(۱) بعثت ِمحمدیؐ سے ماقبل کا دور

اس ضمن میں پہلا دورِ ظہور اسلام یعنی حضور  کی بعثت سے قبل کا دور ہے. اس دور میں یہودیوں اور عیسائیوں کے مابین شدید دشمنی اور عداوت تھی. سیدھی سی بات ہے کہ جس ہستی کو عیسائی‘ تثلیث کے عقیدے کے تحت الوہیت کا جزو مانتے ہیں‘ جنہیں وہ خداوند یسوع مسیح کہتے ہیں‘ ان کو (بزعم خویش) سولی پر چڑھانے والے یہودی علماء تھے. ان کے نزدیک حضرت مسیح بھی(معاذ اللہ) مرتد اور واجب القتل تھے اور جو بھی ان پر ایمان لایا‘ وہ بھی مرتد اور واجب القتل تھا. چنانچہ ان کے مابین تعلقات دشمنی اور عداوت کے حامل رہے. لیکن چھ سو برس پر محیط اس دشمنی اور عداوت میں دو رنگ ملتے ہیں. یعنی پہلے تین سو برس یہودی عیسائیوں پر بد ترین تشدد کرتے رہے جبکہ دوسرے تین سو برس میں عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی پٹائی ہوتی رہی. پہلے تین سو برس کے دوران یہودیوں کو سلطنت روما کی سرپرستی حاصل رہی‘ چنانچہ انہوں نے بت پرست رومیوں کے ذریعے عیسائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے. یہ بد ترین تشدد و تعذیب کا دور ہے جو عیسائیوں نے برداشت کیا ہے. اُس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کے سچے پیروکار موجود تھے جن پر یہودیوں نے بت پرست رومیوں کے ذریعے سے عرصہ ٔحیات تنگ کر رکھا تھا. اسی سلسلے کا واقعہ اصحاب کہف کا ہے جو حضرت مسیحؑ کے پیرو کار تھے اور بت پرست رومی شہنشاہ نے انہیں اَلٹی میٹم دے دیا تھا کہ یا تو اپنے اس مذہب عیسائیت سے تائب ہو جاؤ‘ ورنہ میں تمہیں سولی پر چڑھا دوں گا یا رجم کر دوں گا. تب وہ بے چارے ایک غار میں جا کر پناہ گزیں ہو گئے. یہ اُس دور کا واقعہ ہے. اصحابِ کہف تین سو برس تک اس غار میں رہے. اس کے بعد جب صورتحال تبدیل ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو بھی برآمد کر لیا. قرآن حکیم میں ان کی غار کے قیام کی مدت کے بارے میں الفاظ آئے ہیں: 

وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا 
(الکہف) 
یعنی وہ اپنی غار میں تین سو برس تک رہے بلکہ نو برس مزید بھی شمسی حساب سے ان کی مدتِ قیام تین سو برس بنتی ہے اور قمری حساب سے تین سو نوبرس‘ کیونکہ قمری حساب سے ہر صدی میں 
تین برس کا اضافہ ہو جاتا ہے.

۳۰۰ء میں رومی سلطنت میں یہ عظیم تبدیلی آئی کہ رومی شہنشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کر لی. چنانچہ اب عیسائیت نے ریاست کے سرکاری مذہب کی حیثیت اختیار کر لی اور اسے ایک گونہ فضیلت اور فوقیت حاصل ہو گئی. اس تبدیلی کے بعد اب عیسائیوں نے یہودیوں سے خوب گن گن کر بدلے لیے اور ان کی خوب مرمت کی. بہر حال ان چھ سو برسوں کے دوران یہود و نصاریٰ کے درمیان سخت چپقلش رہی‘ ان کے مابین دشمنی رہی اور جب جس کا دائو چل گیا اس نے مخالف سے بدلہ لیا. ان دوسرے تین سو سالوں کے دوران حضور  کی ولادت سے تقریباً چالیس برس قبل اور حضور  کی بعثت سے تقریباً پون صدی قبل‘ ایسی صورتحال پیدا ہو گئی کہ یمن میں جو بہت عرصے سے ایک عیسائی ملک چلا آ رہا تھا‘ یہودیوں کی حکومت قائم ہو گئی. وہاں سے انہوں نے جنوبی عرب میں نجران پر حملہ کیا جو عیسائیوں کا گڑھ تھا. فتح نجران کے بعد یہودی بادشاہ ذونواس نے عیسائیوں کو عیسائیت چھوڑنے پر مجبور کیا اور اس سے انکار پر اس نے سینکڑوں نہیں ہزاروں عیسائیوں کو آگ میں زندہ جلا دیا. قرآن حکیم میں یہ واقعہ سورۃ البروج میں مذکور ہے: 


وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ ۙ﴿۲﴾وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ﴿۳﴾قُتِلَ اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ ۙ﴿۴﴾النَّارِ ذَاتِ الۡوَقُوۡدِ ۙ﴿۵﴾اِذۡ ہُمۡ عَلَیۡہَا قُعُوۡدٌ ۙ﴿۶﴾وَّ ہُمۡ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ شُہُوۡدٌ ؕ﴿۷﴾ 


’’قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی‘ اور اُس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے (یعنی قیامت) اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی‘ کہ مارے گئے گڑھے کھودنے والے‘ (وہ گڑھے کہ جن میں) آگ تھی خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن والی‘ جبکہ وہ اس (کے کنارے) پر بیٹھے ہوئے تھے. اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے.‘‘

یہاں ’’مؤمنین‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ہیں. ظاہر بات ہے کہ حضور  کی بعثت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول تھے اور ان پر ایمان لانے والے‘ ان کے 
پیرو کار‘ مؤمن تھے. ان پر یہودیوں نے یہ ستم توڑا جس کا ذکر قرآن حکیم میں آیا ہے. یہ واقعہ ۵۲۳عیسوی کا ہے.

میں نے آپ کو چھ سوبرس کی داستان بتا دی ہے کہ اس عرصے میں ان کے مابین کوئی دوستی نہیں تھی‘بلکہ شدید ترین دشمنی تھی. پہلے تین سوبرسوں میں یہودیوں کا داؤ چل گیا توانہوں نے بت پرست رومیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کی خوب پٹائی کروائی اور اگلے تین سو برس میں چونکہ سلطنت روما بحیثیت مجموعی عیسائی ہو گئی تو پھر انہوں نے یہودیوں کی مرمت کروائی. البتہ اس دوران اتفاقاً ایسا ہو گیا کہ یمن میں عارضی طور پریہودیوں کی حکومت قائم ہو گئی تو انہوں نے پھر نجران کے عیسائیوں پر ظلم وستم کے پہاڑتوڑے.