تلاوتِ آیات ہی کا منطقی نتیجہ ’’تزکیہ‘‘ ہے. یعنی جب آپ کا فکر درست ہو جائے گا تو عمل بھی درست ہو جائے گا ؏ ’’گندم از گندم بروید جو زِجو!‘‘ اگر فکر‘ عقیدہ اور نظریات غلط ہیں تو اعمال بھی غلط ہوں گے. اگر آپ کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں‘ بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘ تو پھر آپ گلچھرے اڑائیں گے‘ جو بھی کر سکیں گے کریں گے. پھر آپ کا نظریہ یہ ہو گا کہ جہاں بھی ہاتھ پڑ سکتا ہو اسے کیوں روکا جائے؟ لیکن اگر یہ یقین ہو جائے کہ نہیں‘ مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے اور اخروی محاسبہ کے نتیجے میں جزا و سزا کا سامنا کرنا ہے تو آپ پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے. اس سب کا دارومدار آپ کی فکر پر ہے. چنانچہ تزکیہ دراصل غلط مادہ پر ستانہ ‘ ملحدانہ اور مشرکانہ افکار و نظریات کی جڑیں کاٹ کر توحید و رسالت اور معاد کی بنیاد پر ایک شخص کے ذہن کی تعمیر نو کا نتیجہ ہے. اب اس سے اس کے برے اعمال‘ برے اخلاق‘ برے کردار اور بری عادات اسی طرح جھڑ جائیں گی جیسے پت جھڑ میں درختوں کے پتے جھڑ جاتے ہیں. خود قرآن حکیم میں یہ الفاظ آئے ہیں: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ 
(یونس:۵۷
’’لوگو‘ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے‘ یہ وہ چیز ہے جو 
دلوں کے امراض کی شفاء ہے…‘‘

یعنی سینوں کے اندر جو روگ ہیں ان کی شفاء بھی یہی قرآن ہے.