زیرنظر بحث کا پس منظر

خطبہ مسنونہ اور آیاتِ قرآنی کی تلاوت کے بعد :

آج مجھے پاکستانی مسیحیوں یا عیسائیوں کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا ہیں. اس کی طرف میراذہن کیوں منتقل ہوا؟اس کا ایک خاص پس منظر ہے. ماضی قریب میں ہمارے ملک میں توہین رسالت  کے ایک مقدمہ کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی‘ لیکن اس کا اصل ڈراپ سین جس دور میں ہوا اور اس کے حوالے سے ہنگامہ آرائی نے جن دنوں شدت اختیار کی ان دنوں میں ملک سے باہر تھا. اگرچہ کسی قدر خبریں تو بین الاقوامی پریس میں بھی آئیں. مغربی ذرائع ابلاغ نے ہمارے خلاف اسے اچھالا اور مسلم فنڈ امنٹلزم کو اس کے حوالے سے گالیاں دیں. اس حد تک تو بات وہاں امریکہ کے قیام کے دوران بھی میرے علم میں آگئی تھی ‘ لیکن اس کی تفاصیل اور اصل حقائق سے میں لا علم رہا. لیکن پھر جب میں واپس آیا تو اس مقدمے سے متعلق کچھ اہم حقائق میرے سامنے آئے اور بعض باتیں میرے نوٹس میں لائی گئیں. اس سے میری تشویش میں تو اضافہ ہوا ‘لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے ابتدا میں اس مسئلے کی طرف کماحقہ توجہ نہیں دی. البتہ پھر جب اس موضوع پر ہمارے ہاں کے ایک صحافی رائے حسنین طاہر کی کتاب’’داغِ ندامت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اور میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو پھر مجھ پر حقائق صحیح طور پر واضح ہوئے اور یوں کہنا چاہیے کہ چودہ طبق روشن ہو گئے.

سب سے بڑی بات جو میرے سامنے آئی وہ یہ ہے کہ یہ ایک دو مسخ شدہ ذہن اور مزاج کے لوگوں کا معاملہ تھااور کوئی نہایت غلیظ ذہن کے لوگ تھے جنہوں نے وہ حرکت کی اور توہین کا معاملہ کیا. میں سمجھتا ہوں کہ ہر معقول شخص خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو‘ میری اس بات کی تائید کرے گا کہ ایسی حرکت کوئی انتہائی گھٹیا اخلاق کا مالک‘ insale اور ابنار مل انسان ہی کرتا ہے. کوئی معقول اور نارمل شخص ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ سرورِ کونین محمد ٌرسول اللہ  یا ازواجِ مطہراتl کو غلیظ گالیاں دے. لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں کے عیسائیوں نے اسے اپنا مذہبی اور قومی معاملہ بنا دیا. حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس سے اعلان براء ت کرتے اور اس معاملے کو مذہبی مسئلہ بنانے کے بجائے جو لوگ بھی اس سنگین معاملے میں ملوث ہوئے تھے ان کی مذمت کرتے. لیکن ہوا یہ کہ اس معاملے کو ملک کے اندر بھی ایک طوفان خیز انداز میں اٹھایا گیا‘گویا کہ یہ دو مذہبوں کا ٹکرائو ہے یا سیکولرازم اور اسلامک فنڈ امنٹلزم کا ٹکرائو ہے. اور اسی پر قناعت نہیں کی گئی ‘بلکہ عالمی سطح پر عیسائی برادری اور عیسائی دنیانے اسے اپنا ایک مسئلہ بنا دیا.

اس ضمن میں جو کچھ ہماری عدالتوں نے کیا‘ ظاہر بات ہے مجھے ان پر تنقید نہیں کرنی اور نہ ان کی نیت پر حرف زنی میرے پیش نظر ہے ‘بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ انہوں نے کیا قانون کے مطابق کیا‘ لیکن یہ کہ عالمی سطح پر جو دباؤ پڑ رہا تھا وہ اس سے غیرمتاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے تھے. ظاہر بات ہے کہ جج صاحبان بھی تو انسان ہی ہیں‘ وہ کوئی آسمان سے اترے ہوئے فرشتے نہیں ہیں. اس عالمی دباؤ کا یقینا اثر ظاہر ہوا ہے. جس تیزی کے ساتھ اس مقدمے کو نمٹایا گیا اور اس قانونی کارروائی 
(legal process) کے بعض تقاضوں کو جس طرح نظر انداز کیا گیا‘ وہ اپنی جگہ محل نظر ہیں. یہ سب باتیں وہ ہیں جو ریکارڈ میں آ چکی ہیں اور اب تاریخ کا حصہ ہیں. ان کا فیصلہ (judgement) یقینا دیانتدارانہ ہو گا‘ اور میں بھی سمجھتا ہوں کہ جب تک کسی جرم کو ثابت نہ کیا جاسکے‘ سزا نہیں دی جا سکتی. یہ اصول تو ہمیں محمد ٌرسول اللہ  نے دیا ہے کہ شک کا فائدہ ہمیشہ ’’ملزم‘‘ کو دیا جانا چاہیے! بلکہ محمد ٌرسول اللہ  کی دی ہوئی تعلیمات تو یہ ہیں کہ سو مجرم چھوٹ جائیں تو کوئی حرج نہیں‘ لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے! آج کی عدلیہ کے تمام اصول دراصل محمد ٌرسول اللہ  کے دیے ہوئے ہیں. اقبال نے بالکل صحیح کہا تھا ؎ ہ

ر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آنکہ از خاکش بروید آرزو
یاز نورِ مصطفی او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است!


دنیا میں جو بھی خیر اور خوبی ہے وہ درحقیقت نورِ محمدیؐ سے مستعار ہے‘ حضور  ہی کی دی ہوئی تعلیمات کا پر تو ہے. چنانچہ عدلیہ کے یہ تمام سنہرے اصول کہ جب تک آپ فریق ثانی کی بات نہ سن لیں‘ فیصلہ نہ کریں‘نیز یہ کہ ثبوت کا بار مدعی پر ہے‘ مدعاعلیہ کی طرف سے قسم بھی کافی ہو جائے گی لیکن مدعی قسم کے ذریعے سے اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکتا‘ یہ سب بھی حضور  کے دیے ہوئے ہیں. میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقدمے کی جو بھی صورت سامنے آئی وہ ایسی تھی کہ ملزموں کو شک کا فائدہ دینا غلط نہیں تھا. ہو سکتا ہے کہ پولیس والوں کی کوتاہی سے ریکارڈ کے اندر کوئی کمی رہ گئی ہو‘ یا اور کوئی رخنہ ایسا رہ گیا ہو جس کے باعث جرم پوری طرح ثابت نہ کیا جا سکا ہو. اس لیے کہ مقدمات جب چلتے ہیں تو کوئی رخنہ اگر شروع میں رہ گیا ہو تو بہت سے سچے مقدمے بھی ثابت نہیں ہو پاتے. بہر حال اس اعتبار سے میں عدلیہ کے اوپر کوئی تنقید نہیں کر رہا ہوں‘ لیکن یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ یہ معاملات نمٹائے گئے. یہ یقینا اس عالمی دباؤ کا معاملہ ہے.

اس معاملے کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوا جب اس کے بالکل برعکس ایک کیس سامنے آیا اور اسے بھی مذہبی بنیادوں پر ہوا دی گئی. ہوا یہ کہ ایک talented عیسائی بچہ اقبال مسیح ایک مسلمان کی نگاہ میں آیا اور وہ بچہ بانڈڈلیبر کے خلاف احتجاجی تحریک کا لیڈر بن گیا. اتفاقاً وہ بچہ ایک جنسی جنونی کے ہاتھوں قتل ہو گیا جو کسی مسلمان زمیندار کا کوئی پہرے دار قسم کا آدمی تھا‘ لیکن نشئی تھا ‘ چرسی بھنگی تھا اور وہ کوئی نہایت ہی معیوب اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت کر رہا تھا کہ بعض بچوں نے‘ جن میں اقبال مسیح بھی شامل تھا‘ اسے وہ حرکت کرتے دیکھ لیا‘ چنانچہ ان بچوں نے شور مچایا‘ اس شقی انسان نے بندوق نکالی اور فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں اقبال مسیح ہلاک ہو گیا. اس واقعے کو بھی اس طرح اچھا لا گیا کہ پوری دنیا کے اندر پاکستان کو بد نام کرنے کے لیے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا. اسے ایسا رنگ دیا گیا کہ گویا عیسائیت اور اسلام کے درمیان کوئی جنگ شروع ہوگئی ہے. دنیا کو تاثر یہ دیا گیا کہ چونکہ وہ بانڈڈلیبر کے خلاف جدوجہد کی علامت بن گیا تھا اس لیے اسے قتل کیا گیا ہے. یہ ساری چیزیں درحقیقت کس چیز کی غمازی کر رہی ہیں؟ یہ کہ ؏ ’’ کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں!‘‘ اس کے پیچھے یقینا کوئی خفیہ ہاتھ ہے جو کہ ایک طرف مسلمانوں کے اندر شیعہ اور سُنّی کو باہم لڑانا چاہتا ہے تو دوسری طرف عالم ِ اسلام میں مسیحیوں اور مسلمانوں کو لڑانا چاہتا ہے. یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے‘ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ جو اچانک ہو گیا ہو. عالمی ذرائع ابلاغ کے پاس ٹائم اتنا بے وقعت نہیں ہوتا کہ وہ اسے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے صرف کر سکیں‘ ان کا تو ایک ایک لمحہ بڑا قیمتی ہوتا ہے. آپ ذرا ان کا کچھ وقت خریدنے کی کوشش کیجئے تو معلوم ہو جائے گا کہ کیا قیمت دینی پڑے گی. وہ ذرائع ابلاغ اگر ایسی چیزوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں‘ تو یقینا یہ کوئی بڑی اسکیم ہے. ؎

چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردئہ زنگاری میں!

اس کے پیچھے یقینا کوئی خفیہ ہاتھ کار فرما ہے.