلامی قائم ہوئی تو میں نے اس کاروبار سے اپنا تعلق منقطع کرنا لازمی سمجھا. اس لیے کہ کسی بھی بزنس میں اکاؤنٹس وغیرہ کے معاملات صحیح نہیں ہوتے‘ٹیکس وغیرہ کے معاملات میں کوئی نہ کوئی کمی بیشی ہوتی ہے. لہٰذا میں نے سوچا کہ اب تنظیم کے امیر یا داعی کی حیثیت سے میرا کسی ایسے کاروبار سے تعلق درست نہیں ہے. پھرجب انجمن کا مرکز قرآن اکیڈمی بن گیا تو میں یہاں منتقل ہو گیا اوریہاں پر بھی مجھے تمام سہولتیں حاصل رہیں. مثلاً مکان‘بجلی‘پانی‘گیس کے بل‘ٹیلی فون وغیرہ. تاہم انجمن سے میں نے کوئی ایک پیسہ نہیں لیا. میری تمام کتابیں اور کیسٹس بھی انجمن کی ملکیت تھیں‘ان میں سے بھی ایک پیسہ رائیلٹی کا نہیں لیا. تنظیم سے بھی میں نے کبھی ایک پیسہ نہیں لیا. بہرحال اس کے بعد میں نے وہ مکان جو کرشن نگر میں تھا ‘بیچ دیا. اسی طرح جب اقتدار احمد کی کمپنی چھوڑی تو انہوں نے میرے شیئرز کے پیسے مجھے دے دیے. اس ساری رقم سے ایک پلاٹ خریدا اور وہاں پر چاروں بیٹوں کے لیے کوارٹر بنا دیے. اس کے بعد دال روٹی بیٹوں کے حوالے سے چلتی رہی. 


سوال

خواتین کے پردے کے معاملے میں آپ کی گفتگو میں بہت شدت پائی جاتی ہے. اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں‘ایک تو یہ کہ دین کا حکم ہے اور ایک یہ ہے کہ ہماری بعض علاقائی روایات ہیں. آپ کا پردہ کے معاملے میں اتنی شدت سے قائل ہونا دین کی بنیاد پر تھا یا آبائی ماحول کی وجہ سے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

بالکل قطعیت کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ میرا موقف خالص دین کی بنیادپر ہے. البتہ اس میں دین کے ساتھ commen sense کا بھی اضافہ کر لیا جائے تو بات سمجھ میں آ جائے گی. ورنہ میں جس علاقے میں پیدا ہوا ہوں وہاں کوئی خاص پردہ نہیں تھا. وہاں شرفاء کے طبقہ میں پردہ ہوتا تھا لیکن عوامی سطح پر پردہ نہیں تھا. اس کے علاوہ ہندوؤں میں کہاں پردہ تھا. قرآن مجید میں سورۃ الاحزاب اور سورۃ النور کی آیات سے میں نے جونتائج اخذ کیے ہیں اس کی بنا پر میرا موقف شدت کے ساتھ اس پر قائم ہوا ہے. کامن سینس کے حوالے سے بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ماڈرن نفسیات کا بابا آدم فرائڈ کہتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی جنسی جذبہ کا ہے. اس کی یہ بات ایک حد تک صحیح ہے. اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو خاندان بنتے کیسے؟ یہ دنیا کا کاروبار آگے کیسے بڑھتا. اولاد ہوتی ہے تو اس کی محبت میں انسان خاندان کا بوجھ اُٹھاتا ہے. لہٰذا جو جذبہ جتنا زوردار ہو گا اسے اتنی ہی لگام دینی پڑے گی. ورنہ وہ منہ زور گھوڑا مادر پدر آزاد ہو جائے گا. 

اس پہلو سے میں چار پردوں کا قائل ہوں. ایک پردہ جو کہ پورے معاشرے میں ہو گا. عورتوںاور مردوں کا مخلوط معاشرہ نہیں ہوگا بلکہ Segregative سوسائٹی ہو گی. دوسرا گھر کے باہر کا پردہ ہے عورت کی اصل جگہ اپنا گھر ہے. وہی بنیادی طور پر اس کے کام کرنے کی جگہ ہے.اگر کسی ضرورت سے باہر نکلے تو برقع میں ملبوس ہو یا چادر اوڑھے ہو جس سے کہ وہ اپنے چہرے کو بھی ڈھانپے‘صرف ایک آنکھ کھلی رہے. تیسرا چار دیواری کا پردہ ہے. گھر ایسے بننے چاہئیں کہ مردانہ اور زنانہ حصہ علیحدہ ہو. کوئی مرد مہمان آیا ہے وہ مردانہ میں بیٹھے گا. اندر صرف وہی مرد جائیں گے جنھیں قرآن مجید نے محرم قرار دیاہے. چوتھا پردہ ہے عورت کا لباس‘جو نہ صرف پورے جسم کو کور کیے ہوئے ہو بلکہ اس کے اندر دو صفات اور درکار ہیں کہ وہ باریک نہ ہو موٹا ہو‘وہ چست نہ ہو کہ جسم کے نقوش نمایاں ہو جائیں بلکہ ڈھیلا ہو. اس لباس میں بھی ایک اضافی شے اوڑھنی ہے کہ اس کو سر کے اُوپر بھی اوڑھا جائے اور اس سے اپنے سینے کو بھی ڈھکا جائے. یہ چار پردے ہیں جن کامیں شدت سے قائل ہوں. اس سے آگے معاملہ شوہر کا ہے کہ جس سے کوئی پردہ نہیں ہے یا پھر حسب ضرورت کسی ڈاکٹر کے سامنے ستر کھولا جا سکتا ہے جبکہ لیڈیز سرجن میسر نہ ہو. 

سوال

آج کل ہمارے دانشور اعتدال پسندی اور روشن خیالی کی ’’تبلیغ ‘‘کر رہے ہیں. دوسری طرف بعض مذہبی دانشور مختلف ٹی وی چینلز پر مذہب کا ایک تجددپسندانہ وژن پیش کر رہے ہیں. چہرے کے پردے کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے. موسیقی‘مصوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کی لطیف حس کا تقاضا ہے‘ اس پر پابندی درست نہیں. داڑھی کے بارے میں کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں داڑھی کے بارے میں کوئی حکم نہیں آیا. اسی طرح قرآن پاک میں سود کو حرام قرار دیا گیا‘ لیکن کہا جاتا ہے کہ جو سود پر قرض لیتا ہے وہ تو معذور ہے‘ کیونکہ وہ مجبورہوا تو اس نے سود پر قرض لیا. اسی طرح کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بنانے کا حکم اُس وقت کے لیے تھا‘ آج کے لیے نہیں. لہٰذا آج مسلمان اور غیر مسلم کسی اسلامی ریاست میں ایک ہی درجے کے شہری ہوں گے. میں چاہوں گا کہ آپ اس کے بارے میں ہمیں تفصیل سے بتائیں کہ اسلام کی اصل تعلیمات کیا ہیں‘ تاکہ لوگوں کو اس کنفیوژن سے نکالا جا سکے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

اس صورتحال کا میں دو اعتبارات سے تجزیہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں. ایک تو چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں اس کا پس منظر کیا ہے اور دوسرا اس وقت دنیا کا جو سیناریوہے اس کے اعتبار سے اس فکر کے ڈانڈے کہاں ملتے ہیں. یہ فتنہ ابتدائے اسلام ہی سے شروع ہو گیا تھا کہ اللہ کو مانو‘اللہ کی کتاب کو مانو‘رسول کو ماننا ضروری نہیں. اس فتنے کو سب سے پہلے مدینے میں یہود نے اُٹھایا کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں‘آخرت کو مانتے ہیں‘رسولوں میں سے بھی اپنے رسول حضرت موسیٰؑ کو مانتے ہیں. ضروری نہیں کہ ہم محمد پر ایمان لائیں‘لہٰذا ہمیں بھی مومن مانا جائے. ہمیں بھی برابر کاسٹیٹس دیا جائے. جس پر قرآن مجید میں سورۃ البقرہ میں فرمایا: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾ 

’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جوکہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے.‘‘

یہاں آپ دیکھیں گے کہ ایمان بالرسالت غائب ہے. 

یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ﴿۹﴾ 
(البقرہ) 
’’یہ (اپنے پندار میں) اللہ کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں.‘‘

سورۃ النساء میں اس مرض کی نشاندہی بایں الفاظ کی گئی ہے: 


اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّ نَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ ۙ وَّ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۵۰﴾ۙاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ حَقًّا ۚ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿۱۵۱﴾ 


’’جو لوگ اللہ سے اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور ایمان اور کفر کے بیچ میں ایک راہ نکالنی چاہتے ہیں‘وہ بلا اشتباہ کافر ہیں. اور کافروں کے لیے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کررکھا ہے.‘‘

یعنی اللہ کو مانو‘اللہ کی کتاب کو مانو‘لیکن رسول کی سنت کو ماننا ضروری نہیں ہے. ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ تو پکے کافر ہیں. اس کے ذیل میں پہلی مثال جیسا کہ واضح کیا گیا یہودِ مدینہ کی ہے. دوسری مثال منافقین مدینہ کی ہے. ان کا بھی کہنا یہ تھا کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں‘قرآن کو مانتے ہیں‘لیکن رسول تو ہم جیسا ایک انسان ہے‘ان کی ہر بات ماننا لازم نہیں ہے. خاص طو رپر جب حضور نے ہجرت کے چھ مہینے بعد قریش کے تجارتی قافلوں کا تعاقب کرنے کا معاملہ کیا. آپ  نے ان آٹھ مہموں میں سے چار میںبنفس نفیس شرکت فرمائی. اس وقت منافقین کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ کوئی نیا مرحلہ آ رہا ہے جو ہمارے لیے بڑی آزمائش بن جائے گا. انہوں نے کہنا شروع کیا کہ ابھی قرآن میں جنگ کا حکم نہیں آیا . (معاذ اللہ) محمد خواہ مخواہ یہ اقدام کر رہے ہیں ‘ہاں قرآن میں حکم آتا تو ہم مانتے. اسی وجہ سے وہ اپنے بعض مقدمات بھی حضور کی بجائے یہودیوں کی عدالتوں میں جا کر طے کرا لیتے تھے.یہود اور منافقین کی طرف سے تفریق بین اللہ والرسول کا یہ فتنہ تو گویا کہ ابتدائے اسلام ہی میں سامنے آ گیا. 

ظہور اسلام کے ہزار سال بعد تفریق بین اللہ والرسول کا فتنہ ہندوستان میں اکبر نے اٹھایا .اس نے ’’دین الٰہی‘‘ اسی بنیاد پر بنایا. اس نے کہا کہ ایک ہزار سال پورے ہو گئے اور قرآن مجید کی دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا ایک دن ایک ہزار سال کا ہوتا ہے‘تو رسالت کا دن بھی ایک ہزار سال ہے.چونکہ محمد رسول اللہ  کی رسالت کے ہزار سال ختم ہو گئے ‘لہٰذا اب(معاذ اللہ) آپ کی رسالت کا دور ختم ہوگیا. اب ایسا کیا جائے کہ صرف خدا کے اُصول کو ماننے پر سب لوگ جمع ہو جائیں‘کیونکہ خدا کو سب مانتے ہیں. یہ ضرور ہے کہ کوئی مہادیو کہتا ہے‘کوئی پرماتما کہتا ہے‘کوئی اللہ کہتا ہے‘لیکن اللہ کو بہر حال سب مانتے ہیں. زیادہ سے زیادہ فرق یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خدا کے نائبین بھی مان لیے‘مگر خدا کا انکار تو انہوں نے بھی نہیںکیا. اس کا نام اکبر نے ’’دین الٰہی‘‘ رکھا. اس تصور سے گویا کہ رسالت کی نفی کی گئی‘کیونکہ سارا اختلاف شریعت سے پڑتا ہے اور شریعت کا تعلق رسولوں سے ہے. قرآن مجید میں سورۃ المائدہ میں بھی ہے: 
لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا 
(المائدہ:48) 

’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے.‘‘یعنی اللہ نے ہر اُمت اور ہر رسول کے لیے ایک شریعت معین کی ہے اور ایک منہاج مقرر کیا ہے. ان لوگوں کے مطابق شریعتوں اورمنہاج کے فرق سے تفرقہ ہوتا ہے اور ہندوستان کی عظمت کے راستے میں یہی چیز حائل ہے ‘یہاں پر مذہبوں کے تصادم کی وجہ سے ہندوستان کو دنیا میں جو مقام ملنا چاہیے وہ نہ مل سکا. لہٰذا اس تفرقہ کو ختم کرنے کے لیے رسول کواور سنت کو ایک طرف رکھ دو. اسی دور میں ہمہ اوستی کا عقیدہ سامنے آیا تھا کہ ’’مسجد مندر ہکڑو نور‘‘ (مسجد اور مندر ایک ہی نور ہیں) 

اکبر کے دور میں اٹھنے والے اس عظیم فتنہ کا راستہ روکنے کے لیے شیخ احمد سرہندی ؒ کھڑے ہوئے اور اس کا قلع قمع کیا. 

اس کے کئی سو سال بعد یہ فتنہ پھر ہندوؤں کی طرف سے راجہ رام موہن رائے نے اُٹھایا. راجہ رام موہن رائے فارسی‘عربی‘انگریزی کا بہت بڑا عالم تھا. اس نے ’’آئینہ تثلیث‘‘ نامی کتاب لکھی. جب عیسائی مشنریز یہاں آئے ہیں تو ان کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے دفاع کرنے کے لیے اس نے یہ کتاب لکھی. اس اعتبار سے وہ ایک بڑی شخصیت تھی. اس کو بھی یہی بات سمجھ میں آئی کہ ہندوستان میں رہنے والوں کو اگر ایک کرناہے تو یہ مذہبی تقسیم ختم کرنا ضروری ہے. اس کے بغیر ہندوستان عظمت کے راستے پر نہیں چل سکتا. لہٰذا اس نے ایک حلقہ بنایا جسے ہندی میں ’’برہموسماج‘‘ اور فارسی میں ’’مجلس ایزدی‘‘ کہتے ہیں .جس کا مطلب خدا کی مجلس ہے . اُس کا مدعا یہ تھا کہ صرف خدا کو مانا جائے‘کیونکہ اس پر سب جمع ہو سکتے ہیں‘باقی چیزوں کو چھوڑو. گاندھی اسی شخص کا چیلا تھا. راجہ رام موہن رائے کے بعد گاندھی نے اس فتنہ کو زندہ کیا اور متحدہ قومیت کا پرچار کیا. بدقسمتی سے مسلمانوں کی ایک نابغہ روزگار شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد بھی ان کے ہتھے چڑھ گئی. انہوں نے بھی انگریز سے نجات پانے کے لیے اس تصور کو سپور ٹ کیا. اس تصور میں پھر اسلام کی نفی ہو رہی تھی. اس موقع پر اللہ نے جس شخص کو خبردار کیا وہ علامہ اقبال تھے. وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے 1930ء کے خطبہ ٔالہ آباد میں بڑے دلائل کے ساتھ مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کا تصورپیش کیا. 

ماضی قریب میں ایک مرتبہ پھر انکار ِ حدیث یا استخفاف حدیث کا نیافتنہ کھڑا ہو گیا ہے. اس کی رُو سے قرآن کو مانو‘قرآن ہی اصل شے ہے.( احادیث تو ویسے بھی ایک عرصے بعد جمع کی گئی تھیں. لاکھوں میں سے بھی چند ہزار احادیث امام بخاری نے منتخب کی تھیں). حدیث سے اختلاف ہوتے ہیں‘لہٰذا اس کو ایک طرف رکھ دو. یہ لوگ اپنے آپ کو ’’اہل قرآن‘‘ کہتے ہیں ‘لیکن ان کے لیے صحیح نام’’ منکرین حدیث ‘‘یا’’ منکرین سنت ‘‘کا ہے. اس فرقہ میں بڑی بڑی شخصیتیں اُبھری ہیں‘جن میں مولانا اسلم جیراج پوری ‘نیاز فتح پوری‘مولانا عبداللہ چکڑالوی وغیرہ کے علاوہ بڑی شخصیت غلام احمد پرویزکی ہے. علمائے حق نے اس فتنہ کا مقابلہ کیا .فتنہ انکارِ حدیث کا راستہ روکنے میں مولانا ابوالاعلی مودودیؒ کا بڑا رول رہا ہے. انہوں نے سنت کی آئینی حیثیت کو بہت عمدہ طریقے سے بیان کیا. مولانا ادریس کاندھلوی صاحب نے بھی حجیت حدیث پر ایک عمدہ کتاب لکھی تھی. یہ فتنہ ابھی تک چل رہا ہے. غلام احمد پرویز نے ایک عجیب فلسفہ گھڑا. وہ یہ کہ اصل اور مستقل شے صرف قرآن ہے. قرآن میں آتا ہے : وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ .تو اَطِیۡعُوا اللّٰہَ کا قائم مقام توقرآن ہو گیااور اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ صرف حضور کے زمانے کے لیے تھا. اس وقت بحیثیت امیر جماعت‘ بحیثیت سربراہِ سلطنت یا بحیثیت مرکز ملت آپ کی اطاعت لازم تھی. اب آپ  کی اطاعت لازم نہیں ہے.اُس نے کہا کہ قرآن سمجھنے کے لیے بھی حدیث کی ضرورت نہیں ‘ہم قرآن کو عربی زبان کی لغت سے سمجھ سکتے ہیں. یہ فتنہ ابھی تک چل رہا ہے. اسے ہمارے انگریزی پڑھے لکھے لوگوں کے اندر کافی نفوذ حاصل ہوا. اس لیے کہ جس نے بھی مغربی تہذیب کی چیزوں کو ہمارے ہاں اختیار کر لیا تھا اسے اس فتنہ سے سند جواز مل گئی تھی. انھیں اس فتنے کی بدولت دین کی جکڑ بندیوں سے آزادی ملتی تھی. 

غلام احمد پرویز جس طرح قرآن کی تفسیر کرتا تھا‘اس کی ایک مثال بڑی مضحکہ خیز ہے. وہ کہتا ہے کہ یہ جو قرآن میں کہا گیا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دوتو اس کا مطلب ہاتھ کاٹنا نہیں ہے‘یہ تو مولویوں نے غلط بات سمجھی ہے. اصل میں یہ تھا کہ جیسے ہم محاورے میں کہتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں‘اب ہم کچھ نہیں کر سکتے یا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے‘بس اس معانی میں کہا گیا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو ‘یعنی ایسا معاشرہ قائم کر دو کہ اس میں چوری کی ضرورت ہی نہ رہے. سب کی کفالت کا انتظام ہو جائے تو چوری کیونکر ہوگی. حالانکہ ان لوگوں میں ذرا سی دیانت داری ہو تو وہ دیکھیں کہ جہاں ’’ قطع ید‘‘ کا حکم آیا ہے وہاں یہ الفاظ بھی ہیں: 
جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ 
(المائدہ:38) 

’’( یہ ہاتھ کاٹنا) بدلہ ہے ان کے کرتوت کا اور عبرت ہے اللہ کی طرف سے.‘‘ کیا ایک اچھا معاشرہ قائم کرنا جس میں سب کے لیے ضروریات زندگی فراہم ہو جائیں کوئی عبرت کا مقام ہے یا کوئی کرتوتوں کی سزا ہے. بہرحال جب کوئی قرآن کو سنت سے علیحدہ کر لیتا ہے تو پھر قرآن کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہیں موڑ دے. یہ تو فتنہ تفریق بین اللہ و الرسول کا تاریخی پس منظر تھا. اب آیئے‘ عہد حاضر کے سنیاریو میں مسئلہ کا جائزہ لیں. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دجالیت اپنے دو ہدف حاصل کر چکی ہے. ایک یہ کہ پوری دنیا میں اب حاکمیت الٰہی کی بجائے حاکمیت ِعوام کا نظریہ رائج کر دیا گیا اوراس طرح مذہب مسجد‘مندر ‘چرچ وغیرہ تک محدود ہوگیا ہے. اسی کا نام سیکولرزم ہے. یوں دجالیت نے اجتماعی زندگی سے خدا کے تصور کو بے دخل کر دیا.برملا کہا جا رہا ہے کہ ہمیں کسی آسمانی شریعت‘آسمانی قانون یا آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں‘ہم جو چاہیں خود قانون بنائیں گے. ہم دو مردوں کی شادی کو جائز قرار دیں اور اس کو رجسٹرڈ کریں. شراب پر پابندی لگائیں نہ لگائیں‘اس کا بھی ہمارے پاس اختیار ہے. اس اعتبار سے دجالیت پوری دنیا پر فتح حاصل کر چکی ہے. دوسرا ہدف معیشت کے میدان میں سود کا تانا بانا بُن کر ساری دنیا کو اس میں جکڑ دیا گیا ہے. قرآن حکیم کی رُو سے سودی لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول  کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے جبکہ دجالیت نے سود کو معیشت کا محور بنا دیا ہے.

تیسرا مرحلہ جو دجالیت کو اب درپیش ہے وہ یہ کہ اسلامی تہذیب کو مٹا کر مسلم دنیا کو اسی رنگ میں رنگ دیا جائے جس میں مغرب رنگا جا چکا ہے. اسے وہ سوشل انجینئرنگ کہہ رہے ہیں. اس کے لیے پہلے قاہرہ کانفرنس ہو ئی. 5 برس بعد بیجنگ کانفرنس‘پھر بیجنگ پلس فائیو کانفرنس ہوئی. اس کا ایجنڈا یہ ہے کہ تمام رشتے ناتوں کو ازسر نو قائم کیا جائے. اس کے علاوہ یہ کہ عورت آزاد ہے. اگر وہ جسم فروشی کرنا چاہتی ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہے. مختصر یہ کہ سوسائٹی کا پورا تانا بانا ازسرنوبنا جائے. شرم وحیا‘عصمت و عفت کے سارے تصورات جیسے ان کے ہاں ختم ہو چکے ہیں‘ اب وہ انہیں عالم اسلام سے تیزی کے ساتھ ختم کرنا چاہتے ہیں. اس مقصد کے لیے انھیں آلۂ کار دانشور چاہئیں جو مغربی تہذیب اورمسلم تہذیب کے فرق کو ختم کر سکیں. رینڈکارپوریشن کی ایک پرانی رپورٹ میں مسلمانوں کے چاردرجے بیان کئے گئے ہیں. پہلا درجہ فنڈامنٹلسٹ مسلمان ہیں‘جو اسلام کو ایک نظام سمجھتے ہیں. یعنی اسلام ایک مکمل سیاسی‘سماجی اور معاشی (Politico-Socio-Economic) نظام کا حامل ہے. رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ لوگ ہمارے دشمن ہیں‘ہم نے انھیں بہر صورت ختم کر کے رہنا ہے. دوسرے روایت پسند مسلمان ہیں‘جو قال اللہ اور قال الرسول سے جڑے ہوئے ہیں. چونکہ اسلام کے بحیثیت نظام ہونے کا تصور ان کے سامنے نہیں ہے‘اس اعتبار سے فی نفسہٖ یہ لوگ خطرناک نہیں ہیں. لیکن یہ اگر فنڈامنٹلسٹ کے ساتھ مل جائیں تو پھر بہت خطرناک ہیں. اس لیے ان دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھو.علاوہ ازیں ان روایت پسند لوگوں کو آپس کے فقہی اختلافات میں الجھاؤ اور ان کو بھڑکاؤ‘تاکہ وہ اس دائرے سے باہر نکلنے نہ پائیں. تیسرے مسلمان ماڈرنسٹ ہیں. یہ لوگ اسلام کی ایسی تعبیر کر رہے ہیں کہ اسلام مغربی تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے. ان لوگوں کو سپورٹ کیا جانا چاہیے. اس وقت ان لوگوں کے ساتھ سول سپریم پاور آن ارتھ امریکہ ہے .یہ اس کا پیسہ اورسارے ذرائع استعمال کر رہے ہیں. پورا ورلڈ میڈیا ان کو سپورٹ کر رہاہے‘ تاکہ یہ اسلامی تہذیب کی جڑیں کاٹ دیں. چوتھے عام مسلمان ہیں جو دین سے واقفیت نہیں رکھتے‘اور دال روٹی کے چکر میں الجھے ہوئے ہیں. 

اپنے اِن مقاصد کے حصول کے لیے دشمن کے پاس شاہ کلید یہ ہے کہ مسلمانوں کو سنت سے کاٹ دو. اس کے بعد وہ بے لنگر جہاز کی طرح لہروں کے رحم و کرم پر ہوں گے. دشمن کی ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے اقبال نے یہی حل بتایا ہے ؎ 

بمصطفٰیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو رسیدی‘ تمام بولہبی

اپنے آپ کو مصطفی کے قدموں میں پہنچا دو‘اس لیے کہ دین نام ہی مصطفی کا ہے. اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دلیل اور برھان سے اس فتنے کا مقابلہ کریں. قرآن کی صحیح روشنی کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں‘تاکہ معلوم ہو جائے کہ منکرین سنت جو قرآن کی سنت سے متصادم تعبیریں کر رہے ہیں‘وہ غلط ہے. تیسرے یہ کہ ہم اس حدیث نبویؐ پر عمل کریں جس کا مفہوم ہے کہ اسلام کا آغاز ہوا تو وہ اجنبی تھا (کوئی اس کو پہچاننے والا نہیں تھا) اس کے بعد جب اس میں قوت آگئی تو سب اس کے جاننے والے بن گئے. لیکن عنقریب اسلام پھر غریب ہو جائے گا. اس وقت جو لوگ اسلام کے دامن سے وابستہ رہیں گے انہی کے لیے خوشخبری ہے‘ وہی کامیاب رہیں گے. اس حدیث پر عمل کی وجہ سے چاہے ہم اپنے 
معاشرے میں اجنبی بن جائیں یا ہمیں کہا جائے کہ یہ دقیانوس ہیں‘یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں‘یہ لکیر کے فقیر ہیں.کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے. ہم یہ سب طعنے سنیں اور برداشت کریں اورمجسم احتجاج بن جائیں. یہ جو تجدد پسندی اور دین کے اندر جو ماڈرنزم پیدا کرنے کی جدوجہد ہو رہی ہے‘اس کے خلاف عملی مزاحمت اسی طرح ممکن ہے کہ ہم خود کو اتنے ہی زیادہ سنت رسول کے ساتھ پیوستہ کر لیں جس شدت سے دشمن اس فتنے کو پھیلا رہا ہے. 

سوال

اسلام ایک دین ہے‘جبکہ اسلام کے بارے میں عام مسلمان کا تصور مذہب والا ہے. یہ بتائیے کہ مذہب اور دین میں فرق کیا ہے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

مذہب کا لفظ قرآن میں آیا ہے نہ حدیث میں. ہماری تاریخ میں بھی یہ لفظ فقہی مسالک کے لیے استعمال ہوتا تھا ‘یعنی مذہب حنفی‘مذہب مالکی‘مذہب شافعی وغیرہ. اسلام کے لیے لفظ ’’مذہب‘‘ کبھی استعمال نہیں ہوا. آج کی دنیا میں مذہب کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ مذہب صرف تین چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے. (1) عقیدہ :مثلاًخدا کومانو یا نہ مانو(2) عبادت: کسی طریقے سے خدا کو پوجو.ان دیکھے خدا کی بندگی کرو‘نماز پڑھو یا پتھروں کو پوجو وغیرہ (3) سماجی رسومات:بچہ پیدا ہوگا تو کیا کریں گے؟ بپتسمہ کریں گے یا عقیقہ کریں گے. کوئی مرے گا تو کیا کریں گے؟ اس کی لاش جلائیں گے یا اس کو دفنائیں گے وغیرہ. آج کی دنیا میں مذہب انہی تین چیزوں تک محدود ہے جن کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے ہے. ان انفرادی معاملات میں ہر انسان آزاد ہے‘کوئی کسی پر اعتراض نہیں کر سکتا. البتہ دین نظام کوکہتے ہیں. نظام انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کے مزید تین گوشوں سیاسی‘معاشی اور سماجی نظام پر مشتمل ہوتا ہے. قرآن مجید میں اسلام کے لیے صرف ’’دین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا. 

اسلام ایک مکمل دین ہے. اس میں انفرادی زندگی کے تین شعبے بھی ہیں (یعنی مذہب بھی ہے) اور اجتماعی زندگی کے تین گوشے یعنی معاشی‘سیاسی‘سماجی نظام بھی ہے. اسی معاشی‘سیاسی اور سماجی نظام کے تحت قوانین بنتے ہیں جیسے کریمنل لا‘سول لاء‘قانون شہادت‘قانون وراثت وغیرہ. اسلام کے معاشی قانون میں سود حرام ہے‘جواحرام ہے. سماجی قانون میں شراب حرام ہے. اسلام کہتا ہے کہ مسلم معاشرہ مخلوط نہیں ہو گا بلکہ سوسائٹی جداگانہ ہوگی. ان ساری چیزوں سے جو نظام بنتا ہے اسلام ان تمام چیزوں کا مجموعہ ہے. 

حضور کی مدنی زندگی کے دس سال اور خلافت راشدہ کے 30 سال تک اسلام ایک مکمل دین کی حیثیت سے قائم رہا.جب ملوکیت آئی تو اس میں بھی صرف سیاسی نظام اسلام والا نہیں رہاکہ اس میں ایک قبیلے کی حکومت اور موروثیت آگئی اور شورائیت باقی نہیں رہی .تاہم ملوکیت کے باوجود قانون اسلامی تھا. عدالتوں میں قاضی اور مفتی ہوتے تھے اور جمعہ سرکاری ہوتا تھا. کوئی پرائیویٹ جمعہ نہیں ہو سکتا تھا. اس کے بعد جب نو آبادیاتی دور آگیا تو اب انگریز کا کریمنل لا‘سول لا نافذ ہو گیا‘ لہٰذا اب قاضی اور مفتی حضرات کی اہمیت کم ہو گئی. البتہ انگریزوں نے مسلمانوں کو مذہبی آزادی دے دی. نماز پڑھو‘نماز کے مسائل مفتی صاحب سے پوچھ لو. انگریز نے ہمیں عائلی قوانین میں بھی آزادی دیے رکھی.ہمارے فیملی لاز میں دخل نہیں دیا. اسی طرح وراثت کے قانون میں بھی اس نے اختیار دئیے رکھا کہ آپ چاہیں تو شریعت کے مطابق ہم فیصلہ دے دیں گے اور چاہیں تو رواج کے مطابق فیصلہ کروا لیں یا ہمارے انگلش لا کے تحت فیصلہ لے لیں. خلافت راشدہ کے بعد سیاسی سطح پر اسلام کی ایک منزل ختم ہو ئی تھی. نو آبادیاتی دور میں دوسری منزل معاشی اور سماجی قوانین بھی ختم ہو گئے. اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کے ذہنوں سے اسلام بحیثیت نظام زندگی خارج ہو گیا. علماء نے بھی قبول کر لیا کہ اسلام صرف نماز روزے کا نام ہے. یہاں تک کہ آج برصغیر میں ایک بہت بڑی تبلیغی تحریک اسی محدود تصور پر چل رہی ہے. یہ لوگ نظام کی بات ہی نہیں کرتے. اس اعتبار سے علامہ اقبال نے بہت اہم کارنامہ سر انجام دیا کہ انہوں نے دین و مذہب کی جدائی کو ختم کیا اور دین کے لفظ کو زندہ کیا. انہوں نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ ؎ ؎ 

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسی طرح اقبال نے کہا ؎ 


ملاّ کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

اسلام کو آزاد کیسے کہا جا سکتا ہے جبکہ اسلام کے سارے قوانین غیر فعال ہو گئے ہیں. ساری شریعت گویا کہ معطل ہو چکی ہے. اب لوگوں کے ذہنوں میںصرف مذہب والا حصہ بطور اسلام راسخ ہو چکا ہے. 

یہ بات واضح کر دی جائے کہ مغرب کا ٹارگٹ اسلام کا تصور دین ہے‘تصور مذہب نہیں. امریکی انتظامیہ جب یہ کہتی ہے کہ ہم اسلام کے دشمن نہیں ہیں تو وہ اِسی معنی میں کہتے ہیں. وہ اسلام کے بحیثیت مذہب دشمن نہیں ہیں. وہ ہمیں کہہ سکتے ہیں کہ تم امریکہ آئے‘تم نے یہاں چرچ خریدے‘سینیگاگ خریدے‘مسجدیں بنا لیں مگر ہم نے تمہیں کبھی نہیں روکا . تم نمازیں پڑھتے ہو‘ہم نے نہیں روکا. تم روزے رکھتے ہو ہم نے نہیں روکا. حتیٰ کہ ماہِ رمضان میں ہم ایک تمہیں افطار پارٹی وائٹ ہاؤس میں بھی دے دیتے ہیں. تمہاری عید ہوتی ہے تو ہم یادگاری ٹکٹ جاری کر دیتے ہیں.لہٰذا تمہارے مذہب سے ہماری کوئی جنگ نہیں. اسی لیے میں نے آپ کو بتایا تھا کہ رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ میں مسلمانوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا. ا س میں پہلے نمبر پر فنڈامنٹلسٹ ہیں جنھیں دشمن قرار دے کر کہاگیا ہے کہ ان کے ساتھ ہماری کوئی بات نہیں ہو سکتی. انھیں ہم نے بہر صورت ختم کر نا ہے. اسی پس منظر میں سمجھئے کہ40 برس تک دنیا میں جو کولڈ وار رہی اور د نیا کے بہترین وسائل و ذرائع اس جنگ میں خرچ ہوئے ہیں‘اس جنگ میں مذہب کا معاملہ تھا ہی نہیں‘نظام کا معاملہ تھا. ایک طرف مغربی سرمایہ دارانہ نظام تھا جو دراصل Interst Based Markete Economy ہے کہ اس میں پوری معیشت بنکاری نظام پرکھڑی ہوتی ہے. دوسری طرف اشتراکی نظام تھا جس میں انفرادی ملوکیت کا کوئی تصور نہیں تھا. اس نظام میں سود کا سوا ل ہی نہیں رہا. اس حوالے سے کولڈوار دو نظاموں کی جنگ تھی. اس میں مذہب کا کوئی عنصرنہیں تھا . اب مغرب کو اسلام سے خطرہ ہے. 

حالات معلوم کرنے کے ان کے ذرائع ہم سے بہت آگے ہیں. ہم اپنے حالات کو دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں جبکہ انھیں نظر آتا ہے کہ عالم اسلام کے اندر ایک لاوا کھول رہا ہے. اور اسلامی نظام کے قیام کے لئے مسلم دنیا انگڑائی لے رہی ہے. علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی زبان سے کہلوایا تھا. ؎

ہے اگر کوئی خطر مجھ کو تو اس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

جیسے ایک انگارہ ہوتا ہے کہ اس کے اُوپر راکھ آ جائے تو نظر نہیں آ تا کہ اس کے اندر آگ ہے. آپ غلطی سے اُسے ہاتھ میں لے لیں تو پتا چلے گاکہ اس میں آگ ہے. اسی طرح امت مسلمہ کی روح میں ایک باغیانہ عنصر ہے‘جس پر بظاہر راکھ آ چکی ہے لیکن یہ بغاوت ان کی رُوح میں اب بھی موجود ہے.یہ عنصر اندر نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی ان میں پیدا ہوگیا تھا. جیسے ہی نو آبادیاتی نظام کی بساط لپٹنی شروع ہوئی اور انڈونیشیا سے مراکو تک مسلمان ممالک آزاد ہوئے تو انھیں یہ احساس ہوا کہ اگر مغرب کا اپنا نظام ہے تو ہمارا بھی ایک نظام تھا. ان کا کریمنل لاء ہے تو ہمارا بھی کریمنل لاء تھا. ان کا سول لاء ہے تو ہمارا بھی سول لاء تھا. لہٰذا اب اس کو قائم بھی کیا جائے. یہ جذبہ پورے عالم اسلام میں پیدا ہوا. چنانچہ انڈونیشیا کی مسجومی پارٹی ‘برصغیر کی جماعت اسلامی‘ایران کی فدائین پارٹی‘عرب دنیاکی الاخوان المسلمون جیسی تحریکیں اُٹھیں‘تاکہ اسلام کو نافذ کریں. یہ اور بات ہے کہ یہ تحریکیں منہج یا طریق کار 
(methodology) کے معاملے میں مار کھا گئیں. ایک تو انہوں نے ایمان پر اتنا زورنہیں دیا جتنا دینا چاہیے تھا اور دوسرے یہ کہ اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے نبویؐ طریق کی بجائے آج کے دور کی رائج چیزیں لے کر انہوں نے یہ سمجھاکہ ہم اسلام قائم کر دیں گے. حالانکہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے. چنانچہ وہ تحریکیں بھٹک گئیں اور کہیں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں. لیکن اس امت کی خاکستر میں شرارِ آرزو اب تک موجود ہے. اسی سے مغرب خوفزدہ ہے.

افغانستان میں بھی انھیں یہی اندیشہ ہو گیا تھا. طالبان دور میں اگرچہ وہاں پر صرف چند شرعی سزائیں نافذ ہوئی تھیں مگر اس کا نتیجہ بھی یہ نکلا تھا کہ افغانستان کا 95%علاقہ (جو طالبان کے کنٹرول میں تھا) جرائم سے پاک ہو گیا. امیر المومنین ملا عمر کے ایک حکم پر پوست کی کاشت ختم ہو گئی. دنیا نے طالبان سے پہلے افغانی حکمران کو بلین کے بلین ڈالر دیے کہ اِسے روکو‘لیکن پوست کی کاشت بند نہیں ہوئی کیونکہ وہاں کے وارلارڈز اسی سے کمائی کرتے ہیں. اس میں ان کے وزراء بھی شامل ہیں. ان کے گورنر بھی شامل ہیں. بہرحال وہاں اسلامی نظام کی ابھی چند پتیاں ظاہر ہوئی تھیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ ڈر گئے. انہوں نے سمجھا کہ یہ معاملہ اگر آگے بڑھ گیا تو ان کے نظام کے لیے خطرہ بن جائے گا. ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے سیکولر شخص نے افغانستان کے دورے کے بعد کہہ دیا تھا کہ جو حالات میں کابل میں دیکھ کر آیا ہوں اگر چند اور مسلمان ممالک میں یہ حالات ہو جائیں تو پوری دنیا اسلام لے آئے گی. اس حوالے سے انھیں خطرہ ہے کہ یہ نظام ہمارے ساتھ ٹکرا جائے گا اور ہمیں ختم کر دے گا. اگر اس کی جھلک بھی دنیا نے دیکھ لی اور کہیں کسی بڑے ملک میں یہ نظام قائم ہو گیا تو ہمارا نظام ختم ہو جائے گا. واقعتااسلام کا سیاسی‘معاشی اور معاشرتی نظام اگر کسی ایک ملک کے اندر قائم ہو جائے تو دنیا میں جتنے بھی نظام ہیں ان کے تار پود بکھر کر رہ جائیں گے. یہ ہے وہ بات جس کی وجہ سے وہ دین اسلام کے سخت خلاف ہیں ‘البتہ تصور مذہب کے خلاف نہیں ہیں. 

سوال

پاکستان کے بارے گفتگو میں آپ نے سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے. کیا آپ کو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ تی؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

آپ نے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے. یہ بات میں بہت عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ زمینی حقائق کے تناظر میں مجھ پر مایوسی طاری ہو جاتی ہے. لیکن پچھلی چار سو سال کی تاریخ اور مستقبل کے بارے حضور نے جو پیشین گوئیاںفرمائی ہیں ان کے حوالے سے مجھے اُمید اب بھی ہے. ایک طرف یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں. اسلام جو پاکستان کی مثبت بنیاد تھی‘اُسے ہم نے قائم نہیں کیا‘چنانچہ یہ مثبت اساس منہدم ہو چکی ہے. اسی طرح منفی بنیاد ہندو کا خوف تھا. ہندو کے انتقامی جذبہ سے تحفظ کے لیے ہمیں ایک علیحدہ ملک چاہیے تھا. اب وہ منفی بنیاد بھی ختم ہو رہی ہے اور امریکہ کے دباؤ میں آکر بھارت سے نارملائزیشن کی باتیں ہو رہی ہیں. اس لیے میں کہتاہوں کہ پاکستان اپنا جواز کھو چکا ہے. لیکن دوسری طرف نبی اکرم کی پیشین گوئیاں ہیں‘جن کی وجہ سے میں پُرامید ہوں. 

احادیث کے مطابق حضرت مہدی کا ظہور عرب کے علاقے میں ہو گا اور ان کی حکومت کو جمانے کے لیے مشرقی ملک سے فوجیں جائیں گی. اسی کو ایک حدیث کے حوالے سے اقبال نے کہاتھا ؎ 

میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

اب وہ مشرقی ملک کون سا ہے.غالب گمان یہ ہے کہ یہ پاکستان اور افغانستان کا علاقہ ہے. ایک حدیث میں اس علاقے کا نام خراسان آیا ہے. خراسان کی مرکزی پٹی موجودہ پاکستان میں ہے‘جبکہ کچھ حصہ افغانستان میں اور باقی حصہ ایران میں ہے. ایران میں تو خراسان نام کا صوبہ بھی موجود ہے. پاکستان میں مالا کنڈ سے اُوپر سوات‘دیر اور چترال کا علاقہ ماضی کے خراسان کا حصہ تھا. اقبال نے اگرچہ اپنے لیکچرز میں مہدی کے تصور کی نفی کی ہے‘لیکن اپنے اشعار میں مہدی کا ذکر کیا ہے: 


خضرِ وقت از خلوت ِ دشت حجاز آید بروں
کارواں زیں وادیٔ دور و دراز آید بروں

وقت کا امام‘خضر‘راہنما‘راستہ بتانے والا دشت ِحجاز کی خلوت سے برآمد ہو گا اور اس کی مدد کے لیے جوکارواں چلے گا وہ دور دراز کی وادی سے چلے گا. یہاں خضر وقت کے حوالے سے شیعہ اور سنی دونوں کے تصورات آکر مل جاتے ہیں. شیعہ حضرات کے نزدیک حضرت مہدی بارہ سو برس سے کسی غار میں چھپے ہوئے ہیں اور حجاز سے برآمد ہوں گے. ہمارے نزدیک بھی روایات میں یہ ہے کہ جب عرب میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی تو ایک شخص مدینہ سے بھاگ کر مکے میں اس لیے چھپ جائے گا کہ لوگ اس کی طرف نظریں اُٹھا کر دیکھ رہے ہوں گے کہ یہ لوگوں کی راہنمائی کرے لیکن وہ اس ذمہ داری سے بھاگے گا. وہاں سے اس چھپے ہوئے شخص کو لوگ تلاش کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے‘حالانکہ وہ نہیں چاہے گا کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے. ان کی مدد کے لیے کارواں وادیٔ دور دراز سے جائے گا. میرے نزدیک اس وادی سے مراد وادیٔ سندھ کا علاقہ ہے‘اس لیے کہ ہمارے سارے دریا دریائے سندھ میں جا رہے ہیں. افغانستان سے سارے دریا بھی آکر سندھ میں مل رہے ہیں. مشرقی افغانستان کا پختون علاقہ بھی اصل میں اسی وادیٔ سندھ کا حصہ ہے. لہٰذا یہاں سے کارواں نکلے گا. 
اسی طرح پاکستان کے معجزانہ قیام کے پیچھے چار سو سال کی تاریخ ہے. قیام پاکستان کے بعد اس کا ایٹمی صلاحیت کا حامل ہو جانابھی معجزہ ہے.ان ساری چیزوں اور مستقبل کے بارے میں نبی اکرم کی پیش گوئیوں سے مجھے اُمید ہے کہ کوئی معجزہ رونما ہو سکتا ہے. یہ امید اقبال کے کلام میں بھی موجود ہے. چنانچہ وہ فرماتے ہیں ؎ 

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

اور ؎ 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

اور ؎ 

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

سوال

مشرقِ وسطیٰ میں آتش فشاں کی کیفیت ہے. آپ اس کو اس بڑی جنگ کا حصہ سمجھتے ہیں جس کا ذکر احادیث میں آیا ہے یا یہ کوئی علاقائی معاملات ہیں؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

دراصل کتب احادیث کے ’’باب الملاحم‘‘ میں جنگوں کے ایک سلسلے کا ذکر ہے. ان ملاحم کا سلسلہ خلیج کی جنگ سے شروع ہو چکا ہے. اس کشمکش کے پیچھے اصل میں گریٹر اسرائیل کا قیام مقصود ہے. صدام حسین نے 1991ء میں جنگ خلیج کے دوران بہت گہری بات کہی تھی کہ یہ جنگ اُم المحارب ‘( یعنی جنگوں کی ماں) ہو گی اور اس کے بطن سے بہت سی جنگیں جنم لیں گی. اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک چیز خاص طور پر کہنے کی ہے ‘ وہ یہ کہ یہودی اور نیوکان عیسائی( جن میں بیپٹسٹ ‘پروٹسٹنٹس اور ایوینجلسٹ شامل ہیں‘ان کو کرسچین زائنسٹ بھی کہا جاتا ہے.) چار چیزوں پر متفق ہو چکے ہیں: (1) مڈل ایسٹ میں ایک بہت بڑی جنگ (2) گریٹر اسرائیل کا قیام (3) مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کا انہدام اورتھرڈ ٹیمپل کی تعمیر (4) اس میں تخت ِداؤدی لا کر رکھنا.

یہ چیزیں مذہبی سطح پر اس وقت تحریک دلا رہی ہیں. امریکی انتظامیہ میں یہودی اور نیوکانز چھائے ہوئے ہیں. موجودہ عالمی کشاکش ایک خاص مذہبی انداز کا پس منظر رکھتی ہے .عراق پر جنگ اسی لئے مسلط کی گئی تھی‘جبکہ بظاہر دنیا کے سامنے وہاں جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا بہانا بنایا گیا. بے شرمی کی انتہا ہے کہ آج تک وہ یہ بات ثابت نہیں کر سکے. ان کے اپنے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ ان کو یہ کیا ہو گیا ہے ‘لیکن ان کا مذہبی جنون کہتا ہے کہ ہمیں گریٹر اسرائیل بنانا ہے‘ہم نے مڈل ایسٹ کا نقشہ بدلنا ہے. عراق تو ان کے قبضہ میں آ ہی گیا. یہود پہلے کہتے تھے کہ ہمارا گریٹر اسرائیل دریائے فرات تک ہو گا‘اب کہتے ہیں کہ ہم آگے دجلہ تک لیں گے‘تاکہ عراق کا زرخیز دوآبہ بھی ہمارے پاس آ جائے. اس کے ساتھ لبنان‘شام‘ترکی کا جنوبی حصہ بھی لینا ہے. اس جنوبی حصے سے پانی کے بند باندھ کر اسرائیل کے اندر لائیں گے. مصر کا صحرائے سینا بھی ان کے نقشے میں شامل ہے.جوشن کا علاقہ‘جہاں حضرت یوسفؓ نے اپنے بھائیوں کو آباد کیا تھا وہ بھی لینا ہے. وہ سعودی عرب کے شمالی حصہ کو بھی مدینہ سمیت گریٹر اسرائیل کا حصہ بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں (یاد رہے کہ احادیث کے مطابق دجال مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا).

اس منصوبے کی تکمیل میں یہود کا ایک بڑا ہتھیار مالیاتی استعمار ہے .اُن کی پلاننگ کے مطابق یہودی اورمغربی مالیاتی استعمار پوری دنیا پر حاکم ہو گا اور دنیا کے باقی لوگ ورکرز کی حیثیت سے کام کریں گے. سرحدی لکیریں بے معنی ہو جائیں گی. ملک ختم ہو جائیں گے. بڑی بڑی ملٹی نیشلز کے ایمپائر بنیں گے اور اس سے یہ پوری دنیا کی معیشت کو کنٹرول کر یں گے. ماضی میں استعمار یت کا انداز یہ تھا کہ ہندوستان کو فتح کرو.مگر اب یہ انداز بدل گیا ہے. وہ کہتے ہیں کہ ہمیں آم کھانے ہیں‘پیڑوں سے کیا غرض ہے. لہٰذا ملکوں پر قبضہ کرنے کی بجائے ان کی معیشت کو کنٹرول کرو. اس طرح اب غیر یہودی کام کریں گے اوریہودی سود کے ذریعے سے ان کی ملائی کھینچ لیں گے. ان کے نزدیک غیریہودی Goems (حیوانات) ہیں.وہ ان حیوانات کے ذریعے سے معاشی مفاد حاصل کریں گے. یہ ہے ان کا پروگرام جو چل رہا ہے اوروہ ایک ایک قدم آگے بڑھا رہے ہیں. بہرحال ہو گا وہی جو اللہ چاہے گا. احادیث کے مطابق حضرت عیسیٰd کا نزول ہو گا‘تو وہ دجال اور یہود کا خاتمہ کردیں گے اور پھر کل روئے ارضی پر اللہ کا دین غالب ہو جائے گا. 

سوال

امریکہ جس طرح مشرق وسطیٰ میں یہودیوں کو گریٹر اسرائیل بنا کر دینا چاہتا ہے‘کیا جنوبی ایشیا میں ہندوستان کوبھی وہی پوزیشن دینا اُس کے پیش نظر ہے جو اس نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں دی ہے؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

جی ہاں ‘اس میں کوئی شک نہیں. اصل میں صورتِ حال یہ ہے کہ پچھلی صدی میں سرد جنگ کا ہدف Containment of USSR تھا. اب ان کا ہدف Conainment of China ہے. روس کے بعد انہیں اب چین سے خوف ہے. لہٰذا اس کے مد مقابل وہ بھارت کو تیار کرنا چاہتے ہیں. چونکہ اب ایک سرکل میں (افغانستان‘قازقستان اور دوسری ریاستیں) امریکا کے زیر اثر آ چکی ہیں. دوسری طرف انڈیا ہے اور درمیان میں پاکستان ہے. ان کے نزدیک اگر پاکستان سر جھکا کر بھارت کی منڈی اور اس کی طفیلی ریاست بن جائے تب تو یہ ایک ملک کے طور پر زندہ رہ سکتا ہے . پھر وہ ہمیں کچھ مراعات بھی دے دیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ پانی بھی ہمارا چھوڑ دیں. لیکن اس صورت میں ہماری کوئی آزاد خارجہ پالیسی نہیں ہوگی بلکہ وہی صورت ہو گی جیسی نیپال کی ہے. بس اس سے زیادہ وہ کوئی سٹیٹس پاکستان کو نہیں دینا چاہتے. 

اس ہدف کی راہ میں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بڑی رکاوٹ ہے. اس کو ختم کرنے کے لیے وہ مختلف چالیں چل رہے ہیں.اس کام کے لیے ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارا کمیونیکیشن سسٹم جام کر دیں‘ایسی صورت میں ہمارا نیوکلیئر سسٹم کیا کرے گا. صدام کے ساتھ بھی انہوں نے یہی کیا تھا. پہلی جنگ میں اس کا سارا کمیونیکیشن نظام ختم کر دیا تھا. اس کا کوئی جہاز اُڑ ہی نہیں سکاتھا. اگر وہ ہماری بجلی ہی ختم کر دیں تو پورے ملک کا کیا حشر ہو جائے گا. بہرحال ان کی پلاننگ یہی ہے کہ کسی طریقے سے ہماری ایٹمی قوت کو نیوٹرلائز کر دیں اور دوسری طرف بھارت اور افغانستان کے ذریعے ہمیں دبایا جائے. یہ ان کی منصوبہ بندی ہے‘ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو. اُمید یہی ہے کہ وہ اپنے منصوبوں میں ناکام ہوں گے. 


سوال

کیا اس معاملے میں چین کسی ردّ عمل کا اظہار نہیں کرے گا؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

چین میں ابھی ہمت نہیں ہے. افغانستان پر امریکی حملے کے وقت پرویز مشرف اگر کھڑا ہو جاتا‘اس کے ساتھ دوسرے مسلمان ممالک اور چین بھی کھڑا ہو ہو جاتا تو ہمارا تورا بورا ممکن نہیں تھا جس کے ڈر سے پرویز نے امریکا کا ساتھ دیا تھا. کیونکہ چین یہ کسی صورت گوارا نہ کرتا. لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ چین اسی طرح خاموش رہے گا. وہ اپنی ساری قوت ادھر صرف کریں گے کہ چین اور روس ایک ہو جائیں. 

سوال

چین کو گوادر بندرگاہ اور کوسٹل ہائی وے کے ذریعے دوسری دنیا کے ساتھ ملانے کے لیے ہم راستہ دے رہے ہیں‘اگر پاکستان بھارت کا بغل بچہ بن جائے گا تو اس سے کیا چین کو بھی بہت بڑا نقصان نہیں ہو گا؟ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ 

اس وقت تو چین دنیا میں معاشی طور پر آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے. اس حوالے سے اسے سوچنا پڑے گا کہ میں ایڈیشنل سہولتوں کے لیے کتنا بڑا رسک لوں. میں کوئی پیشین گوئی نہیں کرتا ‘لیکن مختلف سیناریوز ہیں. یہ تو وقت بتائے گا کہ چین کتنا آگے بڑھ کر کنفرنٹیشن میں آتا ہے. تاہم ابھی وہ اس موڈ میں نظر نہیں آتا.