انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کے بارے میں ایک مغالطے کا ازالہ

لیکن اس اعتبار سے پہلے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خود نبی اکرم  کے اساسی منہاج کے بارے میں جو چاراصطلاحات (تلاوتِ آیات‘ تزکیہ‘ تعلیم کتاب‘ تعلیم حکمت) قرآن مجید میں چار مرتبہ آئی ہیں خود ان کے بارے میں مسلمان مغالطوں میں مبتلا ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں کیوں نہیں ہو جائیں گے؟ سورۃ البقرۃ میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: 

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ 
(آیت ۱۲۹

’’پروردگار‘ ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو‘ جو انہیں تیری آیات سنائے‘ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے.‘‘
یہ سورۃ البقرہ کا پندر ہواں رکوع ہے. اسی سورۃ کے اٹھارہویں رکوع میں فرما دیا گیا کہ دیکھو‘ ابراہیم اور اسماعیل ( علیہما السلام)نے جو دعا کی تھی‘ محمد رسول اللہ ( ) دراصل اسی کا ظہور ہیں: 


کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ… 
(البقرۃ:۱۵۱

’’جیسا کہ ہم نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا ‘ جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے‘ تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے…‘‘
سورۃ البقرہ اور سورہ آل عمران کے مابین آپس میں نسبت ِزوجیت ہے‘ چنانچہ یہی مضمون 
زیادہ آن بان اور شان کے ساتھ سورہ آل عمران میں بایں الفاظ آگیا : 

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ 
(آیت ۱۶۴

’’درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اُس کی آیات انہیں سناتا ہے‘ ان کی زندگیاں سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے.‘‘

اور آخری مرتبہ یہ مضمون سورۃ الجمعہ میں آیا: 


ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ 
(آیت ۲

’’وہی ہے جس نے اُمیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا‘ جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے‘ اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے.‘‘
اس ضمن میں مَیں نے کل ہی قرآن کالج میں ایک سالہ رجوع الی القرآن کورس کے شرکاء کو اپنے ایک مضمون ’’انقلابِ نبویؐ کا اَساسی منہاج ‘‘ کا مطالعہ کروایا ہے. بیس صفحات پر مشتمل یہ مضمون دراصل میں نے۱۲ ربیع الاول ۱۹۷۷ء کو شام ہمدرد کی ایک تقریب میں مقالے کی صورت میں پیش کیا تھا. واقعہ یہ ہے کہ ان چار اصطلاحات کے ضمن میں مسلمانوں کے ذہنوں میں بہت بڑے مغالطے موجود ہیں اور وہ ان میں سے صرف دو (یعنی تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب) کو قرآن سے متعلق سمجھتے ہیں.’’تلاوتِ آیات‘‘ سے قرآن کا پڑھ کر سنا دینا مراد لیا جاتا ہے اور عام طور پر ہمارے علماء اس کی وضاحت کرتے ہوئے تلاوتِ آیات کو ناظرہ قرآن پڑھا دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں. ’’تزکیہ‘‘ کو ایک بالکل علیحدہ شے سمجھا جاتا ہے اور اسے اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا. تاہم ’’تعلیم کتاب‘‘ کا مفہوم قرآن حکیم کی تعلیم ہی سمجھا جاتا ہے. گویا تلاوتِ آیات میں قرآن کا ناظرہ پڑھنا پڑھانا اور پھر تعلیم کتاب میں قرآن حکیم کا ترجمہ و 
وتفسیر آ جاتے ہیں. لیکنالْحِکْمَۃ کو پھرقرآن سے خارج قرار دیا جاتا ہے اور اس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ سنت ہے‘ حدیث ہے یا کوئی اور شے ہے. اس طریقے سے ان چاروں کو علیحدہ علیحدہ کر کے دو اور دو میں تقسیم کر دیا گیا ہے‘ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ چاروں درحقیقت قرآن مجید ہی کے اجزاء ہیں.