پھر رفع مسیح کا معاملہ لیجیے. یہودی تو کہتے ہیں کہ مسیح مر گیا تھا ‘ اسے ہم نے سولی پر چڑھا دیا تھا. قرآن حکیم میں ان کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: 

اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ 
(النساء:۱۵۷

’’کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم ‘ رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے‘‘. جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قتل نہیں کیے گئے‘ زندہ آسمان پراٹھا لیے گئے. عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے‘ صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان کے نزدیک مسیح علیہ السلام صلیب دیے گئے‘ پھر زندہ ہو کر آسمان پر آٹھا لیے گئے. ہمارے نزدیک صلیب دیے جانے کا سوال ہی نہیں‘ کیونکہ اللہ کا رسول کبھی صلیب نہیں دیا جا سکتا. نبی تو قتل کیا جا سکتا ہے لیکن رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے: 
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ 
(المجادلۃ: ۲۱

’’اللہ نے یہ بات مقرر فرما دی ہے کہ میں اور میرے رسول لازماً غالب رہیں گے‘‘. چنانچہ سورۃ النساء میں یہود کے قتل مسیحؑ کے دعوے کو نقل کرنے کے فوراً بعد دو ٹوک الفاظ میں فرمادیا گیا: 

وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ 
(آیت ۱۵۷

’’حالانکہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا.‘‘ ان کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیا گیا. اور اس غلط فہمی کی وضاحت انجیل برنباس میں ہے کہ حقیقت میں وہی یہودا اسکریوتی جو آنجناب علیہ السلام کے حوارِیین میں شامل تھا اور جس نے سونے کی تیس اشرفیوں کے بدلے مخبری کر کے آپؑ کو گرفتار کروایا تھا اس کی شکل حضرت مسیح علیہ السلام کی سی بنا دی گئی اور اُسے آپؑ کی جگہ سولی پر چڑھا دیا گیا. 
وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ کا مفہوم یہی ہے کہ وہ اپنے خیال میں مسیح کو مصلوب کر رہے تھے لیکن درحقیقت اس بدبخت کو سولی پر چڑھا رہے تھے جس نے غداری کی تھی اور تیس اشرفیوں کے عوض اپنے خداوند ِیسوع مسیح علیہ السلام کو فروخت کر دیا تھا. اسے یہودی عدالت سے اس غداری کے انعام میں تیس اشرفیاں ملی تھیں. انجیل برنباس میں مزید تصریح ملتی ہے کہ آسمان سے چار فرشتے اترے‘ جو چھت پھاڑ کر اس کمرے میں داخل ہوئے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام عبادت کر رہے تھے اور انہیں اٹھا کر لے گئے. یہ تفصیلات کسی حدیث میں ہیں نہ کسی تفسیر میں‘ جو برنباس کی انجیل میں مذکور ہیں. اسے عیسائی بھی انجیل تو مانتے ہیں لیکن ان کے نزدیک یہ canonical یعنی مستند اور قابل اعتبار نہیں ہے. ۱۰۴ انجیلوں میں سے ان کے نزدیک صرف چار مستند اور قابل اعتماد ہیں . بہر حال ہماری رائے بھی یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ زندہ آسمان پر اٹھا ئے گئے اور ان کی رائے بھی یہی ہے. فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک وہ سولی دیے ہی نہیں گئے‘ بلکہ ان کی جگہ پر کسی اور کو سولی چڑھایا گیا‘ جبکہ ان کے نزدیک وہ سولی دیے گئے‘ پھر ان کا ’’resurrection‘‘ ہوا. یعنی پھر زندہ ہو گئے اور اس کے بعد آسمان پر اٹھائے گئے. لیکن یہودی تو سمجھتے ہیں کہ ہم نے انہیں قتل کر دیا‘ ختم کر دیا.