پہلی بات یہ کہ تصوف کا موضوع اور مقصد کیا ہے؟ اس کے ضمن میں پہلا مشاہدہ (observation) یہ ہے کہ تصوف کا موضوع اور مقاصد صد فی صد درست اور خالص اسلامی ہیں. اگر ہم انہیں معین الفاظ کا جامہ پہنائیں تو وہ یہ ہیں: 
اوّلاً‘ 
جہل سے نجات اور معرفت کا حصول. 

ثانیاً‘ 
تہذیب وتزکیہ نفس (تہذیب . مہذب بنانا. ہم نے دسویں جماعت میں ایک عربی شعر پڑھا تھا جس میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں: ’’رَبُّــوا بَنِیکم‘ عَلِّموھم ‘ ھَذِّبُوا فتَیاتِکم‘‘ اولاد کے لیے تعلیم کے ساتھ ہی تہذیب کا لفظ آتا ہے.) 

ثالثاً‘ 
تصفیہ ٔقلب اور تجلیہ ٔروح (یعنی رُوح کو جلا دینا اور اسے اَنوارِ الٰہی سے منور کرنا) اس ضمن میں میرے استاد مرحوم مولانا منتخب الحق قادری رحمہ اللہ نے ابن سینا کا ایک جملہ سنایا تھا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تجلیاتِ ربانی سے تمہیں کوئی حصہ ملے تو ’’فجاھد فی خلواتک‘‘. اپنی خلوتوں میں مجاہدے کرو‘ مراقبے کرو ’’فلعَلَّ شعشعۃ تلْمح لک‘‘ تو شاید کبھی تجلی خداوندی کی کوئی شعاع تمہارے لیے بھی چمک اٹھے. 
رابعاً‘ 
خالق سے خلوص وا خلاص (اور دنیا و مافیہا سے بے رغبتی) اور 
خامساً‘ 
مخلوق کی خدمت . شیخ سعدیؒ کا بہت پیارا شعر ہے ؎ 

طریقت بجز خدمت خلق نیست
بتسبیح و سجادہ و دَلق نیست


یعنی طریقت تو صرف خدمت خلق کا نام ہے ‘ سوائے خدمت خلق کے طریقت کی کوئی 
حقیقت نہیں. ہاتھ میں تسبیح ہو‘ جائے نماز کندھے پر ہو اور دَلق یعنی گدڑی اوڑھی ہوئی ہو یہ تصوف اور طریقت نہیں ہے‘ بلکہ طریقت تو نام ہے خدمت خلق کا. اب ظاہر ہے کہ یہ تمام مقاصد دین ہی کے مقاصد ہیں‘ جو مطلوب ہیں. لہٰذا جہاں تک تصوف کے مقاصد اور تصوف کے موضوع کا تعلق ہے وہ عین دین ہے اور وہ عین مطلوب ہے.