یہودیوں نے حال ہی میں عیسائیوں پر آخری اور اہم ترین فتح اس طور سے حاصل کرلی ہے کہ پوپ کو بھی رام کر لیا ہے اور اس سے ایک فرمان جاری کروا لیا ہے کہ یہودی خداوند ِ یسوع مسیح کو صلیب دینے کے مجرم نہیں ہیں. اس طرح پوپ نے اس معاملہ میں یہودیوں کی براء ت کا اعلان کر دیا یعنی آج کے یہودی اس جرم میں شریک نہیں ہیں‘ یہ جرم حضرت مسیح علیہ السلام کے دور کے یہودیوں کا ہے. لیکن یہ فیصلہ کرتے ہوئے اس اصول کو نظر انداز کر دیا گیا کہ جو قوم اپنے اسلاف کے کسی عمل یا اقدام سے اعلانِ براء ت نہ کرے‘ اسے disown نہ کرے وہ اس جرم کے اندر شریک مانی جائے گی. تو یہودیوں نے تو آج تک اسے disown نہیں کیا. لہٰذا چاہے وہ ان کے اسلاف تھے جنہوں نے دو ہزار سال پہلے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا‘ لیکن یہ تو سوچئے کہ جو قوم اپنے اسلاف کے اس جرم سے اعلان ِ براء ت نہیں کر رہی اس کی آپ نے کیسے براءت کر دی؟

اور صرف یہی نہیں کیا. میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں جس سے اندازہ ہو گا کہ عیسائیوں نے یہودیوں کو اس الزام سے بچانے کے لیے کس طرح تاریخ کو بھی مسخ کیا ہے. مجھے اپنے زمانہ طالب علمی سے اناجیل اربعہ سے بڑی دلچسپی رہی ہے‘ خاص طور پر متی کی انجیل میں نے بہت شوق سے بار بار پڑھی ہے اور ایک زمانے میں میرے دروس میں اس کے حوالے بہت آیا کرتے تھے. ۱۹۶۲ء میں جبکہ میں کراچی میں تھا حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی پر مبنی ایک فلم ’’KING OF KINGS ‘‘ کے نام سے آئی. میں اگرچہ بارہ برس سے سنیما دیکھنا چھوڑ چکا تھا اور جب سے اسلامی جمعیت طلبہ اور تحریک اسلامی کے ساتھ وابستگی ہوئی تھی میں نے یہ ساری چیزیں یکسر چھوڑ دی تھیں ‘لیکن چونکہ مجھے حضرت مسیح علیہ السلام اور اناجیل سے خصوصی دلچسپی تھی لہٰذا میں ضبط نہ کر سکا اور جا کر یہ فلم دیکھی. اس کے قریباً بیس سال بعد جب میں امریکہ گیا اور وہاں معلوم ہوا کہ یہاں پر تمام پرانی فلموں کے ویڈیوکیسٹ مل جاتے ہیں تو میں نے اس فلم کی خواہش ظاہر کی. اور جب اس کی ویڈیومنگو ا کر دیکھی تو پتا چلا کہ پوری کی پوری فلم ہی بدل دی گئی ہے. گویا تاریخ کو مسخ کر دیا گیا. پورے کے پورے سین حذف کر دیے گئے. مثلاً جہاں یہودی علماء نے اپنی عدالت کے اندر حضرت مسیح علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا اور ان کے سب سے بڑے عالم نے اپنے کپڑے پھاڑے‘ اپنے بال نوچ لیے اور کہا کہ اس نے کفر بکا ہے‘ اس کو فوراً لے جائو اور سولی پر چڑھا دو! اس طرح کے سین ہی حذف کر دیے گئے. اسی طرح اُس وقت کے رومن گورنر نے یہودیوں سے کہا تھا کہ اس وقت میرے پاس دو مجرم قیدی ہیں‘ ایک برابا ڈاکو اور دوسرا یسوع… برابا ڈاکو ہمارا مجرم ہے‘ اس نے سلطنت کے خلاف اقدام کیا ہے اور یسوع تمہارا مجرم ہے‘ اسے تمہاری مذہبی عدالت نے سزا دی ہے. ہماری عید کا دن آ گیا ہے اور اپنی رسم اور روایت کے مطابق مجھے ایک مجرم قیدی کو چھوڑنا ہے. بتاؤ کس کو چھوڑ دوں؟ تو یہودی علماء نے کہا: برابا کو چھوڑ دو‘ اورہمارے اس مجرم کو سولی پر چڑھاؤ. تب رومی گورنر نے پانی منگایا‘ ہاتھ دھوئے اور کہا: 

’’I wash my hands off the blood of Jesus ‘‘ کہ میں اس سے اپنے ہاتھ دھو رہا ہوں‘ یسوع کا خون میرے سرپر نہیں‘ تمہارے سرپرآئے گا.

اور اس مسئلے کا جو ڈراپ سین ہوا ہے وہ بھی ملاحظہ کر لیں. ابھی حال ہی میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین صلح کی جو گفتگو شروع ہوئی تھی اس ضمن میں واشنگٹن سے واپس آتے ہوئے اسحق رابین روم میں رکے اور پاپائے روم کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی‘ جس میں انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد کا ایک جگ پوپ کو تحفے کے طور پر پیش کیا کہ تین ہزار برس تک ہم نے اس کی حفاظت کی ہے‘ اب اس کی حفاظت آپ کے ذمہ ہے. دوسری طرف اب ویٹی کان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور اب یروشلم میں اس کا سفارت خانہ قائم ہونے والا ہے اور پاپائے روم بہت جلد یروشلم کا دورہ کرنے والے ہیں. یہ اب تک کی آخری فتح ہے کہ جو یہودیوں نے عیسائیت پر حاصل کی ہے. نتیجتاً اب صورت یہ بن گئی ہے کہ یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ مکمل ہو گیا ہے.

اس کی پیشگی خبر بھی سورۃ المائدۃ ہی میں دے دی گئی تھی: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ 
(آیت ۵۱

یعنی ’’اے اہل ایمان‘ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بنائو! یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘. میں قبل ازیں ایک خطابِ جمعہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس آیۂ مبارکہ میں اُس وقت کے حالات کی تصویر کشی نہیں ہے‘ بلکہ اس کی حیثیت دراصل آج کے دور کے لیے پیشین گوئی کی ہے. اُس وقت تو یہ آپس میں دوست نہیں تھے. اس آیت میں قرآن حکیم یہ کہہ رہا ہے کہ بالآخر ان کا گٹھ جوڑ ہو جائے گا.
ق
رآن مجید نے اس حقیقت کو ایک اور انداز میںبھی پیش کیا ہے. سورہ آل عمران میں فرمایا: 

ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٭ 


’’لازم کر دی گئی ان پر ذلت جہاں بھی یہ پائے جائیں‘ سوائے اس کے کہ اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل جائے‘ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں اور ان پر محتاجی اور مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے. یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات کا کفر کرتے رہے اور پیغمبروں کو نا حق قتل کرتے رہے. یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے.‘‘

یعنی ان یہودیوں کے اوپر ذلت اور مسکنت مستقل طور پر تھوپ دی گئی ہے‘ اِلا یہ کہ کبھی اللہ تعالیٰ کے کسی وعدے کے نتیجے میں انہیں کوئی سہولت حاصل ہو جائے یا لوگوں کی حفاظت میں یہ زمین پر اپنے قدم جما سکیں ‘ورنہ انہیں زمین پر کہیں پناہ نہ مل سکے گی. اور یہ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ کا ایک مظہر ہے کہ آج یہ یہودی جو پوری دنیا میں تعداد کے لحاظ سے صرف تیرہ چودہ ملین ‘یعنی ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہیں‘ اپنے بینکنگ کے نظام کے ذریعے سے پوری دنیا پر چھا گئے ہیں اور یہاں تک کہ امریکہ جیسی سپریم پاور کی رگِ جان ان کے ہاتھ میں ہے. اس کے نتیجے میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آج یہودی عیسائیوں کی سرپرستی میں اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور اسلام کو ختم اور مسلمانوں کو اپنا باجگزار بنانا چاہتے ہیں. اسی کو آج’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے جو درحقیقت ’’جیوورلڈ آرڈر‘‘ ہے. یہ سب کچھ بظاہر عیسائیوں کی سرپرستی میں ہو رہا ہے‘ لیکن بباطن درحقیقت عیسائی یہودیوں کے آلۂ کار بن گئے ہیں.

میرے نزدیک یہ ہے وہ اصل بات جو آج عیسائیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمہارے ازلی دشمن یہودی آج تمہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں. ذرا سوچو تو سہی کہ تم کس کے آلۂ کار بن گئے ہو اور کر کیا رہے ہو؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ یہ ساری عالمی سازش یہودیوں کی ہے اور وہ درحقیقت عیسائیوں کو اپنا آلہ ٔکار بنا کر انہیں استعمال کر رہے ہیں. اس موجودہ صورتحال کی طرف حضرت یوحنا کے مکاشفات میں واضح طور پر اشارہ ملتا ہے. انجیل کے آخری باب ’’Revelation‘‘ میں یوحنا عارف کے مکاشفات کے ذیل میں ایک مکاشفہ درج کیا گیا ہے کہ

’’وہاں میں نے قرمزی رنگ کے حیوان پر جو کفر کے ناموں سے لپا ہوا تھا اور جس کے سات سر اور دس سینگ تھے ایک عورت کو بیٹھے ہوئے دیکھا. یہ عورت ارغوانی اور قرمزی لباس پہنے ہوئے اور سونے اور جواہر اور موتیوں سے آراستہ تھی اور ایک سونے کا پیالہ مکروہات یعنی اس کی حرام کاری کی ناپاکیوں سے بھرا ہوا اس کے ہاتھ میں تھا. اور میں نے اس عورت کو مقدس کا خون اور یسوع کے شہیدوں کا خون پینے سے متوالا دیکھا. ‘‘

اس مکاشفہ میں آگے چل کر اس حیوان اور اس کے دس سینگوں کی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

’’اور وہ دس سینگ جو تو نے دیکھے دس بادشاہ ہیں. ابھی تک انہوں نے بادشاہی نہیں پائی مگر اس حیوان کے ساتھ گھڑی بھر کے واسطے بادشاہوں کا سا اختیار پائیں گے. ان سب کی ایک ہی رائے ہو گی اور وہ اپنی قدرت اور اختیار اس حیوان کو دے دیں گے.‘‘ 

اس حیوان کی تمثیل آج کی ان مغربی قوتوں پر صادق آتی ہے جو اپنی زبردست جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ایک خونخوار طاقت بن چکی ہیں. اور اس حیوان کے اوپر سوار آبرو باختہ عورت درحقیقت یہودیت ہے.