نبی اکرم  کی بعثت کے وقت جو صورتحال تھی اس کااندازہ سورۃ المائدۃکی آیت۸۲ و مابعد سے ہوتا ہے: 

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَ رُہۡبَانًا وَّ اَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ 


’’تم تمام انسانوں میں اہل ایمان کے شدید ترین دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے. اور ان سب میں قریب ترین پاؤ گے محبت میں اہل ایمان کے لیے ان کو جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں . یہ اس لیے کہ ان میں بڑے عالم اور درویش لوگ ہیں اور اس لیے کہ وہ تکبر نہیں کرتے.‘‘

حضور  کی بعثت کے وقت ایسے حق شناس راہب موجود تھے. چنانچہ بحیرہ وہ عیسائی راہب تھا جس نے کہ حضور  کو بچپن ہی میں پہچان لیا تھا. حضرت سلمان فارسیؓ کی راہنمائی کرنے والا بھی ایک عیسائی راہب ہی تھا‘ جس نے آپؓ سے کہا تھا کہ جائو‘ میرا علم بتاتا ہے کہ جنوب میں کھجوروں کی سرزمین میں آخری نبیؐ کی نبوت کے ظہور کا وقت آگیا ہےـ. 
چنانچہ حضرت سلمان فارسی شام سے ایک قافلے کے ہمراہ چلے‘ راستے میں قافلے پر ڈاکہ پڑ گیا اور ان کو گرفتار کر کے غلام بنا کر بیچ دیا گیا. آپؓ کا خریدار مدینے کا ایک یہودی تھا. اس طرح آپؓ مدینہ پہنچ گئے‘ جبکہ حضور ابھی مکہ ہی میں تھے. ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت عیسائیوں میں کیسے کیسے لوگ موجود تھے.
پھر اس ضمن میں یہ بھی نوٹ کیجئے کہ جب ایرانیوں اور رومیوں کی جنگوں کا سلسلہ چل رہا تھا تو۶۱۴ء میں(یعنی حضور  کی بعثت کے چوتھے یا پانچویں برس) رومیوں کو ایرانیوں کے مقابلے میں بڑی زبردست شکست ہوئی. ہر قل کو ایسی شکست ہوئی کہ پورا شام اس کے ہاتھوں سے نکل گیا. ایرانیوں نے یروشلم کو تباہ و برباد کر دیا اور صلیب اکھاڑ کر ساتھ لے گئے. رومیوں کی اس شکست پر اُس وقت مسلمانوں کو افسوس ہوا تھا‘ کیونکہ مسلمانوں سے قریب ترین یہی تھے. دوسری طرف مشرکین مکہ نے بغلیں بجائیں کہ دیکھو ہمارے آتش پرست ایرانی بھائی فتح سے ہمکنار ہوئے ہیں اور تمہارے اہل کتاب بھائی‘ عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار (جنہیں تم بھی رسول مانتے ہو) شکست سے دو چار ہوئے ہیں. دیکھو ہمارے بھائیوں نے تمہارے بھائیوں کی خوب پٹائی کی ہے. اس پر مسلمانوں کی دلجوئی کے لیے سورۃ الروم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں: 


الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾غُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿۲﴾فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ ۙ﴿۳﴾فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ 

’’مغلوب ہو گئے ہیں رومی‘ قریب کی سر زمین میں‘ اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوں گے‘ چند برسوں میں.‘‘

قرآن حکیم میں پیشین گوئی کر دی گئی کہ عنقریب پانسہ پلٹ جائے گا اور دس سال سے کمکی مدت کے اندر اندر رومی پھر غالب آ جائیں گے. چنانچہ ایسا ہی ہوا اور عین غزوۂ بدر میں جب مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اسی وقت ہر قل نے ایرانیوں کو زبردست شکست دی. اس کے بعد قیصرِ روم ہرقل ننگے پائوں ‘ پاپیادہ چل کر بیت المقدس آیا تاکہ وہاں پر عبادت کرے اور صلیب جو واپس حاصل کر لی گئی تھی اس کو وہاں پر دوبارہ نصب کرے. یہ ساری صورتحال میں یہ واضح کرنے کے لیے بتا رہا ہوں کہ حضور  کی بعثت کے بعد اسلام 
اور مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کا معاملہ کیا رہا اور یہودیوں کا کیا رہا. یہودیوں نے بد ترین دشمنی کا معاملہ کیا لیکن عیسائیوں نے ہمدردی و خیر خواہی کا. آپ کو معلوم ہے کہ حبشہ کی سر زمین مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوئی تھی اور وہاں کے عیسائی بادشاہ نجاشیؒ ایمان بھی لے آئے تھے اگرچہ ان کی پوری قوم نے اسلام قبول نہیں کیا. نجاشی صحابی نہیں ہیں بلکہ انہیں تابعی کہا جاتا ہے‘ اس لیے کہ حضور  سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی. لیکن جب مدینہ میں ان کے انتقال کی خبر آئی تو حضور  نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی. اسی طرح جب حضور  نے مختلف سربراہانِ مملکت کو خطوط بھیجے تو آپ کو معلوم ہے کہ قیصر روم ہرقل نے کوشش کی تھی کہ پوری سلطنت روما ایک ساتھ اسلام قبول کر لے. وہ حضور  کو پہچان گیا تھا کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں‘ لیکن وہ چاہتا تھا کہ جس طرح تین سو سال قبل قسطنطین کے عیسائیت قبول کرلینے پر پوری مملکت عیسائی ہو گئی تھی اسی طرح اب پوری مملکت مسلمان ہو جائے. اس طرح میری حکومت باقی رہے گی‘ ورنہ اگر میں اکیلا ایمان لاؤں گا تو میری حکومت جاتی رہے گی ‘مجھے مار کے باہر نکال دیں گے. لہٰذا حکومت کی بیڑی اس کے پاؤں میں پڑی رہ گئی اور اس وجہ سے وہ محروم رہ گیا. ورنہ وہ حضور  کو پہچان چکا تھا. یہی وجہ ہے کہ غزوئہ تبوک میں اُس نے سامنے آنے کی جرأت نہیں کی‘ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اللہ کے رسول  سے مقابلہ کرکے میں کہاں بچ سکوں گا. حضور  تبوک میں کیمپ لگا کر قیام پذیر رہے اور آس پاس کے جتنے لوگ تھے ان سے معاہدات کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کی. لیکن وہ مقابلے پر نہیں آیا. مقوقس شاہ مصر بھی عیسائی تھا. اس کے پاس رسول اللہ  کا خط پہنچا تو اس نے حضور  کی خدمت میں ہدایہ بھیجے‘ اگرچہ وہ ایمان نہیں لایا. چنانچہ آنحضور  کے ساتھ نصاریٰ کا معاملہ ‘ یہودیوں کے برعکس دشمنی کا نہیں بلکہ کسی نہ کسی درجے میں تعاون کا رہا ہے. لہٰذا سورۃ المائدۃ کی آیت۸۳ میں ان کا بایں الفاظ ذکر ہے: 

وَ اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَی الرَّسُوۡلِ تَرٰۤی اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَقِّ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ 
’’اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول  پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھیں اُبل پڑتی ہیں آنسوؤں سے‘ اس وجہ سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا. کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے‘ ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے.‘‘

اس کے برعکس اسلام اور مسلمانوں کے شدید ترین دشمن یہودی اور مشرکین تھے‘ اگرچہ ان میں ایک فرق یہ تھا کہ مشرکین کی دشمنی صاف اور کھلی تھی‘ جبکہ یہود کی دشمنی سازشی انداز کی تھی. وہ سامنے آکر مقابلہ نہیں کرتے تھے. ان کے بارے میں قرآن حکیم میں الفاظ وارد ہوئے ہیں: 

لَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ جَمِیۡعًا اِلَّا فِیۡ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوۡ مِنۡ وَّرَآءِ جُدُرٍ 
( الحشر:۱۴
یعنی’’(اے مسلمانو) یہ یہودی ہر گز کبھی اکٹھے ہوکر(کھلے میدان میں) تمہارا مقابلہ نہ کر سکیں گے‘ لڑیں گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر‘‘. چنانچہ یہود کی دشمنی کا انداز سازشی رہا ہے. وہ اپنی سازشوں سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے. قرآن حکیم میں دو مقامات پر ان کی سازشوں کی طرف بایں الفاظ اشارہ کیا گیا ہے: 

یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ 
(الصف) اور 
یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲﴾ 
(التوبہ) 
یعنی ’’یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں‘ جبکہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا‘ خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے.‘‘ 


نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!