ایک اعتبار سے قرآن مجید ان سب چیزوں کا جامع بھی ہے‘ اس میں یہ چاروں چیزیں بھی موجود ہیں اور پھر یہ چاروں چیزیں علیحدہ علیحدہ حدیث‘ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں بھی ہمیں مل جاتی ہیں. قرآن حکیم میں سیرت بھی ہے‘ مثلاً غزوہ احد اور غزوہ احزاب وغیرہ کے حالات تفصیل سے مذکور ہیں. اس اعتبار سے انجیل و تورات اور قرآن میں بنیادی فرق ایک تو یہ ہے جو میں نے ابھی بیان کیا‘ اور دوسرا فرق یہ ہے کہ ذہن انسانی کا جو تدریجاً ارتقاء ہو رہا تھا اس کے اعتبار سے شروع میں صرف اوامرونواہی (Dos and donts) دیے گئے. اصل تورات تو صرف وہ احکام تھے جو پتھر کی الواح پر لکھے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے ‘یعنی ’’احکامِ عشرہ‘‘ (The Ten Commandments) . باقی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مواعظ ‘ سیرتِ موسویؑ اور تاریخ بنی اسرائیل کو جمع کر دیا گیا ہے. چنانچہ عہد نامہ قدیم کی پانچ کتابوں میں یہ سب کچھ موجود ہے. زبور صرف حمد کے ترانوں پر مشتمل تھی. قرآن مجید میں بھی حمد کے ترانے جابجا ملتے ہیں. بلکہ حمد کے حوالے سے قرآن حکیم میں مَیں نے ایک عجیب نکتہ نوٹ کیا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قرآن میں تقریباً سات سات پاروں کے بعد سورتوں کے آغاز میں ’’اَلْحَمْدُ‘‘ کا لفظ آتا ہے. قرآن حکیم کی ابتدا میں سورۃ الفاتحہ کا آغاز 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ 

سے ہوتا ہے. ساتویں پارے میں سورۃ الانعام کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ ۬ؕ  
(آیت۱

پھر پندرہویں پارے میں سورۃ الکہف کا آغازان پُر شکوہ الفاظ سے ہوتا ہے: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾ 

پھر اس کے بعد بائیسویں پارے میں’’الحمد‘‘ سے شروع ہونے والی دو سورتیں‘ سورہ سبا اور سورہ فاطر جڑواں طور پر آگئی ہیں. اور میں 
سمجھتا ہوں کہ اخیر کا حق بھی وہیں پر ادا کر دیا گیا ہے. ان مقامات کے علاوہ بھی قرآن مجید میں حمد کے ترانے بکھرے ہوئے ملتے ہیں اور یہ حمد آیات ِ آفاقی اور آیاتِ انفسی کے حوالے سے ہوتی ہے. تو زبور میں صرف حمد کے ترانے میں‘ احکام نہیں ہیں. اور انجیل صرف حکمت و دانائی پر مشتمل ہے‘ جو دین کے باطنی پہلو سے متعلق ہے. دین کا ایک ظاہری پہلو ہے جس سے ہمارے ہاں علم فقہ بحث کرتا ہے اور دین کے باطنی پہلو کو ہمارے ہاں تصوف کا دائرہ قرار دے دیا گیا ہے. نماز کی ایک ظاہری ہیئت ہے کہ تکبیر تحریمہ اس طرح کہی جائے گی‘ قیام اس طرح کیا جائے گا‘ ہاتھ اس طرح باندھے جائیں گے‘ رکوع اس طرح ہو گا‘ سجدہ یوں کیا جائے گا وغیرہ‘ اور ایک اس کی باطنی کیفیت ہے جو مطلوب ہے‘ یعنی خشوع‘ خضوع اور حضورِ قلب. سجدہ کرو تو ایسے محسوس ہو کہ اپنے رب کے قدموں میں سر رکھ دیا ہے.