آج اصل میں مَیں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں ایک تو عیسائیوں اور یہودیوں کے اندر مختلف غلط فہمیاں ہیں‘ لیکن خود ہم مسلمانوں میں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں بہت سے مغالطے موجود ہیں‘ خاص طور پر ان کی تعلیمات کے بارے میں ہم بہت سے مغالطوں کا شکار ہیں. مثلاً یہ بات آپ کو بہت عام ملے گی اور ہمارے عام واعظین اور مقررین حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا اسلامی تعلیمات سے تقابل کرتے ہوئے اسے بڑے زور شور سے بیان کرتے ہیں اور اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہیں کہ’’اگر کوئی تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے تو بایاں گال بھی اُس کے سامنے پیش کرد و‘‘. اسے بڑی خلافِ فطرت تعلیم قرار دیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں قرآن کا قانونِ قصاص پیش کیا جاتا ہے. میں اصل میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور قرآن مجید کی تعلیمات میں یہ جو ظاہری تضاد نظر آتا ہے اس کی اصل وجہ‘ اس کا سبب اور اس کی بنیاد کیا ہے اور اس کی تہہ میں اصل کیا چیز کار فرما ہے؟ اس کے لیے پہلے ان چارچیزوں کو سمجھنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح علیہ السلام کو تعلیم دی گئیں اور جن کا ذکر قرآن مجید کے مذکورہ بالا دونوں مقامات پر آیا ہے. یعنی (۱) کتاب(۲) حکمت(۳) تورات (۴ ) انجیل