تعلیمات ِ مسیحؑ اور تعلیماتِ نبویؐ میں مطابقت

اب میں حضرت مسیح علیہ السلام اور جناب محمد ٌرسول اللہ  کی تعلیمات میں مطابقت اور مماثلت کی چند مثالیں پیش کر رہا ہوں. حضرت مسیح علیہ السلام کی عدد تشدد کی تعلیم کے بارے میں ہمارے واعظ حضرات اکثر غیر محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ بڑی غیر فطری تعلیم ہے. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی یہ تعلیم آپؑ کی جدوجہد کے ایک خاص دور سے متعلق تھی. سیرتِ نبویؐ کے اس دور سے متعلق بعینہٖ یہی تعلیم حضرت محمد ٌرسول اللہ  کی تھی. کیا مکہ میں انتقام‘ قصاص اور بدلہ لینے کی اجازت تھی؟ نہیں ! بلکہ تعلیم یہ تھی کہ چاہے تمہارے ٹکڑے اڑا دیے جائیں‘ تمہیں زندہ جلا دیا جائے‘ تم جوابی کارروائی نہیں کرو گے! یہ ہر انقلابی جدوجہد کا ایک مخصوص مرحلہ ہوتا ہے. فرض کیجئے کہ‘ خدانخواستہ ‘ جیسا کہ قریش نے سازش کی تھی‘ رسول اللہ  قتل ہو جاتے یا بالفرض آپؐ کو بھی زندہ آسمان پر اٹھا لیا جاتا تو ظاہر ہے کہ بات بس یہیں تک رہتی‘ اگلا مرحلہ کہاں آتا؟ وہ جہاد و قتال کے مرحلے اور بدر وحنین کے معرکے کیونکر پیش آتے؟ تو حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی جدوجہد کے پہلے مرحلے میں عدم تشدد کی جو تعلیم دی وہ ان حالات میں صدفی صد درست تعلیم تھی. 

اسی تعلیم کی جھلک ہمیں حضرت محمد ٌرسول اللہ  کی بعض احادیث میں بھی ملتی ہے. ایک حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں: اَمَرَنِیْ رَبِّیْ بِتِسْعٍ ’’میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے‘‘. اور ان میں سے تین باتیں آپؐ نے یہ فرمائیں: وَاَنْ اَصِلَ مَنْ قَطَعَنِی وَاُعْطِیَ مَنْ حَرَمَنِی وَاَعْفُوَعَمَّنْ ظَلَمَنِی (رواہ رزین‘ عن ابی ہریرۃؓ بحوالہ مشکاۃ المصابیح) 
یعنی ’’جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں‘ جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں‘ اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کر دوں‘‘. اب دیکھئے اس میں قصاص اور بدلے کی تعلیم کہاں ہے؟ تو کیا یہ‘ معاذ اللہ خلافِ فطرت تعلیم ہے؟ یہ تو ایک حکیمانہ تعلیم ہے. یہ اسلام کی روحانی تعلیم ہے جس کا مرتبہ بہت بلند ہے. یہ قانون نہیں ہے‘ قانون وہی رہے گا جو قرآن میں بایں الفاظ بیان ہوا: 

وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ 
(البقرۃ) 

’’اے ہوشمندو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘.لیکن اگر آپ بدلہ لینے پر قادر ہوں‘ پھر بھی معاف کر دیں تو اس کے بارے میں فرمایا: 

وَ لَمَنۡ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿٪۴۳﴾ 
(الشوریٰ) 

’’البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے‘ تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے‘‘. قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دینے سے انسان کو نا قابل بیان لذت محسوس ہوتی ہے اور بڑا روحانی ترفع حاصل ہوتا ہے. تو یہ روحانیت اور حکمت کی تعلیم ہے‘ بلند مراتب کے حصول کی تعلیم ہے جو دی جا رہی ہے. میں ہمیشہ بیان کرتا رہا ہوں کہ مکہ میں بارہ برس تک ’’Order of the day ‘‘ یہی تھا کہ ہر طرح کے تشدد کو کسی مزاحمت کے بغیر برداشت کرو! یہی بات حضرت مسیح علیہ السلام کہہ رہے ہیں کہ ’’شریر کا مقابلہ نہ کرنا‘ بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے!‘‘ (متی:۵.۳۹)

میں نے اپنی پوری زندگی میں آج تک جو مواعظ پڑھے ہیں ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ’’پہاڑی کے وعظ‘‘ (Sermon of the Mount ) سے زیادہ دلپذیراور مؤثر کوئی وعظ نہیں پڑھا. یہ مفصل وعظ متی کی انجیل کے پانچویں باب سے شروع ہوتا ہے. اس وعظ کے چند ابتدائی جملے ملاحظہ کیجئے:

’’مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی ان ہی کی ہے.
مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے.
مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے.
مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ رہیں گے.
مبارک ہیں وہ جو رحمدل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا.
مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے.‘‘
ان کو پڑھتے ہوئے آدمی بظاہر یہ محسوس کرتا ہے کہ شاید یہ بدھ مت کے بھکشوؤں کو تعلیم دی جا رہی ہے. اسلام کی تعلیم میں تو جہاد وقتال لازمی اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں: 

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ 
(البقرۃ: ۱۹۰

’’اور جنگ کرو اللہ کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ جو تم سے جنگ کرتے ہیں‘‘. لیکن درحقیقت یہ چیزیں اتنی نمایاں ہو گئی ہیں کہ دوسری چیزیں سرے سے نگاہوں سے اوجھل ہیں‘ حالانکہ وہ بھی ہمارے دین میں اور رسول اللہ  کی تعلیمات میں موجود ہیں. آپ رسول اللہ  کی ایک حدیث ملا حظہ کیجئے اور دیکھئے کہ اس میں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے مواعظ میں کس قدر کامل مطابقت ہے. ترمذی شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی آنحضور  کی ایک دعا کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: 

اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِی مِسْکِینًا وَاَمِتْنِی مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ’’اے اللہ! مجھے مسکین ہی زندہ رکھ‘ مسکینی کی حالت ہی میں مجھے موت آئے‘ اور قیامت کے روز تو مجھے زمرۂ مساکین میں اٹھائیو!‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے کہیں حضور  کو یہ دعا مانگتے سن لیا تو آپؐ سے سوال کیا : لِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’کیوں؟ اے اللہ کے رسول!‘‘ (آپؐ مسکینی کی یہ دعا کس لیے مانگ رہے ہیں؟) قَالَ: اِنَّھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الْاَغْنِیَائِ بِاَرْبَعِیْنَ خَرِیْفًا آپؐ نے فرمایا: ’’یہ مساکین دولت مندوں کے مقابلے میں چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہو جائیں گے‘‘. آپ نے مزید فرمایا: یَا عَائِشَۃُ لَا تَرُدِّی الْمِسْکِیْنَ وَلَوبِشِقِّ تَمْرَۃٍ ’’اے عائشہ! کبھی کسی مسکین کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹانا‘چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی تمہارے پاس ہو تو وہی اس کو دے دینا!‘‘ یَا عَائِشَۃُ اَحِبِّی الْمَسَاکِیْنَ‘ وَقَرِّبِیھِمْ یُقَرِّبُکِ اللّٰہُ یَومَ القِیَامۃِ ’’اے عائشہ! مسکینوں سے محبت کرنا اور انہیں اپنے سے قریب رکھنا‘ تمہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنا قرب عطا فرمائے گا‘‘. تو یہ وہ تعلیم ہے جو ہمارے ہاں نظروں سے اوجھل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے بعض غیر محتاط لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم کو خلافِ فطرت قرار دے دیتے ہیں.

جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ قرآن مجید جامع ترین کتاب ہے اور اس میں آیات ‘ احکام ‘ حکمت اور تزکیہ ساری چیزیں جمع ہیں‘ پھر یہ سابقہ کتب سماویہ پر مُھَیمِن یعنی نگران و نگہبان بھی ہے اور بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس میں قانونی تعلیمات کے ساتھ ساتھ روحانی تعلیمات بھی ملتی ہیں.

میں نے آغاز خطاب میں یوحنا کی انجیل کا حوالہ دیا تھا. اس میں حضرت یوحنا کا یہ جملہ ملا حظہ کیجئے: 

’’اس لیے کہ شریعت تو موسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی‘‘. (یوحنا:۱.۷۱)

یعنی قانونِ شریعت تو ہمیں موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے دیا گیا لیکن حقیقت الحقائق ‘گہرائی اور حکمت در حقیقت مسیح علیہ السلام کے ذریعے آئے ہیں. ان ہی دوچیزوں کے لیے قرآن حکیم میں’’کتاب‘‘ اور ’’حکمت ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں. ’’کتاب‘‘ سے مراد احکام ہیں اور ’’حکمت ‘‘ نام ہے ذہن و فکر اور فہم کی گہرائی کا‘ روحانیت اور حقائق باطنی تک رسائی کا‘ اور دین کے اندرونی پہلو (Esoteric Element) کا. چنانچہ تورات’’کتاب‘‘ ہے اور انجیل’’حکمت‘‘ ہے. اور اگر آپ انجیل کی تعلیمات کا احادیث نبوی سے تقابل کریں گے تو آپ کو ان کے مابین مماثلت اور مطابقت نظر آئے گی. اس لیے کہ قانون تو انجیل میں ہے ہی نہیں. وہ تو خود حضرت مسیح علیہ السلام نے فرما دیا تھا کہ:

’’یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں. منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں‘‘. (متی :۵.۱۷)

یعنی میں شریعت ِموسوی کو منسوخ کرنے نہیں آیا‘ شریعت تو وہی رہے گی. اسے تو سینٹ پال نے منسوخ قرار دیا‘ جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا مذکورہ بالا قول آج بھی انجیل میں موجود ہے. یہ بات جان لیجیے کہ انجیل میں بہت کم تحریف ہوئی ہے. اناجیل اربعہ(متی ‘ مرقس‘ لوقا اور یوحنا) کی حد تک مجھے تو ان میں کوئی گمراہ کن نظریات یا غلط عقائد نظر نہیں آئے. یہ ضرور ہے کہ انجیل کا متن اس طرح کا تو نہیں ہے جیسے قرآن کا ہے کہ وہ لفظاً اور حرفاً محفوظ ہے. 

حدیث نبوی ؐ سے انجیل کی مشابہت کی ایک چھوٹی سی مثال اور ملاحظہ کیجئے. انجیل میں طلاق کے بارے میں حضرت مسیح علیہ السلام کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: 

’’(تورات میں) یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو اپنی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ کر دے. لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑے وہ اس سے زنا کراتا ہے‘‘.(متی:۵.۳۱.۳۲)

معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے قول کو نقل کرنے میں کہیں ذرا الفظی اونچ نیچ ہو گئی ہے‘ ورنہ حقیقت کے اعتبار سے آپ ؑکی بات بالکل درست ہے. آپ کو معلوم ہے کہ اگرچہ ہماری شریعت میں قانون کے اعتبار سے طلاق جائز ہے‘ لیکن حدیث میں اس کے لیے بڑے سخت الفاظ آئے ہیں: اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاقُ (ابودائود‘ عن ابن عمرؓ ) یعنی ’’اللہ تعالیٰ کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نفرت طلاق سے ہے‘‘. نوٹ کیجئے کہ یہاں طلاق کے لیے ’’اَبْغَض‘‘ کا لفظ آیا ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ مبغوض ترین چیز ہے. بغیر کسی حقیقی سبب کے عورت کو طلاق دے دینا انتہائی ظلم ہے. اور بعض جگہ تو طلاق کو محض عیاشی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے. یعنی پہلے سے چار بیویاں موجود ہیں اور کسی پانچویں پر دل آ گیا تو ایک بیوی کو طلاق دے دی تاکہ پانچویں اپنے حبالہ عقد میں آ جائے. ہمارے عرب ممالک کے امراء و شیوخ یہی کچھ تو کرتے ہیں. اور پھر بڑے بڑے حرم بنتے چلے جاتے ہیں. اس لیے کہ جو عورت کچھ عرصہ کسی امیر کی بیوی رہی ہو کیسے ممکن ہے کہ وہ اسے کسی اور کی زوجیت میں جانے کی اجازت دے دے. اب وہ بے چاری وہاں اس حال میں رہے گی کہ نہ وہ شوہر والی ہے اور نہ دوسری شادی کرنے کے لیے آزاد ہے. بس اسے نان نفقہ ملتا رہے گا اور وہ ایک Human Vegetable بن کر زندگی گزار دے گی. اب ظاہر بات ہے کہ ایسی کسی عورت سے اگر کوئی غلط حرکت سرزد ہو جائے تو اس کا ذمہ دار وہی شخص ہو گا جس نے اس کو طلاق دی ہے. یہ بات تھی جو حضرت مسیح علیہ السلام نے کہی تھی جسے عیسائیوں نے قانون کا درجہ دے دیا‘ حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے خود فرما دیا تھا کہ قانون تو تورات کا رہے گا. حقیقت یہ ہے کہ طلاق کے بارے میں جو بات آنحضور  نے فرمائی تھی تقریباً وہی بات حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمائی. گویا کہ ایسی عورت کی بدکاری کا ذمہ دار وہ شخص ہے جس نے اسے طلاق دی.

میرے نزدیک حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور احادیث نبویؐ کے تقابلی مطالعے اور ان کے مابین مطابقت تلاش کرنے کی گہری ضرورت ہے‘ تاکہ ہمارے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہو سکے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات غیر فطری ہیں. گاندھی جی کے عدم تشدد کے بارے میں یہ روایت میں نے بارہا سنائی ہے جو منفصل‘ یا منقطع نہیں بلکہ متصل روایت ہے. یعنی مجھ سے جناب میم شین نے بیان کیا‘ انہیں سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان نے بتایا اور ان سے خود مہاتماگاندھی نے یہ بات کہی کہ میں نے عدم تشدد حضرت مسیح اور حضرت محمد (علیہما الصلوٰۃ و السلام) سے سیکھا ہے. اس اعتبار سے اسے خلافِ فطرت کہنا درست نہیں ہے‘ بلکہ عدم تشدد کی تعلیم دراصل انقلابی جدوجہد کے ایک خاص دور میں ناگزیر ہوتی ہے. اسے اس خاص تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے. کسی بھی انقلابی تحریک میں ایک مرحلہ صبر محض (Passive Resistance) کا ہوتا ہے اور اس کے بعد پھر ایک مرحلہ’’اقدام‘‘ (Active Resistance) کا آتا ہے. رسول اللہ کی جدوجہد جب ’’اقدام‘‘ کے مرحلے میں داخل ہوئی تب حکم دیا گیا کہ ’’اب جنگ کرو ان سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں‘‘ اور ’’ان کو قتل کرو جہاں کہیں ان کو پاؤ اور ان کو وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا‘‘ لیکن صرف جہاد و قتال کے ان احکام ہی کو نہ دیکھئے. یہ بھی دیکھئے کہ مکہ میں کیا حکم تھا؟ یہ کہ : کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ (اپنے ہاتھ بندھے رکھو!) دشمن مار رہا ہے تو مار کھاؤ‘ لیکن ہاتھ نہ اٹھاؤ! وہی طرزِ عمل اختیار کرو جو حضرت ہابیل نے اپنے بھائی قابیل کے مقابلے میں اختیار کیا تھا اور کہا تھا 

لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ 
(المائدۃ:۲۸

یعنی ’’اگر تم اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کے لیے بڑھاؤ گے تو بھی میں اپنا ہاتھ تمہیں قتل کرنے کے لیے نہیں بڑھاؤں گا‘‘. یہی طرزِ عمل شہید مظلوم ‘ خلیفہ ٔثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اُس وقت اختیار کر کے دکھایا جبکہ آپؓ ذوالقرنین کی مملکت سے کم ازکم تین گنا بڑی مملکت کے فرمانروا تھے‘ ان کے صرف ایک حکم پر لاکھوں کی تعداد میں فوجیں آ سکتی تھیں‘ حضرت معاویہ ؓ اور حضرت عمرو ؓ بن العاص کی طرف سے مسلسل پیغام آرہے تھے‘ شام کی فوجیں تیار کھڑی تھیں کہ آپؓ اجازت دیں تو ان مٹھی بھر سبائیوں کو پیس کر رکھ دیں. لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ میں اپنی جان کے تحفظ کے لیے کسی کلمہ گو کا خون بہانے کے لیے تیار نہیں ہوں. اس لیے کہ یہ ’’کلمہ گو‘‘ تو ہیں‘ جھوٹے ہیں یا سچے‘ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا. ان کے دل میں کیا ہے‘ وہ میں نہیں جانتا. البتہ اگر یہ مجھے قتل کر دیں تو پھر تم ان سے قانون کے مطابق قصاص لینا. تو واقعہ یہ ہے کہ اگر ’’صبر محض‘‘ کو ’’اقدام‘‘ کے مقابلے میں اور ’’اخلاقی و روحانی تعلیمات‘‘ کو’’قانون‘‘ کے مقابلے میں رکھ کر دیکھا جائے تو اناجیل اربعہ میں حدیث نبویؐ کے ساتھ بڑی کامل مشابہت اور مطابقت نظر آئے گی. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں صرف اناجیل اربعہ کی بات کر رہا ہوں‘ عیسائیت میں بعد میں درآنے والی سینٹ پال کی تعلیمات کا ذکر نہیں کررہا. اس لیے کہیں آپ کسی مغالطے کا شکار نہ ہو جائیں. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین والمسلماتoo