اب میں ایک خاص بات اضافی طور پر پاکستانی عیسائیوں سے کہنا چاہتا ہوں. عالمی سطح پر جو یہودی سازش چل رہی ہے وہ تو اب الم نشرح ہو چکی ہے‘ اس پر کتابیں بھی آ چکی ہیں‘ جنہیں دلچسپی ہو وہ ’’Pawns in the Game‘‘ جیسی کتابوں کا مطالعہ کر لیں. اب تو ان کا ’’Order of Illuminati‘‘ بھی پورے کا پورا طشت ازبام ہو چکا ہے. اور اب یہودیوں کو ان چیزوں کے افشاء سے کوئی اندیشہ بھی نہیں ہے‘ اس لیے کہ وہ اپنے سارے مقاصد حاصل کر چکے ہیں. صہیونیت نے عالم عیسائیت کو اپنے پھندے میں گرفتار کر کے اسے اپنا آلہ کار بنا لیا ہے اور اب اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے. لیکن اس کے علاوہ خاص طور پر پاکستان میں ایک اور معاملہ بھی ہے. عالمی صہیونیت (World Zionism) کے علاوہ ایک پاکستان کی دیسی یہودیت (Indigenous Zionism) بھی ہے جس سے میں پاکستانی مسیحیوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں. میری مراد قادیانیت سے ہے اور جہاں تک میری معلومات ہیں یہ قادیانی پاکستانی مسیحیوں کو استعمال کر رہے ہیں. یہ خود تو سامنے آنہیں سکتے‘ کیونکہ ملکی قانون ان کی راہ میں رکاوٹ ہے. اگرچہ درپردہ ان کی تبلیغی سرگرمیاں بھی جاری ہیں‘ کنونشن بھی منعقد ہوتے ہیں‘سیٹلائٹ کے ذریعے سے خطبات بھی آرہے ہیں‘ لیکن اس سب کے باوجود قادیانی برملا طور پر کھلم کھلا سامنے نہیں آ سکتے‘ لہٰذا اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انہیں کسی کور (cover) کی ضرورت ہے‘ اور اپنی یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے انہوں نے یہاں کے عیسائیوں کو ورغلایا ہے. لہٰذا مجھے پاکستانی مسیحیوں سے یہ عرض کرنا ہے کہ جہاں وہ عالمی یہودی سازش کا آلہ کار بننے سے بچیں‘ وہیں اس ’’دیسی یہودیت‘‘ سے بھی خبردار رہیں. اس کے بارے میں بھی انہیں صحیح صحیح معلومات ہونی چاہئیں. چنانچہ ذرا ان کے ساتھ بھی اپنے عقائد کا موازنہ کریں تو اندازہ ہو کہ اختلاف کس درجے زیادہ ہے. 

مسلمانوں کے برعکس قادیانی بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی بغیر باپ کے ولادت کے قائل نہیں ہیں‘ لہٰذا وہ یہودیوں کے قریب تر ہو گئے یا نہیں؟ محمد حسین نامی ایک شخص جو بہت عرصے تک لاہوری مرزائیوں کے انگریزی پرچے (The Light) کا ایڈیٹر رہا تھا‘ مرزائیت سے منحرف ہو گیا تھا. بقول اس کے وہ لاہوریت اور قادیانیت دونوں سے اعلانِ براء ت کر چکا تھا. وہ شخص میرے دروس میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا تھا اور میرے لیے وہی القابات استعمال کرتا تھا جو یہ لوگ اپنے بڑے بڑے لوگوں کے بارے میں استعمال کرتے ہیں. میرے پاس اس کی وہ کتاب بھی موجود ہے جس میں اس نے میرے لیے وہ القابات لکھے ہوئے ہیں. لیکن اس شخص نے جب میرا سورۂ مریم کا درس سنا جس میں میں نے یہ الفاظ استعمال کیے کہ جو شخص بھی اس بات کو نہیں مانتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی ہے وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا‘ تو اس دن کے بعد وہ میرے درس میں نہیں آیا ‘اور صرف یہی نہیں بلکہ اس نے میرے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا‘ پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کیے اور میرے خلاف سازشیں شروع کر دیں‘ حالانکہ کہنے کو وہ قادیانیت سے تائب ہو چکا تھا. لیکن اس کے باوجود وہ اس معاملے میں قادیانیوں کے عقیدے پر قائم تھا. اس لیے کہ وہ اگرچہ بشیر الدین محمود سے تو بہت نالاں تھا لیکن حکیم نور الدین کا بہت معتقد تھا اور حکیم نور الدین کی رائے یہ ہے کہ مسیح کی پیدائش بن باپ کے نہیں ہوئی. 

پھر قادیانی یہودیوں کی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کے بھی قائل نہیں ہیں‘ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مسیح وہاں سے بھاگ کر یہاں کشمیر آیا اور یہاں مر گیا اور دفن ہو گیا. ان کے نزدیک یہاں اس کی قبر بھی موجود ہے. تو کون تم سے قریب تر ہے؟ غور کرو‘ سوچو کہ کس کے ہتھکنڈوں میں آرہے ہو! قادیانیوں کا یہ موقف قرآن کے فلسفہ کے سراسر خلاف ہے. میں اس اعتبار سے اس پر تنقید کروں گا تو بات زیادہ طویل ہو جائے گی. بہر حال مختصراً جان لیجیے کہ کوئی رسول جان بچا کر نہیں بھاگا کرتا. البتہ ہجرت ہوسکتی ہے. لیکن رسول کی ہجرت کے بعد یا تو پوری قوم ہلاک کر دی جاتی ہے یا رسول کو ان کے اوپر فتح حاصل ہوتی ہے‘ غلبہ نصیب ہوتا ہے‘ جیسے حضرت محمد ٌرسول اللہ  کو مکہ پر فتح حاصل ہوئی اور حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک جن جن رسولوں نے بھی ہجرت کی ان کی قومیں ہلاک کر دی گئیں. اللہ کی سنت تو یہ ہے. اس کے برعکس یہ کہنا کہ مسیح وہاں سے جان بچا کر بھاگ کر آگئے اور یہاں گمنامی میں ان کی موت واقع ہو گئی سراسر غلط ہے. معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ. اللہ کے کسی رسول کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو گی!

تیسری بات یہ کہ قادیانی حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کی طرح ان کی دوبارہ آمد کے بھی منکر ہیں. اس ضمن میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اصل میں تو’’مثیل ِمسیح‘‘ کو دنیا میں آنا تھا اور وہ آ گیا مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں. تو اگر تمہارے قول کے مطابق مسیح دجال اور اینٹی کرائسٹ بنتا ہے تو وہ مرزا قادیانی آنجہانی بنتا ہے. اس نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں. لیکن عیسائیوں کا انہی کے ہتھکنڈوں کے اندر آ جانا اور انہی کے آلہ ٔکار بن جانا کس قدر قابل تعجب بات ہے! اس پر مجھے اقبال کا یہ شعر یاد آ رہا ہے ؎

شیاطین ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری


یعنی شکار خود یہ چاہے کہ مجھے شکار کر لیا جائے.

دراصل اس دیسی یہودیت یا ہندی یہودیت کو ملک خدا اداد پاکستان سے اس لیے بغض وعداوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملت ِ اسلامیہ پاکستان کو توفیق عطا فرمائی کہ اس نے علماء کے اجماع
(consensus) کے ساتھ‘ قانون اور دستور کے تمام تقاضے پورے کرکے دستوری طور پر ان کی تکفیر کی. اور ایسا نہیں ہوا کہ ان کی بات نہ سنی گئی ہو. مرزا ناصر احمد کو قومی اسمبلی میں بلا کر پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنے موقف کا پوری طرح دفاع کرے. اُس نے برملا کہا کہ ہم مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں. اس کے بعد پوری اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر یہ اس موقف پر قائم ہیں تو دائرہ اسلام سے خارج ہیں. لہٰذا وہ ہم سے اس کا انتقام لینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے یہاں کے مسیحیوں کو اپنا آلہ کار بنانا چاہتے ہیں. اب ہمارے یہاں کے عیسائی بھائیوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے خلاف کس کے آلۂ کار بن رہے ہیں؟ ہم تو خود منتظر ہیں حضرت مسیح علیہ السلام کے اور وہ حضرت مسیحؑ ابن مریم ہوں گے‘ کوئی مثیل مسیح نہیں. قادیانیت کے اسی شوشے کی علامہ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ نامی نظم میں اس طرح تعبیر کی ہے ؎ 

آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزند ِ مریم کے صفات؟


یہ قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ فرزند ِ مریم کی صفات کا حامل مجدد یہ غلام احمد آ گیا ہے‘ بس اب کسی اور مسیح کو نہیں آنا ہے. جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ‘ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں‘ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ‘ عیسیٰ ابن مریم‘ دوبارہ بنفس نفیس دنیا میں تشریف لائیں گے. البتہ ان کے نزول سے قبل یہودیوں میں سے ایک مسیح دجال کھڑا ہو گا ‘جسے حضرت مسیح علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے مقامِ ’’لُد‘‘ پر قتل کریں گے. (واضح رہے کہ ’’لِڈا‘‘ اسرائیل کا سب سے بڑا ایئربیس ہے) اُس وقت عالم اسلام کے لیڈر حضرت مہدی ہوں گے. میری مراد شیعوں والے مہدی یعنی ان کے بارہویں امام نہیں ہیں‘ جو کسی غار کے اندر روپوش ہیں اور کبھی ظاہر ہوں گے‘ بلکہ 
وہ عالم اسلام کے ایک عظیم قائد ہوں گے جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل سے پیدا ہوں گے. ممکن ہے وہ اب تک پیدا ہو چکے ہوں‘ اس لیے کہ حالات تو بڑے قریب آ چکے ہیں‘ اس حوالے سے کیا پتا کہ کوئی دن کی بات ہو کہ ان کی طرف سے دعویٰ سامنے آ جائے جس کی پوری تفاصیل احادیث میں موجود ہیں. اس مہدی کی نصرت کے لیے ایک تو زمینی مدد جائے گی اور ایک آسمانی مدد آئے گی. زمینی مدد مشرق کے ممالک یعنی پاکستان اور افغانستان کی طرف سے جائے گی اور آسمانی مدد حضرت مسیح علیہ السلام عیسیٰ ابن مریم کی صورت میں نازل ہو گی. مسیح ابن مریم مہدی کی مدد کریں گے جس کے نتیجے میں دنیا سے یہودیوں کا قلع قمع ہو جائے گا. پھر اس کے بعد اسلام اور عیسائیت ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں گے اور صرف اسلام ہی باقی رہ جائے گا. حضرت مسیحؑ آ کر مسیحیوں کو بتائیں گے کہ مجھے سولی نہیں دی گئی‘ تم کہاں عقیدۂ صلیب لے کر بیٹھے ہو .(ازروئے حدیث نبوی: فَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ پس وہ صلیب کو توڑ دیں گے )تمہارا خیال غلط ہے کہ مجھے صلیب دی گئی. بات وہ صحیح ہے کہ جو برنباس نے کہی. اپنے نام لیوؤں سے کہیں گے کہ تم نے خنزیر کا کھانا اپنے لیے حلال کر لیا تھا‘ آج اس کو ختم کیا جاتا ہے. (وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ اور خنزیر کو قتل کر دیں گے) شریعت ِموسوی میں تو خنزیر حرام ہی تھا. لہٰذا جب یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی تو عیسائیت اسلام ہی کی شکل اختیار کر لے گی اور پھر پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا.

تو مسیحی بھائیو! یہ ہیں ہمارے عقائد! آپ ہمارے پورے عقائد چاہے نہ مانیں ‘ لیکن آج کی میری گفتگو کے حوالے سے اس پر غور تو کریں کہ آپ کے عقیدے سے قریب ترین کون ہے: یہودی یا مسلمان؟ اور قادیانی یا مسلمان؟ کم سے کم اتنا تقابلی جائزہ تو ہر شخص لے سکتا ہے. اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ حقائق کو دیکھیں اور جو ریشہ دوانیاں اور سازشیں ہیں ان کی حقیقت کو سمجھنے کے قابل ہو سکیں. آمین!