قریباً دو سال قبل تنظیم اسلامی کے ملتزم رفقاء کی ایک خصوصی تربیت گاہ میں امیر تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے جہاں فلسفہ و حکمت دین سے متعلق دیگر اہم موضوعات پر اظہار خیال فرمایا وہاں ’’حقییت تصوف‘‘ کے موضوع پر بھی ایک مفصل لیکچر میں اپنے خیالات و افکار کو مرتب انداز میں شرکاء کے سامنے رکھا. یہ ایک نہایت جامع خطاب تھا جس میں نہ صرف یہ کہ تصوف کے مقاصد کے حوالے سے بعض اہم مثبت نکات کا مفصل بیان ہوا بلکہ اس کے بعض دیگر پہلوؤں کے حوالے سے کچھ منفی باتوں کا ذکر بھی تفصیلی انداز سے ہوا. گزشتہ سال ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ ریاض (سعودی عرب) میں تنظیم الاخوان کا حلقہ‘ تصوف کے حوالے سے اپنے نظریات کی تائید میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تقریر پر مشتمل ایک کیسٹ عام کر رہا ہے. ریاض میں مقیم تنظیم اسلامی کے رفقاء نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ امیر محترم کے مذکورہ بالا خطاب کے بعض حصوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک ایسا کیسٹ تیار کیا گیا ہے جس میں تصوف سے متعلق صرف مثبت باتوں کا ذکر ہے اور خطاب کے وہ تمام حصے حذف کر دیے گئے ہیں جن کے ذریعے تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے. ظاہر بات ہے یہ طرزِ عمل دیانت و اخلاق کے ہر اصول کے صریحاً منافی تھا. ریاض کے رفقاء تنظیم نے جب تنظیم الاخوان کے دوستوں سے اس پر احتجاج کیا تو ان کا جواب ’’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے مصداق تھا کہ ’’ آپ خواہ اسے بدیانتی شمار کریں یا کوئی بھی فتویٰ لگائیں‘ ہم اسے اپنے اعتبار سے بالکل جائز سمجھتے ہیں‘‘. ؏ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے!

تنظیم اسلامی ریاض کی ایک ذمہ دار شخصیت جناب رضا محمد گجر صاحب نے اس پر ایک احتجاجی مراسلہ ۲۲ فروری ۱۹۹۶ء کو تنظیم الاخوان کے امیر مولانا محمد اکرم اعوان کے نام لکھا لیکن وہاں سے بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی. اس صورتحال کے پیش نظر تنظیم کی مجلس عاملہ کے فیصلہ کے مطابق اس خطاب کو‘ جو دو کیسٹوں پر محیط ہے‘ مکمل صورت میں ماہنامہ’’میثاق‘‘ میں قسط وار شائع کر دیا گیا اور ان حصوں کو خاص طور پر جلی حروف میں کمپوز کیا گیا جن کو تنظیم الاخوان کے وابستگان نے اپنی کیسٹ سے حذف کر دیا تھا. یہ خطاب میثاق کے فروری‘ مارچ اور اپریل۱۹۹۷ء کے شماروں میں تین اقساط میں شائع ہوا. اور اب اسے کسی قدر حک و اضافہ کے ساتھ افادۂ عام کے لیے کتابچے کی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے.

عاکف سعید
مرکزی ناظم مکتبہ‘مرکزی انجمن خدام القرآن

۶جون ۱۹۹۷ء 
الحمد للّٰہ وکفٰی، والصلوۃ والسَّلام علی عبادہ الذین اصطفی‘ خصوصًا علٰی افضلھم وخاتم النَّبیین مُحمدِ الاَمِین وَعلی آلِہ وَصَحْبِہٖ اجمعین … اَمَّا بَعد فقد قال اللّٰہ تبارک وتعالٰی کمَا وردَ فِی سورۃ المائدۃ : 

لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ 


صدق اللّٰہ العظیم … ربِّ اشرح لی صدری ، ویسرلی امری، واحلل عقدۃ من لسانی، یفْقھوا قولی . اللّٰھم ارِنَا الحق وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ. اللّٰھم نور قُلُوبنا بالایمان واشْرح صُدورنا للاسلام . اللّٰھم وفقنا لما تُحِبُّ وترضی . اللّٰھم ربنا زدنا ایمانا وَھُدی وَّعِلْما نافعا وعملا صَالحا مُتقبلا . اللّٰھم ربنا اجْعلنا من عبادک الْمُخلصین وعبادک المُحسنین . آمین یا ربّ العالمین ! 


مسائل حکمت کے ضمن میں ہمارے آج کے موضوع کا جامع عنوان ’’تصوف‘‘ ہے. اور اس ضمن میں خاص طور پر یہ کہ اس کا 
سنت ِرسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے انحراف کس نوعیت کا تھا اور کیوں ہوا؟ چونکہ یہ موضوع بہت طویل ہے‘ اس لیے میں تمہید میں کوئی وقت ضائع کیے بغیر براہِ راست گفتگو کا آغاز کر رہا ہوں اور کوشش کر وں گا کہ تکرار اوراعادے کی ضرورت کم سے کم پیش آئے.