یہود و نصاریٰ کے باہمی تعلقات کے چوتھے دور کا آغاز ’’فتح سپین‘‘ سے ہوتا ہے. اُس وقت یہود’’خداوندیسوع مسیح کے قاتل‘‘ ہونے کے جرم میں پوری عیسائی دنیا میں مبغوض و مقہور تھے. یورپ میں یہ عیسائیوں کے ہاتھوں تختہ ستم بنے ہوئے تھے. لہٰذا انہوں نے عیسائیوں کے خلاف یہ چال چلی کہ جب حضرت طارق بن زیادؒ فتح سپین کے لیے داخل ہوئے تو انہوں نے ان کی مدد کی‘ کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے. اس کے نتیجے میں انہیں مسلم سپین میں تحفظ اور وقار حاصل ہوا. ظاہر بات ہے کہ جس نے فتح میں مدد کی ہو وہ تو گویا ایک طرح کا محسن ہوتا ہے. چنانچہ یہاں ہندوستان میں جب شیرشاہ سوری نے ہمایوں کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا تو پھر ہمایوں ایران سے شیعہ فوج ہمراہ لے کر آیا تھا اور یہ قزلباش جو یہاں آباد ہیں یہ اُس وقت کے آئے ہوئے ہیں. یہی وہ وقت تھا کہ جب شیعیت ہندوستان میں آئی‘ورنہ ہندوستان میں اس سے پہلے شیعیت کا وجود ہی نہ تھا. ہمایوں کی مدد کرنے پر انہیں بڑی بڑی جاگیریں اور بڑے بڑے عہدے ملے‘ نور جہاں شاہی محل کے اندر پہنچ گئی اور اس کا بھائی سپہ سالار اور گورنر بن گیا. چنانچہ شیعیت کو جس طرح یہاں فروغ حاصل ہوا‘ یوں سمجھئے کہ اسی طرح یہودیت کو اسپین میں فروغ حاصل ہوا‘ اس لیے کہ وہ مسلمان عربوں کے محسن تھے. یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے ’’بابائے قوم‘‘ اور پہلے وزیر اعظم بن گوریان (David Ben-Gurion) نے اپنی کتاب میں یہ الفاظ لکھے ہیں: ’’Muslim Spain is the golden age of our Diaspora.‘‘ 

یعنی مسلم سپین کا زمانہ ہمارے دورِ انتشار کا سنہری زمانہ ہے. اس لیے کہ اس میں انہیں عزت اور حفاظت ملی. لیکن ان بدبختوں کی احسان فراموشی اور محسن کشی ملاحظہ ہو کہ وہیں پر بیٹھ کر انہوں نے عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف بھی سازشیں کرنی شروع کر دیں.