سورۂ آل عمران اور سورۃ المائدۃ کی بعض آیات کے حوالے سے ایک تقابلی جائزہ

وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۲﴾یٰمَرۡیَمُ اقۡنُتِیۡ لِرَبِّکِ وَ اسۡجُدِیۡ وَ ارۡکَعِیۡ مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ؕ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یُلۡقُوۡنَ اَقۡلَامَہُمۡ اَیُّہُمۡ یَکۡفُلُ مَرۡیَمَ ۪ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿۴۴﴾اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۴۶﴾قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۴۷﴾وَ یُعَلِّمُہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ﴿ۚ۴۸﴾وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۵۰﴾اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۵۱﴾فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنۡہُمُ الۡکُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۚ وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۵۲﴾رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ وَ اتَّبَعۡنَا الرَّسُوۡلَ فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۵۳﴾وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿٪۵۴﴾ آل عمران:۴۲ تا ۵۴ 

’’ذرا یاد کرو جبکہ فرشتوں نے مریم سے کہا تھا: اے مریم! اللہ نے تمہیں چن لیا ہے‘ تمہیں خوب پاک کر دیا ہے اور تمہارا انتخاب کر لیا ہے تمام جہان کی خواتین پر. اے مریم! اپنے رب کے لیے کھڑی رہا کرو‘ اور سجدہ کرو اور رکوع کیا کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ. (اے نبی  ) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی جانب وحی کر رہے ہیں. آپ تو ان لوگوں کے پاس موجو دنہیں تھے جب وہ(ہیکل کے خادم) قرعہ اندازی کر رہے تھے کہ کون مریم کی کفالت کرے گا‘ اور آپ تو وہاں موجود نہیں تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے. اور یاد کرو جبکہ فرشتوں نے مریم سے کہا: اے مریم! اللہ تعالیٰ تمہیں بشارت دے رہا ہے اپنی طرف سے ایک کلمے کی‘ جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا‘جو دنیا اور آخرت میں باعزت ہو گا اور ہمارے بہت مقرب بندوں میں سے ہو گا. اور وہ لوگوں سے بات کرے گا گود میں بھی(جبکہ وہ شیر خوار ہو گا) اور بڑی عمر میں بھی. اور وہ ہمارے صالح بندوں میں سے ہو گا.‘‘ 


یہاں کَلِمَۃٌ مِنْہُ کے الفاظ بڑی اہمیت کے حامل ہیں‘ تاہم وقت کی کمی کے باعث اس وقت ان پر تفصیلی گفتگو ممکن نہیں. انجیل میں[سینٹ یوحنا (John) کے گوسپل کے ابتدائی حصے میں]بھی یہ مضمون آیا ہے جو قرآن حکیم میں دو تین مقامات پر وارد ہوا ہے. حضرت مسیح علیہ السلام کو کلمہ کیوں کہا گیا؟ اس کے بارے میں مَیں ایک مضمون میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں جو حکمت قرآن میں شائع ہو ا تھا‘ لیکن ہنوز کتابی شکل میں نہیں آیا. سینٹ یوحنا نے بھی بات یہیں سے شروع کی ہے:’’اس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتدا سے تھا…‘‘کلمہ یا کلام متکلم کی شخصیت کا جزو لاینفک ہوتا ہے‘ وہ اس سے صادر ہوتا ہے اور اللہ کا کلامِ ’’کُن‘‘ اس کائنات کی تخلیق کا ذریعہ بنا ہے. جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے حرفِ ’’کُن‘‘ سے پیدا کرنی چاہیں وہ پیدا کردیں اور انہیں مخصوص طبعی اور کیمیائی خصوصیات ودیعت کر دیں.

اب یہ نظام مخصوص طبعی و کیمیائی قوانین کے مطابق خودبخودچل رہا ہے اور اس کو چلانے کے لیے مزید ’’کُن‘‘ کی ضرورت نہیں. گویا کہ چابی بھر دی گئی ہے اور گاڑی خود بخود چل رہی ہے. لیکن جہاں اس نظام کو توڑا جائے گا‘ اس کے طبعی قوانین کے خلاف کہیں جانا ہو گا وہاں ایک اضافی ’’کُن‘‘ درکار ہو گا. Theory of Evolution) اور Theory of Mutation کے درمیان اصل مسئلہ بھی اسی لفظ ’’کُن‘‘ سے حل ہوتا ہے. )حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کَلِمَۃٌ مِنْہُ اس لیے کہا گیا کہ انہیں بن باپ کے پیدا کیا گیا. یہاں پر طبعی قانون ٹوٹ رہا تھا‘ طبعی قانون کے تحت ولادتِ انسانی کا سلسلہ ایک ماں اور ایک باپ سے ہوتا ہے‘ لیکن یہاں اس سلسلے کی ایک کڑی موجود نہیں تھی‘ لہٰذا تخلیق مسیح کے ضمن میں یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافی کلمہ کن کی صورت میں صادر ہوا.

یہ بھی واضح رہے کہ کہولت کی عمر پچاس سال کے بعد شروع ہوتی ہے‘ جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع ِ سماوی (یا عیسائیوں کے نزدیک ان کا مصلوب ہونا) ۳۳ برس کی عمر میں ہوا. چنانچہ ان الفاظ قرآنی میں ان کی آمدثانی کی پیشین گوئی ہے. حدیث نبویؐ کے مطابق زمین پر دوبارہ آنے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کی شادی بھی ہو گی اور ان کے ہاں اولاد بھی ہو گی.اور وہ ہمارے صالحبندوں میں سے هو گا. ’’مریم نے کہا: پروردگار (یہ مجھے کیا خوشخبری دی جا رہی ہے؟) میرے ہاں کوئی اولاد کیسے ہو جائے گی جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں. فرمایا: اسی طرح ہو گا‘ اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے(اس کا اختیار مطلق ہے‘ وہ قانونِ طبعی کا پابند نہیں ہے‘ بلکہ قانونِ طبعی اپنے نتائج و آثار کے لیے اس کے اِذن کا محتاج ہے) وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے. اور اللہ اسے سکھائے گا کتاب بھی اور حکمت بھی اور تورات بھی اور انجیل بھی.‘‘

یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح علیہ السلام کو سکھائے جانے کے ضمن میں چار چیزوں کا ذکر ہوا ہے‘ یعنی کتاب‘ حکمت‘ تورات اور انجیل. آج کی نشست میں ان کے بارے میں قدرے مفصل گفتگو ہو گی.

’’اور وہ رسول ہو گا بنی اسرائیل کی طرف‘‘. 

یہاں 
وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ (آیت ۴۹کے الفاظ بہت اہم ہیں. ان میں گویا یہ صراحت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پوری نوع انسانی کی طرف رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے. خود حضرت مسیح علیہ السلام کا قول موجود ہے کہ میں تو اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں. (اور جب وہ بحیثیت رسول بنی اسرائیل کے پاس آئے تو انہوں نے کہا:)

’’میں تمہارے پاس آیا ہوں تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لے کر(اور ایسی ایسی عظیم نشانیاں لے کر) کہ میں تمہارے سامنے گارے سے پرندے کی شکل بناتا ہوں‘ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑتا ہو ا پرندہ بن جاتا ہے. اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاداندھے اور کوڑھی کو(ہاتھ پھیر کر) بھلا چنگا کر دیتا ہوں. اور اللہ کے حکم سے میں مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں اور میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ تم کیا کھا کر آئے ہو اور کیا تم نے ذخیرہ کر کے اپنے گھروں کے اندر رکھا ہوا ہے. اس میں یقینا تمہارے لیے بھرپور نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو. اور جو تورات میرے سامنے موجود ہے میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں. اور میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے لیے بعض ان چیزوں کو حلال کر دوں جو(مولویانہ موشگافیوں کی وجہ سے) تم پر حرام کر دی گئی ہیں.

اور دیکھو‘ میں تمہارے پاس یہ نشانی لے کر آیا ہوں تمہارے رب کی طرف سے ‘ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو. یقینا اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے ‘ چنانچہ تم اسی کی بندگی کرو. یہی ہے جو سیدھا راستہ ہے. پھر جب عیسیٰ( علیہ السلام )نے بنی اسرائیل کی طرف سے یہ محسوس کیا کہ یہ کفر و انکار پر اڑ گئے ہیں توندا بلند کی کہ کون ہیں جو میرے مددگار ہوں اللہ کی راہ میں؟ حواریوں نے (ان کی ندا پر لبیک کہتے ہوئے )کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار! ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں‘ آپ بھی گواہ رہیں کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں. اے پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں اُس پر جو تو نے نازل فرمایا‘ اور ہم نے تیرے رسول کی پیروی قبول کی‘ پس تو ہمارا نام گواہی دینے والوں میں درج کر لے. اور بنی اسرائیل نے (مسیح علیہ السلام کے خلاف) اپنی سی چالیں چلیں اور اللہ نے اپنی چال چلی. اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے.‘‘
اللہ کی چال یہ تھی کہ جس شخص(یہوداا سکریوتی) نے حضرت مسیح علیہ السلام سے غداری کرتے ہوئے مخبری کی تھی اس کی شکل حضرت مسیح علیہ السلام کی سی بنا دی گئی‘ چنانچہ وہ گرفتار ہوا اور سولی چڑھ کر کیفر کردار کو پہنچا. اس طرح اسے اپنے کیے کی سزا مل گئی اور آسمان سے اترنے والے چار فرشتے حضرت مسیح علیہ السلام کو زندہ سلامت آسمان پر اٹھالے گئے. اس کی پوری تفصیل انجیل برنباس میں موجود ہے.

سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیات میں حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے قبل حضرت مریم کو دی جانے والی بشارتوں سے بات شروع ہوئی‘ پھر قوم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کا ذکر بھی ہوا. گویا یہ تو دنیا کا معاملہ ہوا‘ قیامت کے دن کیا ہوگا؟ اسے سورۃ المائدۃ کے آخر میں اس طرح بیان کیا گیا: 

یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَا عِلۡمَ لَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۰۹﴾اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ اذۡکُرۡ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ ۘ اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ۟ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا ۚ وَ اِذۡ عَلَّمۡتُکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۚ وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا فَتَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِیۡ وَ تُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ تُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ کَفَفۡتُ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَنۡکَ اِذۡ جِئۡتَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۱۰﴾وَ اِذۡ اَوۡحَیۡتُ اِلَی الۡحَوَارِیّٖنَ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِیۡ وَ بِرَسُوۡلِیۡ ۚ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّنَا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾ 


’’جس روز اللہ تعالیٰ سب رسولوں کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا؟ (یعنی تمہاری دعوت کے نتیجے میں تمہاری قوموں کا رد عمل کیا تھا؟) تو وہ کہیں گے کہ ہمیں کل علم تو حاصل نہیں ہے‘ تمام غیبوں کا جاننے والا تو خود ہے.‘‘ 

یہ گویا ادب کا کلمہ 
ہے کہ بجائے اپنی طرف سے بات شروع کر دینے کے‘ اپنے علم کی نفی کی جائے. جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرز عمل یہ تھا کہ جب حضور  ان سے کوئی سوال کرتے تو اکثر و بیشتر پہلے ایک دو مرتبہ کہتے : اللّٰہُ وَرسولُہ اَعْلَم. پھر جب آپؐ اصرار کرتے تو اپنی طرف سے جواب دینے کی کوشش کرتے.

’’(پھر تصور کرو اس موقع کا) جب اللہ فرمائے گا :اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ؑ!ذرا یاد کرو میرے ان انعامات کو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوئے. جب میں نے روح القدس سے تمہاری تائید اور مدد کی‘ تم لوگوں سے گفتگو کرتے تھے جبکہ تم گود میں تھے اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی.‘‘

یہ قرآن حکیم کا بڑا پر جلال مقام ہے. حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے تمام تر علو ِمرتبت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ایک بندے ہی تو ہیں . شیخ ابن عربی کی جانب منسوب یہ ایک بڑا پیارا شعر ہے ؎ 

الرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّل 
وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی 


’’رب رب ہی ہے خواہ وہ کتنا ہی نزول فرما لے اور بندہ بندہ ہی رہتا ہے خواہ اسے کتنا ہی عروج حاصل ہو جائے.‘‘ 

حدیث ِنبویؐ کے مطابق ہر شب کے پچھلے حصے میں اللہ تعالیٰ سماء ِدنیا یعنی پہلے آسمان تک نزول فرماتا ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رب کہیں نیچے آ گیا‘ بلکہ رب تو رب ہی ہے. اور بندہ خواہ کتنے ہی مقامات بلند حاصل کر لے‘ خواہ اسے کتنا ہی عروج حاصل ہو جائے وہ بندہ ہی رہتا ہے. محمد عربی  ساتویں آسمان تک پہنچ کر بھی’’عبد‘‘ ہی رہے: 
فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی. میں نے قرآن حکیم کے دو مقامات سے چند آیات اور ان کا ترجمہ آپ کے سامنے رکھا ہے تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن مجید کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں اہل سنت کے عقائد کیا ہیں. ان کو مدنظر رکھتے ہوئے عیسائیوں کو ذرا سوچنا چاہیے کہ وہ کس کی مخالفت کس کے آلہ کار بن کر کر رہے ہیں. اس موضوع پر میں اپنے یہاں کے گزشتہ خطابِ جمعہ میں قدرے تفصیل سے بات کر چکا ہوں. ہم اپنے وسائل کے مطابق ان باتوں کو عام کرنا چاہتے ہیں. باقی ان کے نتائج و عواقب اللہ کے ہاتھ میں ہیں.